اطلاعات تک رسائی کا قانون اور برطانوی عدالت کا فیصلہ

جمہوریت ذرائع ابلاغ کی آزادی کا حق اور مغرب کا فریب

آزادیِ اظہار، جمہوریت اور مساوات… مغرب کے ان مسحور کن نعروں کے پیچھے دنیا دوڑی چلی جارہی ہے اور مغرب کا سکہ پوری دنیا پر ان ہی بنیادوں پر چل رہا ہے۔ جمہور کی آزادی اور انصاف کو ایک دوسرے کا نعم البدل قرار دیا گیا، یعنی وہ ممالک جہاں عدلیہ آزاد نہیں وہاں جمہور کی حکمرانی ممکن نہیں۔ اور ابراہام لنکن کے مطابق ’’جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کی رائے سے اور عوام کے لیے‘‘۔ اس جمہوریت کو ناپنے کے جو پیمانے بنائے گئے ان میں سے ایک ’اطلاعات کی عام افراد تک رسائی‘ ہے جس کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی عالمی طور پر جمہوریت کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

اس تمہید کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ برطانیہ جس کو دنیا بھر میں پارلیمان یعنی جمہوریت کی بنیادی اکائی کی جنم بھومی مانا جاتا ہے وہاں ایک واقعہ پیش آیا اور حیرت انگیز طور پر اطلاعات تک رسائی کے عالمی اصول کی مکمل نفی کردی گئی۔ برطانیہ کے مؤقر اخبار و ابلاغی ادارے گارڈین نے فریڈم آف انفارمیشن (اطلاعات تک رسائی) کے قانون کے تحت درخواست دائر کی کہ شاہی خاندان کی سیکورٹی پر خرچ ہونے والی رقم کی تفصیلات دی جائیں جس میں یہ بھی بتایا جائے کہ شاہی خاندان کے برطانیہ میں قیام اور بیرونِ ملک دوروں کی سیکورٹی پر کتنی لاگت آتی ہے۔ اس حوالے سے گارڈین نے سال 2017ء سے 2020ء تک تین سال میں ہونے والے اخراجات کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ اخبار کا نکتہ نظر یہ تھا کہ عوام کے ٹیکس کے پیسے کے استعمال کو جاننا عوام کا بنیادی حق ہے۔ لیکن یہ تفصیلات برطانوی حکومت نے دینے سے انکار کردیا۔ قانون کے مطابق یہ معاملہ عدالت کے روبرو پیش ہوا اور فریڈم آف انفارمیشن ٹریبونل میں دو ججوں نے اس کیس کی سماعت انتہائی رازداری سے کی، جس میں عام افراد کو اس کیس کی سماعت تک رسائی نہیں تھی۔ حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے حکام اور تھامس ردرفورڈ جوکہ شاہی خاندان کی سیکورٹی کے ذمہ دار ہیں، پیش ہوئے۔ سماعت میں حکومت اور شاہی خاندان کے چیف سیکورٹی آفیسر ردرفورڈ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ شاہی خاندان کی سیکورٹی کے معاملے میں حساسیت کی بنا پر یہ معلومات فراہم نہیں کی جاسکتیں، جس پر گارڈین نے اپنا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ اگر جزو کی الگ الگ معلومات ممکن نہیں تو کم از کم تین سال میں ہونے والے کُل اخراجات کی تفصیل بتادی جائے، اس سے شاہی خاندان کی سیکورٹی کو کوئی بھی خدشہ لاحق نہیں ہوگا۔ تاہم اس کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس رقم کے بارے میں بتانا بھی ممکن نہیں۔ اس پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ شاہی خاندان کی سیکورٹی کے اخراجات کے بارے میں معلومات نہیں دی جاسکتیں، اور عدالت میں شاہی خاندان کے چیف سیکورٹی آفیسر کی جانب سے جو ثبوت یا شواہد بند کمرے میں پیش کیے گئے ہیں ان کو بھی عوام تک کسی صورت میں نہیں پہنچایا جاسکتا۔ اخبار کی شاہی خاندان کی سیکورٹی پر اخراجات کی تفصیلات جاننے کی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے۔ 11 مئی 2024ء کو اخبار گارڈین نے اس بات کا انکشاف اپنی خبر میں کیا۔

یہ ہے مغرب کی وہ جمہوریت اور عدالتی نظام جس کی مثالیں دیتے خود مغرب نہیں تھکتا۔

اب ذرا آج سے 1400 سال قبل چلیں کہ جہاں خلیفۂ وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اپنا سامانِ تجارت بازار میں فروخت کرنے کے لیے نکلتے ہیں اور صحابہ کے منع کرنے پربیت المال سے بطور خلیفۂ وقت ایک مزدور کی اجرت کے برابر وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منبر پر سوال کرلیا جاتا ہے کہ کرتا کیسے بنا؟ یہ ہے وہ آزادیِ اظہارِ رائے اور مساوات جس کا درس 1400 سال قبل نہ صرف دیا جاچکا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔

مغرب کی جمہوریت میں نہ تو عدل و مساوات ہے، نہ انصاف اور نہ ہی آزادیِ اظہار جس کا شور و غوغا چہار جانب ہے۔ پورے مغرب میں کون سا ایسا حکمران ہے جو ایک مزدور کے برابر اپنی تنخواہ مقرر کرے؟ حتیٰ کہ ایک رکنِ پارلیمان کی بھی کم از کم تنخواہ ایک مزدور کی تنخواہ سے پانچ سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ مساوات، عدلِ اجتماعی اور جواب دہی کا احساس دنیا کے قوانین کی بدولت ممکن نہیں، کیونکہ انسان اپنی آسانی کے لیے اپنے آپ کو ان سب سے بچانے کے قوانین میں ہیر پھیر کرکے خود کو بچاتا ہے۔ انصاف، مساوات اور عدلِ اجتماعی کی اصل، وہ فلسفہ ہے جو انسان کو اِس دنیا کے بجائے کسی اور دنیا میں ہونے والے امتحان کے لیے تیار کرتا ہے۔

مغرب میں جمہور کی آزادی ایک فریب ہے کہ جہاں اس کو کنٹرول کرنے کے کچھ اور طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں جس میں سرمایہ اور میڈیائی طاقت اہم ترین ہیں، انہی کی بنیاد پر ان دو کی یکجائی ہوتی ہے۔ سرمایہ انسان کو میڈیائی قوت کے بل بوتے پر ایک اسٹار بناکر پیش کرتا ہے۔ عدل وانصاف کے پیمانے جہاں پامال ہوتے ہیں وہیں سرمائے سے ابلاغی اداروں کے منہ بند کردیے جاتے ہیں جیسا کہ اس اہم ترین خبر میں ہوا کہ جہاں عوام کے ٹیکس کے پیسے کا بتانے سے بھی ریاست گریزاں ہے اور سوائے ایک اخبار کے، پورا میڈیا سکون سے ہے، اور اس اہم ترین عدالتی فیصلے پر کوئی خبر سوائے درخواست کنندہ کے اخبار کے، کہیں شائع نہ ہوسکی۔ مغرب کی آزادیِ اظہار اور عدالتی انصاف کے ساتھ ساتھ عوام کے ٹیکس کے پیسے کے استعمال کے حوالے سے یہ فیصلہ اہم ترین ہے کہ جہاں مغرب کے اصولوں پر ہی مغرب سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا مغرب میں حکمرانوں اور عوام کے لیے دو الگ الگ قوانین ہیں؟ اگر ہیں تو پھر مساوات کہاں ہے؟

اگر مغرب خود مساوات کے اصولوں کو پسِ پشت ڈالتا ہے تو پھر اُس کے لیے دنیا بھر میں ان کی ترویج و اشاعت کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ جاننے کا حق اگر صرف عوام اور عوام کے درمیان ہے اور اشرافیہ اس میں شامل نہیں تو پھر اس قانون کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ عدالتی کارروائی کو محض اس وجہ سے مکمل طور پر عوام کے سامنے پیش نہ کرنا کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے، قرین از انصاف نہیں ہے۔

مغرب کے تضادات مغرب میں اس کے اپنے بنائے ہوئے نظام کو کھوکھلا کررہے ہیں، اور مغرب کے عوام میں اس حوالے سے شدید بے چینی ہے جس کا اظہار اب مغرب میں خود مغرب کی پالیسیوں سے بیزاری کی صورت میں نظر آرہا ہے۔