پاکستان بھارت تعلقات اور متعصب ہندو توا کا عروج

کانگریس کے مرکزی رہنما منی شنکر ایر کی تشویش

پاک بھارت تعلقات میں سردمہری نئی بھی نہیں اور انوکھی بھی نہیں۔ ہاں، افسوس ناک اور نقصان دہ ضرور ہے۔ دوطرفہ تجارت بھی تھمی ہوئی ہے۔ بھارت میں 10 سال قبل ایوان ہائے اقتدار میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس نے معاملات کو انتہائی خرابی سے دوچار کردیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پہلے بھی اقتدار میں آتی رہی ہے مگر اب کے اُس کے رنگ ڈھنگ کچھ اور ہی رہے ہیں۔ نریندر مودی کی سربراہی میں بننے والی بی جے پی حکومت نے انتہا پسندی کی ساری حدیں پار کرلی ہیں۔

مودی سرکار نے پانچ پانچ سال کے مسلسل دو ادوار میں وہ سب کچھ کیا ہے جو بھارت کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے ضروری ہوسکتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اندرونِ ملک مسلمانوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کو بھی دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ خود نریندر مودی نے بھی شرم و لحاظ کی ساری حدیں پار کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ بھارت کے وزیراعظم کی حیثیت سے یعنی منصب کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نریندر مودی کو جو کچھ کسی حال میں نہیں کہنا چاہیے وہ بھی انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اُنہوں نے سرکاری سطح کے خطاب میں بھی تمام مسلمانوں کو ’’گھس بیٹھیے‘‘ قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔

کیا اب پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کی کوئی صورت نہیں بچی؟ کیا اب دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کی خلیج حائل ہی رہے گی؟ کیا دونوں ممالک کے عوام اب کبھی اپنے رابطے معمول پر نہیں لاسکیں گے؟ یہ، اور ایسے ہی نہ جانے کتنے دوسرے سوال ذہنوں میں کلبلاتے رہتے ہیں۔

اب بھارت میں بھی پاکستان سے مذاکرات کے حق میں آواز اٹھنے لگی ہے۔ اہلِ دانش مودی سرکار پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت کی جائے۔

بھارت کے معروف دانش ور، تجزیہ کار اور سابق حکمراں جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما منی شنکر اَیّر نے کہا ہے کہ مودی سرکار کے پاس پاکستان سے بات چیت کے کئی آپشن ہیں۔ لازم نہیں کہ جھک کر بات کی جائے اور پاکستان کی کوئی بھی بے جا بات مان لی جائے۔ مودی سرکار چاہے تو پاکستان سے سخت لہجے میں بھی بات کرسکتی ہے، مگر بات چیت ہونی ضرور چاہیے۔ پاکستان کو کسی بھی طور، کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک انٹرویو میں منی شنکر ایر نے کہا کہ اختلافی امور پر سیرحاصل گفت و شنید ہوسکتی ہے اور کہیں کہیں غیر معمولی طور پر غیر لچک دار رویہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، تاہم پاکستان کو نظرانداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ پاکستان کو مسلسل نظرانداز کرنے کی بھارت کو بھاری قیمت چُکانا پڑے گی۔ اگر پاکستان کا خاطر خواہ احترام یقینی نہ بنایا جائے تو وہ ایٹم بم بھی مار سکتا ہے!

منی شنکر ایر کا کہنا تھا کہ پاک بھارت تعلقات میں متواتر سردمہری اچھی بات نہیں۔ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی طرف جانا چاہیے۔ لازم ہے کہ بات چیت جاری رہے اور تعلقات معمول پر لائے جائیں۔

ایک سوال پر منی شنکر ایر کا کہنا تھا کہ مودی سرکار پاکستان سے معاملات درست کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہورہی۔ اگر بھارت نے طاقت کے استعمال کے آپشن کو ترجیح دی تو پاکستان بھی ایٹمی اسلحہ بروئے کار لانے پر مجبور ہوسکتا ہے۔

منی شنکر ایر کا استدلال تھا کہ بھارت کو بعض معاملات میں لچک دکھاتے ہوئے پاکستان سے معاملات درست کرنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی پاگل نے لاہور پر ایٹمی ہتھیار سے حملہ کیا تو تابکاری کو امرتسر تک پہنچنے میں صرف 8 سیکنڈ لگیں گے۔

کانگریس کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کا احترام کیا جائے تو وہ پُرامن رہے گا۔ غیر ضروری کشیدگی کی گنجائش نہیں۔ کسی بھی طرف کا کوئی سرپھرا کچھ کرنے پر تُل گیا تو بہت بڑی تباہی واقع ہوگی۔ نریندر مودی کا نام لیے بغیر منی شنکر ایر نے کہا کہ اگر ہمیں ’’وِشو گرو‘‘ (ورلڈ لیڈر) بننا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان سے اپنے معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں، جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے ایک عشرے کے دوران سنجیدگی سے کچھ نہیں کیا گیا۔

منی شنکر ایر کا شمار بھارت کے اُن دانش وروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ پاکستان سے گفت و شنید جاری رکھنے اور تعلقات بہتر بنائے رکھنے کی وکالت کرتے آئے ہیں۔ منی شنکر ایر نے 1980 کے عشرے میں پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کے حوالے سے ’پاکستان پیپرز‘ کے زیرِعنوان کتاب لکھی تھی جس کی دونوں ملکوں میں غیر معمولی پذیرائی کی گئی تھی۔

جو کچھ بھی منی شنکر ایر نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے وہ حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔

پانچ پانچ سال کے دو ادوار میں مودی سرکار نے جو کچھ کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ فخر بھی نہیں اور اطمینان بخش بھی نہیں۔ نفرت کی سیاست کو پروان چڑھاکر بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا ہے۔ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے نفرت کی بنیاد پر ہندوؤں کو یکجا کیا گیا ہے۔ مودی سرکار کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی زیادہ پروان نہ چڑھے۔ یہ عجیب تضاد والا معاملہ ہے کیونکہ ایک طرف تو مودی سرکار بھارت کو عالمی طاقت بنانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف اندرونی سطح پر معاشرتی اور معاشی ناہمواریاں دور کرنے پر برائے نام بھی توجہ نہیں دی جارہی، بلکہ کوشش کی جارہی ہے کہ اقلیتوں کو دبوچ کر رکھا جائے۔ اس حوالے سے اُس پر بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ سکھوں کا معاملہ بہت نمایاں ہے۔ مودی سرکار نے سکھوں سے تین عشروں سے روا رکھی جانے والی نفرت کو مزید پروان چڑھایا ہے۔ اب اس معاملے میں کینیڈا سے اُس کے تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ سے بھی معاملات تھوڑے سے بگڑے ہیں۔

منی شنکر ایر جیسے لوگوں کو زیادہ نمایاں ہوکر آگے آنا چاہیے اور اپنی بات زیادہ زور دے کر بیان کرنی چاہیے۔ سیکولر عناصر اگر خاموش رہے تو بھارت کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ معاشی سطح پر استحکام مودی سرکار کی اکڑ میں اضافہ کررہا ہے۔ وہ اِس نکتے کو فراموش یا نظرانداز کرچکی ہے کہ محض معاشی قوت کی بنیاد پر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ بھرپور معاشرتی ہم آہنگی اور ثقافتی تنوع کا توازن یقینی بنانا بھی لازم ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے، توقع کے مطابق، منی شنکر ایر کے انٹرویو پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کانگریس کے لیڈر پاکستان کی زبان بول رہے ہیں، اہلِ بھارت کو پاکستان کے ایٹم بم سے ڈرایا جارہا ہے۔ اترپردیش کے وزیرِاعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ منی شنکر کو یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کے ایٹمی ہتھیار ریفریجریٹر میں بند رکھنے کے لیے نہیں ہیں۔

بہرکیف، منی شنکر ایر جیسے اہلِ دانش کی بات سُننا ہوگی تاکہ دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی شدید سردمہری ختم ہو، تجارت اور عوامی رابطے بحال ہوں۔