( چودہویں قسط)
عزیزم غلام سرور اب انگلینڈ میں کئی سالوں سے مقیم ہیں اور بیرسٹر میاں غلام سرور کے نام سے ایشین کمیونٹی ہی میں نہیں انگریز آبادی میں بھی اُن کی خاصی شہرت ہے۔ ان کا بہت بڑا بزنس ہے جس میں پاکستانی اوریجن کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں انگریز مرد و خواتین بھی ملازمت کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر میری پھوپھی زاد بہن آپا حیات بی بی تھیں جن کی شادی ہمارے کزن میاں نیاز علی مرحوم (برادرِ خورد حافظ شیر علی مرحوم) کے ساتھ ہوئی تھی اور وہ ہمارے گائوں میں رہتی تھیں۔ تیسری پھوپھی زاد بہن آپا زہرہ کی شادی ان کے چچا زاد میاں محمد سعید صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ اللہ نے ان کو ایک بیٹی عطا فرمائی، اور وہ بیٹی ابھی ایک یا دو سال کی تھی کہ آپا زہرہ ٹی بی کی بیماری کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ مرحومہ کی یہ بیٹی عزیزہ ہاجرہ بھی جو غلام سرور سے تین چار سال چھوٹی تھیں، اپنے خالہ زاد کی طرح اپنی نانی اماں (میری پھوپھی جان) کے پاس ہی رہتی تھیں۔
پھوپھی جان نیک بی بی اسم بامسمیٰ اور بہت عظیم شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کی طبیعت میری بڑی پھوپھی جان سے مختلف تھی۔ بڑی پھوپھی جان کے مزاج میں بہت جلال تھا، اگرچہ میری غلطیوں بلکہ چھوٹی عمر میں بعض گستاخیوں کے باوجود میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ انتہائی نرم اور مشفقانہ رہا۔ چھوٹی پھوپھی جان کے مزاج میں انتہائی نرمی اور انکسار تھا۔ عبادت گزار اس قدر تھیں کہ کبھی ان کی تہجد کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی۔ وہ حج بھی کرچکی تھیں۔ میں جب بھی پھوپھی جان کے ہاں قیام کرتا، بہت خوش ہوتیں بلکہ بعض اوقات فرماتیں کہ سال میں دو عیدیں آتی ہیں، مگر حافظ ادریس جب میرے پاس آکر ٹھیرتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آج پھر عید ہے۔ یہ اُن کی محبت بھی تھی اور عظمت بھی۔
جب غلام سرور اور ہاجرہ بی بی جوانی کی عمر کو پہنچے تو دونوں کا رشتہ طے کیا گیا۔ پہلے تو ان دونوں نے اس بات کو سخت ناپسند کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم شروع سے ایک ساتھ رہے ہیں، اس لیے ماں باپ مختلف ہونے کے باوجود ہمارا آپس میں تعلق سگے بہن بھائی کا ہے۔ بعد میں انھیں سمجھایا گیا کہ تم ایک گھر میں اپنی نانی اماں (بے جی) کے پاس پلے بڑھے ہو مگر ایک دوسرے کے خالہ زاد ہو جو سگے بہن بھائی نہیں شمار ہوتے۔ اس لیے تمھارا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونا اسلامی نقطۂ نظر سے درست ہے۔ دونوں کی شادی انتہائی سادگی سے ہوگئی۔ ماشاء اللہ دونوں میاں بیوی اپنی اولاد تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ انگلینڈ میں خوش و خرم ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے ان سب اعزّہ کو سلامت رکھے۔ میری بھتیجی عزیزہ مسفرہ بنتِ میاں محمد یوسف کی شادی میاں سرور کے منجھلے بیٹے میاں اسرار سرور کے ساتھ ہوئی ہے۔ اللہ نے انھیں دو بہت پیاری بیٹیوں سے نوازا ہے۔ دیگر سب بچے بچیاں بھی ماشاء اللہ صاحبِ اولاد ہیں۔
اسکول جانے اور واپس آنے میں عموماً بڑا لطف آتا تھا، مگر شدید سردی اور شدید گرمی میں کچھ مشکلات بھی پیش آتی تھیں۔ ایسے موسم میں میرا قیام پھوپھی جان کے ہاں ایک سے زیادہ دن ہوتا تھا۔ پھوپھی جان کے دیور، جیٹھ اور ان سبھی کے اہل و عیال مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہ پورا گھرانہ میرے والد صاحب کا ننھیال تھا۔ والد صاحب کے نانا جان میاں احمد نمبردار کی دو بیٹیاں ہی تھیں، بیٹا نہیں تھا۔ میاں احمد کے سوتیلے (ماں جائے) بھائی میاں محمد کے بیٹے میاں مخدوم عالم کے ساتھ میری پھوپھی جان بیاہی گئی تھیں۔ عمومی رشتے میں مخدوم عالم صاحب میرے والد صاحب کے ماموں لگتے تھے کیوںکہ میری دادی اماں اور یہ آپس میں کزن تھے۔ یہ پانچ بھائی تھے اور دو بہنیں تھیں۔
پانچوں بھائیوں میں بڑے بھائی میاں محمود نمبردار، عزیزم غلام سرور کے دادا ابو تھے۔ ان سے چھوٹے میاں غلام محی الدین تھے، اور ان سے چھوٹے میرے پھوپھا مرحوم میاں مخدوم عالم تھے۔ چوتھے بھائی میاں محمد اسماعیل تھے۔ وہ بھی میری پیدائش سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ میاں اسماعیل مرحوم ہاجرہ بیٹی کے دادا جان تھے۔ پانچویں بھائی میاں محمد ابراہیم تھے۔ جو بھائی جوانی میں فوت ہوئے وہ دونوں اُس دور کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکاری ملازم تھے۔ باقی بھائی کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ یہ سب بزرگان اور ان کی اولاد مجھ سے بہت بے تکلف تھی۔ میں بالکل چھوٹی عمر، بیماری اور صحت کی کشمکش کے زمانے میں دادا ابو جی کے ساتھ یہاں اکثر آیا کرتا تھا اور ان سب سے مانوس تھا۔
اُس زمانے میں دیہاتوں میں مکان ایک منزلہ ہی ہوا کرتے تھے، بہت کم گھروں کی چھتوں پر کوئی کمرہ ہوتا تھا جسے چوبارہ کہا جاتا تھا۔ پھوپھی جان کے گھر کی چھت پر ایک مستطیل شکل کا بڑا کمرہ تھا جو واقعی چوبارہ تھا، اس کے تین جانب کھڑکیاں تھیں اور ایک جانب دو دروازے تھے۔ ہم گرمیوں میں دوپہر کے وقت اس چوبارے میں بیٹھے، سوتے، کھیلتے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ اُس دور کے حالات اور چوبارے کو یاد کرکے یہ محاورہ بے ساختہ زبان پر آجاتا ہے ’’جو سُکھ اپنے چوبارے، نہ بلخ نہ بخارے۔‘‘ جس جانب کی بھی ہوا ہوتی، دروازوں اور باریوں (کھڑکیوں) میں سے گزرتی اور نہال کردیتی۔
ہمارے اپنے ہاں گھر تو وسیع تھے مگر کوئی چوبارہ نہیں تھا۔ ہم اپنے گائوں کی چوپال میں گرمیوں میں، بالخصوص ساون بھادوں کے ایام میں گھنے درختوں کے نیچے آرام کرتے تھے یا پھر کبھی کبھار گائوںسے ملحق اپنے کھیتوں میں درختوں کی چھائوں کے نیچے دیسی چارپائیوں پر آرام سے وقت گزارا کرتے تھے۔ میں اس دوران خاصا مطالعہ کرلیا کرتا تھا۔ مطالعے میں اپنے نصابِِ تعلیم کے علاوہ گھر میں آنے والے رسائل و جرائد اور سیرت و تاریخ کی کتب ہوتی تھیں۔ پھوپھی جان کے ہاں چوبارے کا مزا تو اپنی جگہ مگر وہاں کے ہم جولی مطالعے کا موقع اور ماحول کم ہی بننے دیتے تھے، جس سے طبیعت کبھی کبھار بوجھل ہوجاتی تھی۔ بہرحال ہر جگہ کے اپنے اپنے مثبت اور منفی خصائص ہوتے ہیں۔
چنن اور گکھڑ دونوں گائوں بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ ان سے جنوب کی جانب سڑک کے کنارے پر ایک بڑا گائوں بیکنانوالہ ہے۔ میری بڑی خالہ جان اس گائوں میں ہوتی تھیں۔ وہاں بھی کبھی کبھار جاتا تھا، مگر قیام وہاں بہت کم ہی کبھی ہوا تھا۔ خالہ جان کی بیماری ایسی تھی کہ وہ بیچاری چارپائی سے لگ گئی تھیں۔ آپ بہت سمجھ دار اور ذہین خاتون تھیں، مگر اللہ کی رضا کہ شادی کے کچھ عرصے بعد ایسی بیماری لگی جس کا ہر طرح کا علاج کرانے کی کوشش کی گئی مگر شفا نہ مل سکی۔ خالہ جان کے ہاں ہی بعد میں میرا رشتہ طے ہوا اور زندگی انہی کی بیٹی کے ساتھ گزری۔ اس حوالے سے قدرے تفصیلی حالات میں نے اپنی اہلیہ مرحومہ (ام ہارون) کے تذکرے ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد نہم میں بیان کیے ہیں ۔
1960ء میں ہمارے دور میں پہلی بار نویں جماعت کا بورڈ کا امتحان الگ ہوا۔ اس سے قبل پورا امتحان دسویں میں ہی ہوا کرتا تھا۔ ہمارا امتحانی سینٹر ہائی اسکول دھوریہ میں بنا تھا۔ ماسٹر سیّداشتیاق علی صاحب ہمارے ساتھ اس امتحان کے ایام میں دھوریہ میں ہی مقیم رہے۔ اس امتحان کے نتیجے میں اللہ کی رحمت سے بہت اچھے نمبر حاصل ہوئے۔ اگلے سال دسویں کے امتحان کے لیے بھی اسی اسکول میں سینٹر بنا۔ اس سال ماسٹر سعید اللہ خاں صاحب ہمارے ساتھ وہاں مقیم رہے۔ الحمدللہ! میٹرک کے امتحان میں مجموعی طور پر بہت اچھے نمبر حاصل ہوئے۔ اُس زمانے میں نپے تلے انداز میں نمبر لگا کرتے تھے۔ آج کل کی طرح نمبروں کی موسلادھار بارش نہیں ہوتی تھی۔ میں اسکول میں اوّل آیا اور بورڈ میں بھی پہلے دس نمبروں میں شمار ہوا۔ ایک ہزار میں سے 796 نمبر تھے جو اُس زمانے میں بہت اعلیٰ شمار ہوتے تھے۔ اب بھی سابقہ امتحانات، پرائمری اور مڈل کی طرح یہ درویش ٹیلنٹ اسکالرشپ کا مستحق قرار پایا۔
نتیجہ آنے سے پہلے ہی ذہن میں میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کا ارادہ تھا۔ میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد استادِ محترم کنور سعید اللہ خاں صاحب کے مشورے اور تائید سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کا حتمی فیصلہ ہوا۔ جب گائوں اور گردونواح کے بعض بزرگان کو معلوم ہوا کہ میں مزید تعلیم کے لیے لاہورگورنمنٹ کالج میں داخلے کے لیے جارہا ہوں تو ان میں سے بعض نے والد صاحب سے کہا کہ لاہور میں اتنی دور کیوں بھیج رہے ہیں؟ زمیندارہ کالج گجرات قریب بھی ہے اور ایک اچھا تعلیمی ادارہ ہے۔ لاہور میں جی سی میں اچھا خاصا خرچہ کرنا پڑے گا اور پھر بڑے شہروں میں نوجوانوں کے بگڑ جانے کا بڑا خدشہ ہوتا ہے۔ ایک بزرگ کا تذکرہ بھی ہوا جن کو اپنے دو بیٹوں کی لاہور میں تعلیم کے دوران اپنی زرعی زمین کا خاصا حصہ بیچنا پڑا۔ ان نوجوانوں کو سگریٹ، سینما اور نامعلوم کن کن چیزوں نے اپنے جال میں پھانس لیا۔ یہ نوجوان پڑھ لکھ تو گئے مگر اپنے معاشرے سے کٹ گئے۔ ایک تو برطانیہ سدھار گئے جہاں ایک انگریز خاتون سے شادی رچائی۔
ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ برطانیہ میں مائیگریشن کرکے وہاں محنت مزدوری کرتے رہے اور پھر چند سالوں کے قیام کے بعد وہاں کے شہری بن گئے تھے۔ موصوف کی وفات ہوئی تو برطانیہ میں مقیم ان کے گائوں کے کچھ لوگ ان کے گھر تعزیت کے لیے گئے۔ مرحوم کی اہلیہ نے کہا تم کون لوگ ہو؟ کیوں آئے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم نے سنا کہ ڈاکٹر صاحب فوت ہوگئے ہیں، ہم تعزیت کے لیے آئے ہیں۔ وہ خاتون چڑ کر بولی ’’وہ مر گیا ہے تو تم ہمیں بھی مارنے کے لیے آگئے ہو؟‘‘ غرض کئی واقعات و کہانیاں مختلف محفلوں میں گردش کرنے لگیں۔
میرے والد صاحب اور تایا جان جانتے تھے کہ میری تربیت کس انداز میں ہوئی ہے اور میری فطرت کیسی ہے۔ میرے اندر ہزار خامیاں کوتاہیاں تھیں اور آج تک ہیں (اللہ مجھے معاف فرمائے)، البتہ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ سگریٹ، سینما اور اس طرح کی کسی بھی چیز سے مجھے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ساری زندگی میں لاہور آنے کے بعد صرف ایک بار دوستوں کے اصرار پر کہ کوئی تاریخی فلم کسی سینما میں دکھائی جا رہی ہے، میں سینما میں گیا۔ اس کے بعد کبھی سینما جانے کو طبیعت مائل ہی نہیں ہوئی، اور پھر جب جمعیت سے باقاعدہ وابستگی ہوگئی تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رہا سگریٹ اور تمباکو نوشی کا معاملہ، تو مجھے زندگی بھر اس سے اتنی نفرت رہی ہے کہ کوئی سگریٹ نوش میرے قریب سے بھی گزرے تو طبیعت بہت خراب ہوجاتی ہے۔ جن باتوں کا اوپر تذکرہ ہوا ہے وہ سن کر میں قدرے پریشان بھی ہوا اور خود کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کرلیا۔ اپنے خاندان کے وسائل اور مالی معاملات میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ اب میں چھوٹا بچہ نہیں تھا بلکہ عاقل و بالغ نوجوان تھا۔
آج بھی زندگی کے شب و روز کو یاد کرتا ہوں تو اُس وقت کی اپنی ذہنی کیفیت اور یادداشتیں بالکل تروتازہ محسوس ہوتی ہیں جیسے کل کی بات ہے۔ تنہائی میں جو میری سوچ اور فکر ابھری وہ کچھ یوں تھی: میں نے اپنے خاندان کے وسائل کے ساتھ اس کی تاریخ اور بزرگوں کے حالات کو یاد کیا۔ آپ سے بھی یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارا خاندانی ذریعۂ معاش زراعت اور اس سے متعلقہ شعبے تھے۔ والد صاحب نے خود کبھی ہل نہیں چلایا تھا۔ میرے ابتدائی بچپن میں ہل چلانے کے لیے گائوں کے کچھ نوجوان ملازم رکھے جاتے تھے۔ وہ ہل چلانے اور زراعت کے دیگر امور نپٹانے کے ساتھ مال مویشیوں کے لیے کھیتوں سے چارہ لانے اور مشین میں کترنے وغیرہ کا فرض بھی سرانجام دیتے تھے۔ انھیں والد صاحب ان کی ضروریات کے مطابق حسبِ مطالبہ کچھ نقد رقم ادا کردیا کرتے تھے، مگر اصل معاوضہ فصلیں پکنے پر بصورتِ غلہ ادا کیا جاتا تھا۔
کچھ عرصے کے بعد جب میں اسکول میں داخل ہوا اور پانچویں جماعت میں پہنچا تو والد صاحب نے بیل بیچ دیے اور خود کاشتہ زمین بھی بٹائی پر مختلف بے زمین کسانوں کو دے دی۔ اس بٹائی کے معاملے میں شروع سے عرف چلا آرہا تھا جس کے مطابق مالک اور کاشت کار کا پیداوار میں برابر حصہ ہوتا تھا۔ خود کاشت کاری کے زمانے میں تقریباً 16ایکڑ خود کاشتہ ہوتے تھے اور تقریباً بیس بائیس ایکڑ مختلف کاشت کار بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔ اب ساری زمین بٹائی پر دے دی گئی۔کچھ سالوں کے بعد معاشرے کی ساری صورت حال بدل گئی۔ کاشت کاری کرنے والے مزارعین خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا کی جانب تلاشِ روزگار کے لیے ہجرت کرنے لگے، لہٰذا اب زمین کو خود کاشت کرنے کا مرحلہ آگیا (جاری ہے)