حج

حضرت عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہاسے روایت ہے انہوں عرض کیا۔
” یا رسول اللہ ﷺہم جانتے ہیں کہ جہاد سب نیک عملوں سے بڑھ کر ہے۔ تو ہم جہاد کریں“
آپؐ نے فرمایا :”نہیں عمدہ جہاد حج ہے جو مبرور ہو (مقبول ہو)“۔
(بخاری ، جلد اول کتاب المناسک ، حدیث نمبر 1430 )

حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے ‘ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا‘ کہا کہ میں بزدل اور کمزور ہوں۔ آپؐ نے فرمایا :آئو ایسے جہاد کی طرف جس میں اسلحہ نہیں ہے‘ وہ حج ہے۔ (طبرانی)

حج اللہ کی محبت میں اس کے گھر کی طرف لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے رواں دواں ہونا ہے‘ اور جہاد اللہ کی محبت میں اپنی جان نچھاور کرنا ہے۔ دونوں کی اساس محبت ہے‘ دونوں میں سفر ہے‘ دونوں میں مال کا خرچ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حج میں دشمن کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہے اور جہاد میں ہتھیار کا استعمال ہے۔ جہاد صرف جرأت مند اور بہادر آدمی کر سکتا ہے اور حج بہادر اور بزدل دونوں کر سکتے ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ابراہیم علیہ السلام مناسک حج کے لیے منیٰ آئے تو شیطان جمرۃ العقبہ کے قریب ان کے سامنے آگیا تو حضرت ابراہیم ؑنے اسے سات کنکر مارے‘ یہاں تک کہ وہ زمین میںدھنس گیا۔ پھر دوسرے جمرہ کے پاس سامنے آکر کھڑا ہو ا تو اسے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر تیسرے جمرہ کے پاس سامنے آگیا تو پھر سے سات کنکر مارے یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تم شیطان کو رجم کرتے رہو اور ملت ابراہیم کی پیروی کرتے رہو۔ (ابن خزیمہ‘ حاکم)

حج جو ملت ابراہیمی کے ایمان افروز مناظر کی یاد تازہ کرتا ہے ’تین جمروں‘ کو کنکر مارنا بھی ایک ایسے ہی دل کش منظر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شیطان کو کنکر مارنا ‘ اسے زمین میں دھنسا دینا کس قدر خوشی اور مسرت کی بات ہے۔ آج اس منظر کو ہمیشہ کی طرح یاد کرنے کی کس قدر ضرورت ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کو کنکروں سے زمین میں دھنسانے کا وقت ہے۔ اگر ہر مسلمان اپنے حصے کے کنکر مارے تو شیطان اور اس کی ذریت خائب و خاسر ہوجائے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی گھر میںنماز پڑھے تو ایک نماز کا ثواب ہے‘ قبیلے کی مسجد میں ۲۵ نمازوں کا ثواب اور جامع مسجد میں ۵۰۰ نمازوں کا ثواب‘ مسجد اقصیٰ میں ۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور میری مسجد میں۵۰ہزار نمازوں کا ثواب اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ہے۔ (ابن ماجہ)

حجاج کرام کے لیے کمائی کا نادر موقع ہے۔ اس میں سستی اور غفلت سے کلیتاً پرہیز کرنا چاہیے۔ ان مبارک ایام میں گپ شپ اور بازاروں میں گھومنے پھرنے کے بجاے نمازوں پر توجہ دی جائے۔ ایک کے بدلے میں ایک لاکھ۔ دنیا کا کوئی بازار ایسا ہے جہاں ایک کے بدلے میں ایک لاکھ ملتا ہے؟ بالفرض ایسا ہو تو کون آدمی ایسا ہو گا جو اس سے غافل ہو کر بیٹھا رہے؟ نہیں‘ سب لائنوں میں کھڑے ہوں گے اور رش کی وجہ سے کسی کو جگہ نہ ملے۔ تب حرمین شریفین پہنچ کر آدمی کا ذوق و شوقِ عبادت بھی اجر کے تناسب سے بڑھ جانا چاہیے۔

حضرت سبیعۃ اسلمیؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو مدینہ میںمرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو کوشش کرے کہ اسے مدینہ میں موت آئے‘ اس لیے کہ جسے مدینہ میں موت آئی‘ میں قیامت کے روز اس کے لیے شفیع یا گواہ ہوں گا۔ (طبرانی فی الکبیر)

حرمین شریفین‘ مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس زمین کے وہ مقدس مقامات ہیں جن پر موت انسان کو بڑا فائدہ پہنچاتی ہے۔ انسان اگر کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اسے بڑی محرومی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ برکت اس شخص کو ملے گی جس نے ایسا جرم نہ کیا ہو جس کی وجہ سے وہ اس برکت کے استحقاق کو ختم کردے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا‘ میں تیرے سینے کو دولت سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کر دوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرے گا تو تیرے سینے کو پریشانیوں سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔ (ابن ماجہ‘ ترمذی)

اللہ رب العالمین کیسی مہربان ذات ہے ‘ جو اس کی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اس کے کام وہ خود کرتے ہیں۔ نماز کے وقت دکان بند کردے تو فی الواقع بند نہیں ہوتی وہ آمدن دیتی رہتی ہے۔ حج کے سفر پر جانے کی وجہ سے اپنے کام سے غیر حاضر ہو تو فی الواقع حاضر شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح دعوت و تبلیغ‘ تعلیم و تربیت اور جہاد کے لیے کام کو چھوڑ دے تو نقصان نہیں فائدہ ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے بلاوے پر حاضری نہ دے تو دکان اور کاروبار جاری رہنے کے باوجود فائدہ / نفع نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کے پیارومحبت کا جواب کس طرح دینا چاہیے‘ بندگی اور غیرت کا تقاضا کیا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ’دوڑو اللہ کی طرف‘۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لیے چل پڑا‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں ۷۰نیکیاںلکھتے ہیں اور۷۰خطائیں مٹا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے‘ جب تک وہ اس کام سے واپس نہ لوٹ آئے۔ پھر اگر مسلمان کی حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہوگی تو وہ اپنے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف ہوکر نکلے گا جس طرح اس دن تھا‘ جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا اور اگر اس دوران میں ہلاک ہوجائے تو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا۔(ابن ماجہ)

مسلمانوں اور انسانوں کی خدمت اللہ کی عبادت اور رضا کا راستہ ہے۔ خدمت خلق کا کام کرنے والوں کو اس شعور کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہیے کہ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کی طرح یہ بھی عبادت ہے۔ اللہ اس سے راضی اور اس کام پر عنایتیں فرماتے ہیں۔