احتجاج کا یہ سلسلہ راولاکوٹ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹے میں سبسڈی کے مطالبات سے شروع ہوا
آزادکشمیر میں دس ماہ سے احتجاج کا لاوا صرف اندر ہی اندر پکتا نہیں رہا بلکہ وقفے وقفے سے جزوی احتجاج کی صورت میں باہر بھی آتا رہا اور حکام کو اپنی موجودگی اور سنگینی کا احساس بھی دلاتا رہا، مگر مسئلے کی سنگینی اور شدت کا احساس نہ کرنے سے یہ معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ آزاد علاقے میں یہ کوئی پہلی سیاسی احتجاجی تحریک نہیں بلکہ عوامی مطالبات کی بنیاد پر اُٹھنے والی پہلی تحریک ہے جو ایک طویل عرصے سے کسی منطقی انجام تک پہنچنے کے انتظار میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس سے پہلے آزادکشمیر میں اُٹھنے والی اکثر تحریکوں کا تعلق قوم پرست سیاسی قوتوں سے ہوتا تھا اور وہ کشمیر کے حالات پر احتجاج کرتی رہی ہیں یا اکثر ان کا رخ کنٹرول لائن کی جانب رہا ہے۔آزادکشمیر گیر سطح پر مسائل کے حوالے سے تحریکوں کا رواج ماضی میں کم ہی رہا ہے۔
احتجاج کا یہ سلسلہ راولاکوٹ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور آٹے میں سبسڈی کے مطالبات سے شروع ہوا۔ اس سے پہلے مظفرآباد میں ’دریا بچاؤ‘ کے نام سے ایک طویل تحریک چل چکی تھی۔ یہ نیلم اور جہلم ہائیڈل پروجیکٹ کے لیے خطے کے تاریخی دریائے نیلم کا رُخ موڑنے کے خلاف ہونے والا احتجاج تھا جو دھرنوں اور مظاہروں کی حدود میں ہی رہا۔ دریا بچاؤ تحریک بجلی کی رائلٹی کا مطالبہ بھی کرتی رہی۔ اس مہم کو بیرونِ ملک بسنے والی کشمیری کمیونٹی کی حمایت بھی حاصل تھی اور عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی بھی۔ اس احتجاج کو آخرکار حکومتِ آزادکشمیر نے طاقت کے زور پر ختم کرادیا تھا۔ اس دوران جنوبی آزادکشمیر سے لبریشن فرنٹ کی قیادت میں کنٹرول لائن توڑنے کے لیے لانگ مارچ بھی ہوئے جن میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے ساتھ آزادکشمیر کے وسائل میں حصے کی گونج بھی سنائی دیتی رہی۔
بجلی کے ٹیرف اور آٹے میں سبسڈی کے نام پر راولاکوٹ سے شروع ہونے والا احتجاج رفتہ رفتہ پورے آزادکشمیر تک پھیلتا چلا گیا، اس کے ساتھ ہی مطالبات کی فہرست میں کئی دوسرے نکات کا اضافہ ہوتا چلا گیا جن میں رٹھوعہ ہریام پل اور بیوروکریسی کی مراعات کے خاتمے جیسی باتیں بھی شامل تھیں۔ آزادکشمیر میں اس احتجاج کی قیادت تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے سنبھال لی اور ابتدا میں یہ صرف تاجر برادری کا احتجاج رہا، بعد میں اس کو عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا نام دے کر اس کا دائرہ اور مطالبات کی فہرست دونوں بڑھا دیے گئے۔ مظفرآباد کے ایک متحرک اور سیاسی گھرانے کے تاجر رہنما شوکت نواز میر اس تحریک کی قیادت بن کر اُبھرے۔ دس ماہ قبل پورے آزاد کشمیر میں ایک زوردار احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا، مگر حکومت اور تاجروں کے درمیان وقتی افہام وتفہیم ہوگئی اور تاجروں نے اپنا احتجاج مؤخر کردیا۔ اس دوران عملی طور پر حکومت اور تاجر برادری کا رابطہ منقطع ہوگیا اور عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات پر قائم رہی۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق اس احتجاج کو پرِکاہ برابر اہمیت دیتے نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنے تلخ بیانات سے ایکشن کمیٹی کو سخت لائن لینے کی طرف دھکیل دیا۔ یہاں تک کہ ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کو آزادکشمیر بھر سے مظفر آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود حکومت نے ایکشن کمیٹی کو سننے اور رابطہ کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ جب 10 مئی کو قافلوں کا رُخ مظفر آباد کی جانب ہوا تو حکومت کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا۔ رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری طلب کی گئی اور پولیس کو منظم کیا جانے لگا۔ یہ انتظامی اقدامات تھے جن کا مقصد مظاہرین کو قابو کرنا تھا، مگرمسئلے کا حل مذاکرات، اور مطالبات پر بات چیت میں تھا اور اس پہلو کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔ جب احتجاج شروع ہوا تو اس تصادم میں میرپور تھوتھال میں ایک نوجوان پولیس افسر اے ایس آئی عدیل قریشی جاں بحق ہوئے، اور یوں تحریک خونیں رنگ اختیار کر گئی۔
آزادکشمیر میں کئی روز مکمل ہڑتال رہی۔ کھوکھے، دکانیں اور ٹریفک بند رہا۔ جابجا پولیس اور مظاہرین میں تصادم ہوتا رہا۔ وزیراعظم آزادکشمیر چودھری انوارالحق نے حالات کی خرابی کے بعد کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مطالبات پر بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا، اس کے باوجود تعطل ختم نہیں ہوپایا۔ بالآخر آزاد کشمیر کے عوام کا احتجاج رنگ لایا اور حکومت کو بجلی اور آٹا سستا کرنا پڑا، اور وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے آزاد کشمیر کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے 23 ارب روپے کی فوری فراہمی کی منظوری دے دی اور آزاد جموں و کشمیر محکمہ توانائی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ گھریلو استعمال کی بجلی کے لیے ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ ہوگی۔ 101 سے 300 یونٹ تک 5 روپے جبکہ 300 سے زیادہ یونٹ کے استعمال پر 6 روپے فی یونٹ ہوگی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 300 یونٹ کمرشل استعمال پر بجلی کی فی یونٹ قیمت 10 روپے ہوگی۔ 300 سے زائد یونٹ کے استعمال پر فی یونٹ بجلی کی قیمت 15 روپے ہوگی۔ آزاد کشمیر کے عوام کو بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں فوری ریلیف مل گیا ہے۔ سرکاری آٹے کی قیمت میں 1100 روپے فی من کمی کا اعلان کردیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 20 کلو گرام فائن آٹا ایک ہزار روپے اور 40 کلو گرام 2 ہزار روپے میں ملے گا۔ محکمہ خوراک آزاد کشمیر نے آٹے کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
یہ تو حالیہ احتجاجی تحریک کی واقعاتی داستان ہے مگر ملک کے بہت سے دوسرے علاقوں کی طرح آزادکشمیر کے مسائل اور مرض کی جڑیں بہت دور تک ہیں۔ حالیہ چند دہائیوں میں آزادکشمیر بہت تیزی کے ساتھ ڈی پولیٹیسائز ہوتا گیا ہے۔ ہر قد آور سیاسی شخصیت کے منظر سے ہٹ جانے نے قحط الرجال پیدا کرنے کا عمل تیز کردیا۔ آٹھویں دہائی میں ایک زوردار احتجاجی تحریک کے عروج پر کے ایچ خورشید کی حادثاتی موت سے آزادکشمیر کی قدآور شخصیات، نظریاتی سیاست اور خالص سیاسی کلچر کی موت کا آغاز ہوا، اور یہ دائرہ سردارعبدالقیوم خان کی موت پر جاکر مکمل ہوا۔ کے ایچ خورشید کی موت نے اس خطے کی ایک قدیم اور ایک پُرکشش نظریہ رکھنے والی جماعت لبریشن لیگ کو سیاسی منظر سے تحلیل کرنے کا جو عمل شروع کیا تھا وہ سردار عبدالقیوم خان کی موت کے بعد مسلم کانفرنس کے سانحۂ ارتحال پر منتج ہوا۔ اس دوران ممتاز حسین راٹھور اور سردار محمد ابراہیم خان بھی درمیان سے اُٹھ گئے۔ پرانی سیاست کے خوگر چودھری نورحسین بہت پہلے ہی سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ سردار سکندرحیات خان ابھی اکھاڑے میں کھیلنا چاہتے تھے مگر ان کے قویٰ کے ساتھ ساتھ تیزی سے گزرتی ہوئی عمر اس خواہش کا ساتھ دینے سے قاصر رہی۔ باقی جو کچھ بچا معدودے چند کے سوا انہیں سائلوں اور فائلوں کی نذر کردیا گیا۔ میدان کی سیاست کا کلچر ختم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ ڈرائنگ روم کی سیاست کا کلچر عام ہوا۔ عوامی طاقت اور رابطے کے بجائے سیاست دانوں نے اپنے روابط اور اپنی طاقت کے الگ ہی مراکز اور آستانے ڈھونڈ لیے۔ یوں سیاسی جماعتیں ڈرائنگ روم کلب بنتی چلی گئیں۔ طلبہ یونینوں اور بلدیاتی انتخابات پر پابندی نے وقت گزیدہ سیاسی کلچر کی رگوں میں تازہ خون دوڑنے نہیں دیا۔ اقرباء پروری، بدعنوانی، سفارش، رشوت، قانون کی حکمرانی سے انحراف نے نوجوان نسل کو اپنے مستقبل سے مایوس اور حالات سے بیگانہ کردیا اور برین ڈرین کا عمل تیز ہوگیا۔ پہلے جنوبی آزاد کشمیر کا نوجوان عمومی طور پر منگیتر سسٹم کے تحت بیرونی دنیا جاتا تھا۔پچھلی چند دہائیوں میں آزادکشمیر کے دیوالیہ ہوتے ہوئے سسٹم کے باعث شمالی اور وسطی آزادکشمیر کے نوجوانوں نے تعلیم اور روزگار کے لیے باہر کی دنیا کا رخ کیا۔اس کے ساتھ ہی جدید ذرائع ابلاغ نے آزادکشمیر کے عام نوجوان کو بھی قوت ِگویائی اور جرأتِ اظہار عطا کی۔یوں آزادکشمیر کا نوجوان بھی شعور کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا۔
آزادکشمیر کے پاس پانیوں کی صورت میں سبز سونا موجود ہے۔ اس کے پاس سرسبز اور گھنے جنگلات، بہترین سیاحتی مقامات،دنیا کی بہترین معدنیات ہیں، اگر کمی ہے تو صرف منصوبہ بندی، اخلاص اور قانونی کی حکمرانی کی۔ سیاسی جماعتیں اشرافیہ کلب بن گئیں تو ان کا عوام سے رابطہ بھی کمزور ہوگیا اور وہ عوامی خواہشات اور مفادات سے بھی دور ہوگئیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابات میں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا حق بھی قریب قریب سرینڈر کرتی چلی گئیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول کے علی الرغم سب سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ایک کھونٹے سے باندھنے کا رواج چل پڑا۔پارلیمانی جمہوریت کا بنیادی تقاضا متحرک اور فنکشنل اپوزیشن ہوتا ہے،جس سے سسٹم کی خامیاں بھی سامنے آتی ہیں اور اصلاح کا عمل بھی جا ری رہتا ہے۔یہاں اپوزیشن کو سسٹم کی گاڑی کا سب سے ناکارہ پرزہ بنا کر سیاست میں ایک خلاء پیدا کیا گیا۔جمہوریت میں لوگ ایک سیاسی جماعت کی طرزِ حکمرانی سے اُکتا جاتے ہیں تو دوسری جماعت کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔جہاں سب سیاسی جماعتیں ایک ہی ٹوکری میں ہوں وہاں حالات ’’اب کسے راہنما کرے کوئی‘‘ کے مصداق ہوجاتے ہیں۔ اس ماحول میں آزادکشمیر تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی پہلے اپنی کمیونٹی کے سستی بجلی اور آٹا سبسڈی جیسے مطالبات لے کر سامنے آئی، بعد میں وہ ان مطالبات کا دائرہ کچھ بڑھانے لگی اور حالات سے مایوس لوگوں کو اس میں جذبات کی ترجمانی نظر آئی اور وہ ایک کُل جماعتی سسٹم کے مقابلے میں ایک غیر سیاسی قوت کے گرد جمع ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک معاملہ سمجھ میں آنے والا ہے کہ یہ آزادکشمیر کے عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، اور ہر خطے کے عوام کو اپنے مجموعی مفاد پر اصرار کا پورا حق ہوتا ہے۔ اپنے وسائل پر اختیار مانگنا بھی ہر علاقے کا حق ہے۔ اس احتجاج کا ایک اور زاویہ یہ بن رہا ہے کہ یہ حقوق کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے وجود کی جنگ بھی ہے۔ گوکہ ابھی تک معاملہ کھلا نہیں، مگر اس پر تادیر پراسراریت کا پردہ پڑا نہیں رہ سکتا۔ 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی شناخت اور الگ وجود کا خاتمہ محض مودی کے پاگل پن کا اظہار نہیں تھا بلکہ یہ خطے میں جاری گریٹ گیم کا اہم حصہ تھا۔ اس میں کچھ ظاہری کردار ہیں تو کچھ پردہ نشین چلمن سے لگے بیٹھے تھے۔ سری نگر اور مظفرآباد دونوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے حدِ متارکۂ جنگ قائم کرکے دونوں ملکوں کو کچھ ذمہ داریاں تفویض کی تھیں۔ بھارت نے یہ بوجھ یک طرفہ طور پر پٹخ کر شطرنج کی 72 سالہ بساط ہی لپیٹ دی۔ اب آزادکشمیر کا اس انداز کا وجود ایک ایسی ہڈی ہے جسے اُگلا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے۔ اس مشکل صورتِ حال میں بہر طور نگلنے میں ہی عافیت ہے۔ آزادکشمیر کے وجود کی مرحلہ وار تحلیل کے لیے کئی مسودے تیار پڑے ہیں اور کچھ تیاری کے مراحل میں ہیں۔ آزادکشمیر کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ وسیع تر علاقائی امن کی راہ میں اسی طرح ایک مستقل رکاوٹ ہے جس طرح تیزی سے معرضِ وجود میں آنے والے گریٹر اسرائیل کی راہ میں غزہ کی پٹی ایک کانٹے کی صورت موجود تھی۔ غزہ سے آبادی کے انخلاء اور ایک بڑی بندرگاہ کے منصوبے پہلے سے تیار تھے جن کی بھنک پڑتے ہی حماس اسرائیل پر پل پڑی اور کھیل قبل ازوقت کھل گیا۔ آزادکشمیر میں کرپشن، عیاشی اور اصراف پر مبنی نظام کے قیام سے اسلام آباد کی حکمران اشرافیہ قطعی بری الذمہ نہیں۔ جب تک اسلام آباد میں دیانت اور امانت کا رواج عام رہا، کے ایچ خورشید کرائے کے مکان سے سفرِ آخرت کو چل دیے، سردار عبدالقیوم خان نیم پختہ سے گھر کے مکین رہے اور راولپنڈی میں آستانوں اور پارٹی دفتروں میں مقیم رہے، سردار ابراہیم خان آخری عمر میں لکڑیاں بیچ کر اضافی اخراجات پورے کرتے رہے۔ ان کی محفل سے چائے کے ساتھ بسکٹ کھانے والا خوش قسمت کہلاتا تھا۔ اسلام آباد کا کلچر بدلا تو اس نے آزادکشمیر کو اصراف اور عیاشی کا جزیرہ بنادیا۔ یہاں منی لانڈرنگ کا نظام قائم ہوا، بدعنوانی اور اقربا پروری نے ایک سائنس کی شکل اختیار کی۔ آزاد کشمیر کے وجود کو تحلیل کرنا علاقائی امن اور گریٹ گیم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے تو کھل کربات ہونی چاہیے۔کرپشن اور عیاشی کے عذرلنگ کے پیچھے چھپنے کی چنداں ضرورت نہیں۔