حقی خاندان کی ایک دھان پان حق گو خاتون نے بڑا ہلکا پھلکا دلچسپ تبصرہ ہمارے کالموں پر کیا ہے۔ اس تبصرے سے معلوم ہوا کہ ہماری اُردو ’گاڑھی اُردو‘ ہے۔ گاڑھی اُردو والا گاڑھا فقرہ پڑھ کر ہمیں وہ قصہ پھر یاد آگیا جو پہلے بھی ہم کسی کالم میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ آج مختصراً پڑھ لیجے۔ لکھنؤ کے ایک صاحب جنھیں گاڑھی اُردو بولنے کا شوق ہم سے زیادہ تھا، ایک روز شیرہ خریدنے کے شوق میں حلوائی کی دُکان پر جاپہنچے، وہاں پہنچ کر اُنھوں نے حلق کی گہرائی سے گاڑھی اُردو کاڑھی اور حلوائی سے پوچھا: ’’کیوں میاں ’شعیرہ‘ ہے؟‘‘
سوال سنتے ہی حاضر جواب حلوائی نے ہاتھ جوڑ دیے، بولا: ’’حضور! ہے تو سہی، مگر اتنا گاڑھا نہیں ہے‘‘۔
ہماری اُردو کو گاڑھی اُردو قرار دینے سے قبل عزیزہ فائزہ رضا حقی نے عزیزم وسیم بادامی کی طرح ایک ’معصومانہ سوال‘ بھی کیا:
’’کیا آپ عام اُردو زبان میں نہیں لکھ سکتے؟‘‘
نہ جانے ’’عام اُردو زبان‘‘ سے اُن کی کیا مراد ہے؟ اگر اُن کی مراد وہ اُردو زبان ہے جو عام طورپر سماجی ذرائع ابلاغ پر لکھی اور برقی ذرائع ابلاغ پر بولی جارہی ہے تو ہم معذرت چاہتے ہیں۔ ’گاڑھی اُردو‘ لکھ لکھ کر ایسی ’عام اُردو زبان‘ لکھنے کی صلاحیت ہم کھو بیٹھے ہیں۔
دنیا کی ہر ترقی یافتہ زبان کی کم از کم دو بڑی اقسام ضرور پائی جاتی ہیں۔ ایک بے سوچے سمجھے، محض دوسروں کی نقالی میں یا ’جو منہ میں آئے وہی بول دیا جائے‘ والی عام اور عامیانہ زبان، جسے اُردو میں ’’بازاری زبان‘‘کہا جاتا ہے اور انگریزی میں’Slang’ یا ‘Slanguage’۔ یہ زبان گلی کوچوں اور بازاروں میں بولی جاتی ہے۔ دوسری خوب سوچ کر، خوب سمجھ کر اور اچھی طرح تول کربولی یا لکھی جانے والی زبان، جس کو مزید کئی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مثلاً ادبی زبان، علمی زبان، خطیبانہ زبان، تدریسی زبان اور تحقیق کی زبان وغیرہ وغیرہ۔ ایسی مُرصّع زبان ہمیں مضامین میں، کتابوں میں، ادبی شہ پاروں میں اور دل پر اثر کرجانے والے خطبوں میں ملتی ہے۔ اِن دونوں قسم کی زبانوں کی ساخت میں وہی فرق ہوتا ہے جو لوہار کے ڈھالے ہوئے لٹھ میں اور سُنار کے تراشے ہوئے زیور میں ہوتا ہے۔
زبان وہی اچھی لگتی ہے جو کانوں کو بھلی معلوم ہو۔ سن کریا پڑھ کر طبیعت میں فرحت پیدا ہو۔ کوئی لفظ سماعت پر گراں نہ گزرے۔ الفاظ بھاری بھرکم، نامانوس، عجیب اور اجنبی نہ ہوں۔ سنتے یا پڑھتے وقت ذہن پر بوجھ نہ محسوس ہوتا ہو۔ اندازِ بیان میں اُلجھاؤ یا پیچیدگی نہ پائی جائے۔ جملے طویل نہ ہوں۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں پوری بات کہہ دی جائے۔ ایسا نہ ہو جیسا آج کل ہورہا ہے۔ بولی اور لکھی جانے والی زبان میں ہر نامانوس انگریزی اصطلاح کو جوں کا توں جھونک دیا جاتا ہے۔ یہ اُردو کے مزاج سے ناواقفیت اور جہالت کا ثمرہ ہے۔ اُردو صرف اُن الفاظ کو جوں کا توں قبول کرتی ہے جن کا ترنم اُردو کے ترنم سے ہم آہنگ ہو۔ ’نل، بٹن، جج اور جُون‘ جیسے بہت سے الفاظ کو جوں کا توں قبول کرلیا گیا۔ لیکن ’بوتل، پتلون، پلاس اور فروری‘ جیسے متعدد الفاظ کو پہلے اُردو کے ترنم کا تاج پہنایا گیا، پھر انھیں ایوانِ اُردو میں داخلے کی اجازت ملی۔ اجازت کون دیتا ہے؟ بہت دن نہیں گزرے، بس چند ہی برس پہلے کی بات ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، جناب شان الحق حقی اور میجر آفتاب حسن جیسے ماہرینِ لسان ہماری رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر رؤف احمد پاریکھ اور محترم مفتی منیب الرحمن تو اب بھی کررہے ہیں۔ مگر بقولِ غالبؔ:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
لہٰذا اب جس کے جی میں آتا ہے، آکر اُردو نشریات کو “Level playing field” کی اصطلاح دے جاتا ہے۔ کرے گا کوئی نہ اپنی زباںکو یوں برباد۔ اگر ہماری اُردو نشریات کے ماہرینِ ابلاغیات، فقط چند ثانیوں کا فون کرکے کسی ’اہل الذکر‘ سے پوچھ لیا کریں کہ ’یہ مفہوم اُردو زبان میںکیسے ادا کیا جائے گا؟‘ تو اُن کی ابلاغی مہارت کی شان گھٹ نہیں جائے گی،کچھ اضافہ ہی ہوگا۔
پہلے ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ طلبہ و طالبات ہی کی نہیں، عوام کی بھی علمی اور لسانی سطح بلند کرنے کا بہترین ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔ اساتذۂ کرام اچھی زبان لکھنے اور اچھی زبان بولنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے ہم کو سکھایا کرتے تھے کہ اخبار پڑھا کرو، ریڈیو سنا کرو اور ٹیلی وژن پر ’’کسوٹی‘‘ نامی نشریے میں قریش پور اور عبیداللہ بیگ کی طرزِ گفتگو ملاحظہ کیا کرو، نیز ضیا محی الدین کے تلفظ اور لب و لہجے کی نقل بھی کیا کرو۔ مگر اب یہی ذرائع ابلاغ ہمارے طلبہ و طالبات اور عوام کا علمی و لسانی معیار پست سے پست تر کردینے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کو اس حقیقت کی طرف بھی نظر کرنے کی ضرورت ہے کہ اُردو اس وقت نہ صرف برصغیر میں لکھی، بولی اور سمجھی جارہی ہے، بلکہ خلیجی ممالک اورشرقِ اوسط میں بھی اس کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ حرمین میں ہمیں جا بجا اُردو کی تختیاں نظر آتی ہیں۔ یورپ اور امریکا کے مختلف ممالک سے اُردو میں کتب و جرائد شائع ہورہے ہیں۔ جاپان سے لے کر کینیڈا تک متعدد جامعات میں اُردو پڑھائی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سرکاری زبانوں میں اُردو بھی شامل ہے۔ اُردو کی وسعت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر لکھنے کے لیے اُردو کی تختیاںجابجا میسر ہیں، اپنے فون میں برقی بازار سے مفت اُتار لیجے۔ کسی بھی موضوع سے متعلق اُردو مواد کی ’تلاش‘ کا کام آپ ’گُوگل‘ پر بہ آسانی کرسکتے ہیں۔ کسی تقریبِ ملاقات میں اپنے تمام احباب کو بیک خط مدعو کرنے کے لیے اُنھیں اُن کے برقی پتے پراُردو میں دعوت نامہ بصورتِ ’برق نامہ‘ بھیج سکتے ہیں۔ ہر اُردو تحریر بہ آسانی ’ترسیلی دستاویز‘ (PDF) میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ کو یہ بات بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے آئین کی رُو سے اُردو ہماری قومی زبان ہے اور سرکاری زبان ’’ہوگی‘‘۔ لہٰذا یہ ہمارا حق بھی ہے اور ہمارا فرض بھی کہ ہم اپنی قومی زبان کو ہر طرح سے فروغ دیں۔ بلکہ بابائے اُردو مولوی عبدالحق تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بات کہتے ہیں۔ وہ اپنے ’’خطبات‘‘ [شائع کردہ انجمن ترقی اُردو] میں فرماتے ہیں: ’’اگر بنظرِ غور دیکھیں تو عربی، فارسی اور ترکی زبانیں اُن لوگوں کی تھیں جنھوں نے ابتدا میں اسلام کی مخالفت کی اور یہ ان کے قبولِ اسلام سے پہلے موجود تھیں۔ اُن سب زبانوں میں جو مسلمانوں سے منسوب کی جاتی ہیں صرف اُردو ہی ایسی زبان ہے جو مسلمانوں کی بدولت وجود میں آئی۔ اس لیے ہماری توجہ اور ہمدردی کی بہت زیادہ مستحق ہے اور اس کی ترقی اور اشاعت ہمارا فرض ہے‘‘۔ (ص: 425،مطبوعہ:1946ء)
بات گاڑھی اُردو اور گاڑھے شیرے سے شروع ہوئی تھی۔ بات سے بات نکلی تو اُس گاڑھے وقت کی بات ہونے لگی جو ورقی، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ کی بدولت ہماری گاڑھی اُردو پر آن پڑا ہے۔ ’گاڑھ‘ مصیبت، مشکل اور دشواری کو کہتے ہیں۔ ’گاڑھ پڑنا‘ مشکل پیش آنا یا مصیبت پڑنا ہے۔ مشکل اور مصیبت کے وقت کو ’گاڑھا وقت‘ کہتے ہیں۔ ویسے’گاڑھا‘ یا ’گاڑھی‘کا مطلب ہے کثیف، موٹا، گھنا اور غلیظ۔ ’غلیظ‘ کا مطلب بھی ’گاڑھا‘ ہے، پَتلے پَتلی کی ضد۔ اسی وجہ سے کھدر کے کپڑے کو بھی، جو موٹا ہوتا ہے’گاڑھا‘ کہا جاتا ہے۔ کھدر کا پردہ ڈال لیا جائے تو ’گاڑھا پردہ‘ ہوجاتا ہے۔ بناوٹ سے کیے جانے والے پردے کو بھی طنزاً گاڑھا پردہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قدرؔ نے کہا:
خوب نو پردوں میں افلاک کے رہنا سیکھا
سامنے آئیے، اللہ رے گاڑھا پردہ
’گاڑھی چھننا‘ یوں تو بھنگ کو خوب گاڑھا چھاننے کو کہتے ہیں، مگر اس سے مراد آپس میں حد درجہ میل محبت اور گہری دوستی لی جاتی ہے۔ نشے بازوں میں بھی خوب ’گاڑھی چھنتی‘ ہے۔ ’گاڑھی کمائی‘ بہت محنت اور مشقت سے حاصل کیے ہوئے پیسے کو کہتے ہیں جو ’گاڑھے پسینے‘ سے حاصل ہوتا ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ صاحبو! گاڑھی اُردو لکھنا آسان کام نہیں، بہت گاڑھا کام ہے۔