امریکی جامعات میں تشدد، گرفتاری اور اخراج کے باوجود اہلِ غزہ سے یکجہتی کی تحریک جاری ہے قیامت خیز بمباری و گولہ باری کے بعد 8 مئی کی صبح اسرائیلی فوج رفح میں داخل ہوگئی۔
نوحے سے پہلے ایک حوصلہ افزا خبر:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 مئی کو عرب ممالک کی جانب سے متحدہ عرب امارات کی پیش کردہ قرارداد دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی جس میں سلامتی کونسل سے فلسطین کی مکمل رکنیت پر ’مثبت غور‘ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تحریک کے حق میں 153 ووٹ آئے۔ امریکہ، آسٹریا، چیک ریپبلک اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے مخالفت میں ہاتھ بلند کیے جبکہ 23 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جن میں برطانیہ، یوکرین اور اکثر یورپی ممالک شامل ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی ہی ایک قرارداد پر اکتوبر میں ہونے والی رائے شماری میں مسلم اکثریتی ملک البانیہ غیرجانب دار رہا تھا، لیکن اِس بار البانیہ نے قرارداد کے حق میں وٹ دیا۔ امریکہ کے اتحادیوں آسٹریلیا، فرانس، بیلجیم، کینیڈا اور فرانس نے قرارداد کی حمایت کی۔
تحریک کے ذریعے اقوامِ عالم کی غیر معمولی اکثریت نے آزاد و خودمختار فلسطین کی کھل کر حمایت کا اعلان کردیا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی قوتِ نافذہ سے محروم ہے، اور جب تک سلامتی کونسل منظوری نہ دے اُس کی قرارداد کی حیثیت ردی کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں، اور سلامتی کونسل کے بارے میں حضرتِ انور مسعود نے کیا خوب کہا ہے:
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے امریکہ نے قرارداد کی شدید مخالفت کی، اور برطانیہ غیر جانب دار رہا۔ لہٰذا سلامتی کونسل سے اس کی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔ تجویز کو چچا سام کے لیے قابلِ قبول بنانے کی غرض سے مسودے میں یہ تک درج کردیا گیا کہ رکنیت کے بعد بھی فلسطین کو قراردادوں پر رائے شماری کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا اور نہ فلسطین اقوام متحدہ کے مختلف اداروں جیسے سلامتی کونسل کے انتخابات میں اپنے امیدوار نامزد کرسکے گا۔ اس کے باجود کینہ پرور رقیب کا دل نہ پسیجا۔ قرارداد کی منظوری پر مبارک سلامت اپنی جگہ، لیکن یہ وہ بے فیض بارش ہے کہ جس کے بعد روئیدگی کا نام و نشان نہیں۔
جہاں تک رفح کا سوال ہے تو فضا سے بمباروں کے ساتھ سرحد پر کھڑے درجنوں ٹینکوں نے گولہ باری کرکے پہلے سے کھنڈر بنی اس خیمہ بستی کو آگ کے مہیب گولے میں تبدیل کردیا ہے۔ اس دوران بحیرہ روم سے برسنے والے میزائیلوں نے فلسطینی مچھیروں کی بستی مسمار کردی۔ حملے سے پہلے مصری حکومت کو اعتماد میں لیا جاچکا تھا بلکہ افواہ ہے کہ اسرائیل کے ’عرب دوست‘ بھی سیاسی اصطلاح میں onboardتھے۔ یہ کارروائی بھرپور تیاری کے بعد کی گئی اور امریکہ سے 17 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ ملنے کے بعد اسرائیلی کمانڈروں کو حملے کا حکم دیا گیا۔
رفح میں انسانی ذبیحے پر صدر بائیڈن کو بہت ’’تشویش‘‘ ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن CNNپر گفتگو کرتے ہوئے جناب بائیڈن نے اعترف کیا کہ ’’ہمارے فراہم کردہ بموں سے غزہ کے شہری ہلاک ہوئے ہیں‘‘۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ امریکی صدر نے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل کی حفاظت کے لیے اُن کے عزم میں کوئی کمی نہیں، تاہم وہ بی بی (اسرائیلی وزیراعظم) اور اُن کی جنگی کابینہ کو متنبہ کرچکے تھے کہ رفح پر فوج کشی امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں، چنانچہ اسرائیل کو رفح آپریشن اور امریکی اسلحہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
اس سے پہلے ایک سرکاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’’امریکہ نے اسرائیل کو اُن مخصوص ہتھیاروں کی منتقلی کا احتیاط سے جائزہ لینا شروع کردیا ہے، جو رفح میں استعمال ہوسکتے ہیں‘‘۔ اسرائیلی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے 500 اور 2000پونڈ کے بموں کی نئی کھیپ روک دی ہے۔
اسلامی و عرب دنیا کا واشنگٹن نواز میڈیا پابندی کی خبر چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ شائع کررہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 2 مئی تک روزانہ تین مال بردار جہاز آتشیں اسلحہ اسرائیل پہنچاتے رہے، اور آلاتِ قتل کی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد فراہمی میں وقفہ لایا گیا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسلحہ ذخیرہ کرنے کے اسرائیلی گوداموں میں اب جگہ باقی نہیں رہی اس لیے مزید فراہمی عارضی طور پر معطل کی گئی ہے۔
رفح کارروائی پر تشویش کے اظہار کے ساتھ تل ابیب کو دلاسے اور یقین دہانی کا سلسلہ جاری ہے۔ جس روز صدر بائیڈن نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کرنے کا اعلان کیا اُسی دن امریکی وزارتِ دفاع کے ترجمان جان کربی نے کہا ’’اسرائیلی ہم منصبوں نے ہمیں جو بتایا ہے وہ یہ ہے کہ رفح آپریشن محدود، اور اس کا مقصد حماس کی غزہ میں ہتھیاروں اور رقوم کی اسمگلنگ ختم کرنا ہے۔‘‘
خبروں پر سنسر بلکہ مکمل پابندی اسرائیلی حکمتِ عملی کا کلیدی جزو ہے، اس لیے حملے کے چار روز مکمل ہوجانے کے باوجود رفح میں شہری نقصانات کا کوئی اندازہ نہیں۔ خبروں کا واحد غیر جانب دار ذریعہ الجزیرہ تھا جس پر پابندی لگاکر اس کے ٹرانسمیشن آلات پر اسرائیلی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ مغربی دنیا تو ایک طرف، مسلم صحافتی حلقوں کی جانب سے بھی اس پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔
غزہ کے معاملے پر عرب دنیا کے محتاط رویّے کی بنیادی وجہ ان ممالک کی اپنی ترجیحات ہیں۔ مئی کے آغاز میں یہ خبر گرم تھی کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان نیٹو طرز کا دفاعی معاہدہ ہونے والا ہے جس کے تحت سعودی عرب کو آئرن ڈوم اور F-35 جیسے حساس و جدید ترین اسلحے تک رسائی دے دی جائے گی۔ سعودی وزارتِ خارجہ کے ذرائع یہ تاثر دے رہے تھے کہ معاہدے پر دستخط چند دنوں کی بات ہے، لیکن 5 مئی کی صبح امریکہ کے مشیر قومی سلامتی جان سولیون نے اپنے سعودی ہم منصب کو باور کرادیا کہ سعودی اسرائیل سفارتی تعلقات سے پہلے یہ معاہدہ ممکن نہیں۔ جبکہ غزہ میں جاری خونریزی کے اختتام سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنا شاہی خاندان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ سعودی ولی عہد ہر قیمت پر امریکہ سے فوجی معاہدہ چاہتے ہیں۔ مملکت میں شراب خانے کھولنے کی اجازت اور لبرل ازم کی جانب پیش رفت سعودی معاشرے کو امریکہ کے لیے قابلِ قبول بنانے کی ایک کوشش ہے۔ دفاعی معاہدہ کھٹائی میں پڑجانے کی وجہ سے ایک طرف مستضعفین پر امن معاہدے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے عرب دبائو بڑھ گیا ہے تو دوسری جانب رفح خونریزی پر عربوں کا ردعمل پُرجوش نہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے اسلحے پر پابندی کا ’مشکوک‘ اعلان سیاسی دبائو کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے سینئر رکن جیسن کرو (Jason Crow) اور عسکری خدمات کمیٹی کے رکن کرس ڈیلوزیو (Chris Deluzio) نے صدر بائیڈن کے نام خط میں امریکی صدر کو مطلع کیا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں امریکہ کی فراہم کردہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے، ان پابندیوں نے فلسطینی شہریوں کے لیے تباہی اور غزہ کے کچھ حصوں میں قحط کی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ مکتوب میں امریکی صدرکو یاد دلایا گیا ہے کہ غیر ملکی مدد کے باب میں امریکی قانون Foreign Assistance Act کے تحت امریکی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے والے ممالک امریکہ کی فوجی امداد کے لیے نااہل ہیں، چنانچہ اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی حمایت Blank Check نہیں ہونی چاہیے اور ہم صدر بائیڈن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے امریکہ کے تعلقات پر نظرثانی کریں گے۔ خط پر دونوں مصنفین کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی کے 86 ارکان نے دستخط کیے ہیں۔
دوسری طرف ریپبلکن پارٹی اور اسرائیل نواز عناصر اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی معطل کردینے پر سخت مشتعل ہیں۔ کانگریس کے اسپیکر مائیک جانسن اور سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف نے اس فیصلے کے خلاف قرارداد لانے کا اعلان کیا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ’’Crooked (دغاباز) بائیڈن نے اسلحے کی فراہمی روک کر اسرائیل کی پشت میں چھرا گھونپ دیا ہے‘‘۔
امریکی جامعات میں تشدد، گرفتاری اور اخراج کے باوجود اہلِ غزہ سے یکجہتی کی تحریک جاری ہے۔ اکثر اداروں میں احتجاجی خیمے اکھاڑ دیے گئے ہیں اور کئی جگہ پولیس کی نگرانی میں اسرائیل نواز عناصر کی غنڈہ گردی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مؤقر ترین ادارے MIT میں احتجاجی طلبہ کو منتشر کرنے کے بعد اسی مقام پر اسرائیل کا بہت بڑا پرچم لہرا دیا گیا۔ انتہائی شرمناک صورتِ حال جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC) میں پیش آئی جہاں بیرونی عناصر نے اساتذہ کے سامنے فحش گالیوں پر مشتمل پلے کارڈ لہرائے۔ یہ دیکھ کر جب چند پروفیسروں کی جبینیں شکن آلود ہوئیں تو اُن کے ساتھیوں نے سمجھایا کہ خاموش رہنا بہتر ہے ورنہ Antisemitism کے مرتکب قرار پائوگے۔ امریکی اہلِ دانش کتنے مجبور ہوگئے ہیں۔
جامعات کے سربراہان کی گوشمالی کے بعد امریکی کانگریس کی مجلسِ قائمہ برائے تعلیم نے ہائی اسکولوں کے حکام کو طلب کرنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتے نیویارک، برکلے (کیلی فورنیا) اور ریاست میری لینڈ کے منٹگمری اسکول بورڈ کے سربراہان کمیٹی کے سامنے طب کرلیے گئے۔ اپنے ابتدائی بیان میں نیویارک پبلک اسکول بورڈ کے چانسلر ڈیوڈ بینکس نے کہا کہ ہمارے اساتذہ نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور نہ ہم کلاس میں کسی خاص مذہب کا ذکر کرتے ہیں، لیکن عالمی سطح پر ہونے والی کشکمش کی بازگشت کو روکنے کا ہمارے پاس کوئی طریقہ نہیں۔ گفتگو مکمل ہونے سے پہلے ہی فلوریڈا سے رکن کانگریس ہارون بین (Aaron Bean)چلاّئے ’’اس کا مطلب ہوا کہ آپ کو نفرت کی اشاعت پر کوئی تشویش نہیں؟‘‘ اس احمقانہ منطق کا چانسلر صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
جامعہ جارج واشنگٹن میں مظاہرے پر دارالحکومت کی رئیسِ شہر محترمہ موریل باوزر (Muriel Bowser) کی شامت آگئی۔ موصوفہ سے کانگریس کی کمیٹی برائے نگرانی و احتساب (Oversight &Accountability) نے سوال کیا ہے کہ اسرائیل کے مخالفین سے نرمی کیوں برتی گئی؟
جامعات کے گرد شکنجہ کسنے کے ساتھ امریکہ بھر میں سیاسی محاذ پر بھی اسلامو فوبیا عروج ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کچھ مسلمانوں کے منتخب ہونے پر ریپبلکن پارٹی کی رکن کانگریس محترمہ لورین بوبرٹ نے ٹویٹر پر لکھا ’’برطانیہ میں مسلم انتہا پسند سیاسی اقتدار سنبھال رہے ہیں، ہم اسے یہاں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے لیے خوفناک ہوگا۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ یہاں بھی ایسا ہونے والا ہے۔ (برطانیہ کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں) کونسلروں نے منتخب ہونے پر اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگائے۔ اگر ہم اپنی سرحدوں کے بارے میں جلد سنجیدہ نہ ہوئے تو جو کچھ برطانیہ میں ہورہا ہے وہ بہت جلد یہاں ہوگا، ہمارے تصور سے بھی بہت پہلے۔‘‘
اسی خدشے کا اظہار ٹیکساس سے رکن کانگریس جناب چِپ رائے (Chip Roy) نے ایوان میں تقریر فرماتے ہوئے کیا۔ موصوف خوف زدہ لہجے میں بولے ’’برطانیہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہماری آنکھوں کے سامنے نظر آرہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ شرعی قوانین نافذ نہ کردیں، کیا شریعت امریکی عوام پر بھی مسلط کی جائے گی؟ مجھے اُن لوگوں کے بارے میں سخت خدشات ہیں جو اسرائیل کی تباہی چاہتے ہیں، جو 7 اکتوبر پر خوش تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو برطانیہ میں منتخب ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ عناصر امریکہ میں بھی ہیں۔‘‘
معاملہ امریکہ تک محدود نہیں، ممبئی میں وڑھیاوار اسکول کی پرنسپل محترمہ پروین شیخ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں ایک پوسٹ likeکرنے پر معطل کردی گئیں۔ پروین شیخ صاحبہ اس انتہائی مؤقر اسکول میں 12 سال سے پرنسپل تھیں۔ محترمہ نے خود کچھ نہیں لکھا، بس 2 مئی کو اپنے ذاتی اکائونٹ سے ایک پوسٹ کو لائیک کیا تھا جو مبینہ طور پر فلسطینیوں کے حق میں تھی۔ اسکول انتظامیہ نے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ پروین شیخ کی سوشل میڈیا سرگرمیاں تعلیمی ادارے کی اقدار سے ہم آہنگ نہیں۔
رفح کی صورتِ حال ہر گزرتے لمحے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ رفح گیٹ پر قبضے کے بعد ان بے کسوں کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ غزہ جانے والے امدادی کارکنوں اور طبی عملے کے نکلنے کا راستہ بھی مسدود ہے۔ جب تک رفح کا راستہ کھلا تھا، مصری فوج کو ’’نذرانہ‘‘ دے کر ہی سہی، تھوڑی بہت غذا اور دوا پٹی تک پہنچ رہی تھی۔ اب سارے راستے بند ہیں اور بھوک کے ہتھیار کو اسرائیل بے رحمی سے استعمال کررہا ہے۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔