ڈاکٹر خالد ندیم اعلیٰ فکر رکھتے ہیں۔ اسی مثبت سوچ اور افکارِ عالیہ کی بدولت ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تحقیق و تنقید اور تراجم کے حوالے سے اتنا کام کیا ہے کہ ان کی 22، 23 کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور آپ کی نگرانی میں طلبہ و طالبات ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے مقالے کی تیاری کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نگرانی میں ’’اختر حسین رائے پوری… حیات و خدمات‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ انہیں شاعری اور آزاد نظم زیادہ پسند ہے۔ فکشن میں ناول ان کے مطالعے میں رہا، جبکہ ناول چیدہ چیدہ پڑھے ہیں۔ ہر انسان کی فطری صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، چنانچہ وہ شعوری طور پر نہیں بلکہ نرم روی اور غیر محسوس طور پر تحقیق کی طرف نکل آئے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی تحقیق و تنقید کے حوالے سے کئی کتابیں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں، لیکن ان کی ایک خواہش تھی کہ کسی ایسی تصنیف کی طرف گامزن ہوں جو انہیں دنیائے ادب میں زندہ رکھ سکے۔
علمی دنیا میں انہیں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی سرپرستی حاصل رہی۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی (علی گڑھ)، ڈاکٹر عبدالحق (دہلی)، اس کے علاوہ کراچی سے ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر رئوف پاریکھ اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک (لاہور) قابلِ ذکر ہیں۔
علامہ اقبال ہمارے عظیم قومی شاعر ہیں، قوم نے آپ کو شاعرِ مشرق اور مفکرِ پاکستان کے القابات سے نوازا۔ اقبال نے ملّت کو جگانے کے لیے اپنے اشعار کو ذریعہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی زیر نظر کتاب ’’عہدِ حاضر کا فکری بحران اور اقبال‘‘ شائقینِ اقبال کے حضور ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔ اسلوب کی تازہ کاری کے حوالے سے وہ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد ندیم اپنے اکابر کے افکار سے انسانی عظمت کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی یہ تحریریں اقبالیات (لاہور)، فکر و تحقیق (دہلی)، تخلیقی ادب (اسلام آباد)، تخلیق (لاہور)، معیار (اسلام آباد)، امتزاج (کراچی)، ایوانِ اردو (دہلی) اور تحصیل (کراچی) میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے بعض کی بابت فاضل قارئین نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ان مضامین کی نوعیت تحقیقی، ادبی، تنقیدی اور تاثراتی ہے۔ اقبالیات کے متعلق چند اہم کتب پر تجزیہ بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس کا مقصد قارئین ِاقبال کو مطالعے میں شریک کرنا ہے۔ اقبال نے ملّت کو بیداری کا جو پیغام دیا ہے زیر نظر کتاب میں اس سے متعلق مضامین کو یک جا کردیا ہے۔
اس وقت محض عہدِ حاضر کے فکری ماحول میں اقبال کی ضرورت کیوں ہے، اس کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ بند گلی میں پہنچ جانے کے بعد اکیسویں صدی کے انسان کو فکaرِ اقبال کی مدد سے کوئی لائحہ عمل اور راہِ راست ملتی ہے یا نہیں۔
جو مضامین اس کتاب کی زینت بنے، وہ یہ ہیں:
’’عہدِ حاضر کا فکری بحران اور اقبال‘‘، ’’اقبال کی مرثیہ نگاری‘‘، ’’اقبال کی منظوم مکتوب نگاری‘‘، ’’مکتوبات مشاہیر اقبال‘‘، مکاتیب ِاقبال بنام خواتین‘‘، ’’فیض کی اقبال فہمی‘‘، ’’اختر حسین رائے پوری اور اقبال‘‘، ’’اقبال کی ماخوذ مترجمہ نظمیں‘‘، ’’کلام اقبال سے ماخوذ عنواناتِ کتب‘‘، ’’اشاریہ منظومات ِاقبال‘‘
تجزیات میں اِن کتابوں پر تجزیہ پیش کیا گیا ہے:
اقبالیات: ’’تفہیم و تجزیہ‘‘ از پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ’’سرود سحر آفریں‘‘ از پروفیسر غلام رسول ملک، ’’اقبال کی غیر مدون نثر‘‘ از پروفیسر عبدالجبار شاکر
’’اقبال اور اقبالیات‘‘ از پروفیسر عبدالحق، ’’علامہ اقبال: شخصیت و فن‘‘ از پروفیسر رفیع الدین ہاشمی
ڈاکٹر خالد ندیم اقبال سے شیفتگی کا اظہار کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ سرمستی اور وارفتگی کی کیفیت ان پر طاری رہتی ہے۔ وہ اقبال کے رمز شناس ہیں اور کلامِ اقبال کو ذریعۂ پیغام خیال کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کلامِ اقبال کے ان رموز کو عام کردیں۔
علمی و تہذیبی اور سیاسی و معاشی شکست و ریخت کے شکار مسلم معاشروں اور ممالک کے اہل نظر بھی اس تنزلی و پسماندگی سے نجات کے لیے غور و فکر کرتے ہیں تو فکرِ اقبال ان کی مکمل راہ نمائی کرتی ہے۔ اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر خالد ندیم مسلم معاشرے کی علمی و تہذیبی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہیں گے۔ اقبالیات سے متعلق چند اہم کتب پر تجزیاتی تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں جس کا مقصد قارئین کو اپنے مطالعے میں شریک کرنا ہے۔