قومی صنعتی تعلقات کمیشن(NIRC)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی صنعتی اور معاشی ترقی کا دارومدار آجر اور اجیر کے درمیان پُرامن، پائیدار اور بقائے باہمی پر مبنی صنعتی تعلقات پر ہے۔ دنیا میں انیسویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد آجر اور اجیر کے درمیان صنعتی تعلقات کے شعبے نے وسیع پیمانے پر توجہ حاصل کرلی تھی۔ اگر ہم برصغیر کی صنعتی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ برصغیر میں بھی برطانوی راج کے دوران آجران اور مزدوروں کے درمیان صنعتی تعلقات کے شعبے میں ریاستی مداخلت کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے صنعتی تعلقات پر ضروری قانون سازی کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اس سلسلے میں برطانوی ہند حکومت کی جانب سے ملک کے مزدور طبقے کے روزمرہ امور کو باقاعدہ کرنے کے لیے آسام لیبر ایکٹ اور ورکرز کنٹریکٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے قانون مجریہ 1859ء اور ایمپلائرز اینڈ ورک مین (تنازعات) ایکٹ 1860ء، متعارف کرائے گئے تھے۔ ان قوانین کی تشکیل کا مقصد ہندوستان کے سماجی نظام میں محنت کش طبقے کو پُرامن صنعتی تعلقات کا ماحول اور ان کے حقوق کا تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اسی طرح برصغیر میں صنعتی تعلقات کی باقاعدہ حرکیات کا آغاز1942ء میں ممتاز ماہر قانون، ماہر اقتصادیات اور مصلح ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی رہنمائی میں منعقدہ ہندوستانی لیبر کانفرنس سے کیا گیا تھا،جس میں صنعت و حرفت کے تینوں شراکت داروں حکومت، آجران اور مزدوروں کے مابین صنعتی تعلقات کے تمام معاملات کے پائیدار حل کےلیے مشاورتی سہ فریقی فورم کے طور پر ایک مشترکہ پلیٹ فارم کو قبول کیا گیا تھا۔

چنانچہ برصغیر کی تقسیم کے بعد آزاد مملکت پاکستان میں بھی مختلف حکومتوں کے دور میں پیش کی جانے والی لیبر پالیسیوں میں محنت کش طبقے کے حالاتِ کار اور آجر اور کارکنوں کے درمیان صنعتی تعلقات کو بہتر طور سے استوار کرنے پر غور کیا گیا تھا۔ لہٰذا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی دورِ حکومت کے دوران1972ء میں پیش کی جانے والی ملک کی چوتھی لیبر پالیسی میں ملک کے صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر اداروں میں آجران اور کارکنوں کے درمیان رونما ہونے والے صنعتی تنازعات کے پائیدار حل کے لیے ایک اعلیٰ سطحی قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC) کے قیام کی سفارش کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں صنعتی تعلقات آرڈیننس مجریہ 1969ء میں ترمیم کے بعد1972ء میں قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC) کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے اغراض و مقاصد میں ملک کے صنعتی اداروں میں مثبت ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ پُرامن صنعتی تعلقات کے قیام اور کارکنوں کی انفرادی اور اجتماعی جائز شکایات کی شنوائی کرکے انہیں دادرسی فراہم کرنا تھا۔

قومی صنعتی تعلقات کمیشن ایک نیم عدالتی فورم (Quasi-judicial forum)ہے، جو بین الصوبائی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سطح پر خدمات انجام دیتا ہے۔ یہ اعلیٰ سطحی کمیشن اب وزارتِ سمند پار پاکستانی ترقی، انسانی وسائل حکومتِ پاکستان، اسلام آباد کی زیر نگرانی خدمات انجام دے رہا ہے۔ قومی صنعتی تعلقات کمیشن کا ڈھانچہ ایک چیئرمین اور عدلیہ اور قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دس اراکین پر مشتمل ہوتا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین اور ارکان کی تقرری وفاقی حکومت مقررہ طریقہ کار کے مطابق کرتی ہے۔ کمیشن کا صدر دفتر دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے، جبکہ اس کی یک رکنی آٹھ بینچیں اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں لاہور، پشاور، ملتان، سکھر، کوئٹہ اور کراچی میں قائم ہیں جو اپنے اپنے متعلقہ شہروں میں کمیشن کے قیام کے اغراض و مقاصد کے تحت ملک کے صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں آجران اور کارکنوں کے درمیان پُرامن اور پائیدار صنعتی تعلقات کے قیام اور مثبت ٹریڈ یونین ازم کے فروغ کے لیے فعال کردار ادا کررہی ہیں۔

اپریل2010ء میں ملک میں ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں وفاق سے محنت کا شعبہ (Labour Subject) ختم کرکے صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا جس کے باعث ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم و تربیت، تعلیمی وظائف، پیشہ ورانہ تربیت، اہلِ خانہ کے لیے رہائشی سہولیات، علاج معالجہ، ریٹائرمنٹ، معذوری کی صورت میں تاحیات بڑھاپا پنشن اور خدانخواستہ ان کی وفات کی صورت میں ان کے اہل خانہ کو تاحیات پسماندگان پنشن اور آجران اور کارکنوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کی صورت میں انہیں دادرسی فراہم کرنے والے متعدد وفاقی فلاحی ادارے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI)، ورکرز ویلفیئر فنڈ(WWF)، ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن (DWE) اسلام آباد اور قومی صنعتی تعلقات کمیشن (NIRC) غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہوگئے تھے، جس کے باعث حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے نہ صرف صنعتی تعلقات ایکٹ 2012ء وضع کرکے نافذ کیا تھا بلکہ اس صورتِ حال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں کالعدم قرار دی جانے والی وفاقی وزارتِ محنت و افرادی قوت کی جگہ7جون 2013ء کو ایک نئی وفاقی وزارت ”وزارتِ سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل“ بھی تشکیل دی تھی۔ اس غیر یقینی صورتِ حال کے نتیجے میں قومی صنعتی تعلقات کمیشن بھی بہت عرصے سے غیر فعال چلا آرہا تھا، جس کے باعث ٹریڈ یونینز اور لیبر فیڈریشنز کی رجسٹریشن سمیت ملک کے محنت کش طبقے اور آجران کو آپس میں درپیش صنعتی تعلقات کے باعزت تصفیے اور کارکنوں کو ملازمت سے برطرفی کی صورت میں دادرسی کے لیے بے شمار رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا تھا ۔

اس گمبھیر صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے وزارتِ سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان نے نگراں وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2012 کی دفعہ 53 کے تحت ایک تازہ فرمان کے ذریعے 30 اپریل 2023ء کو قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے نئے چیئرمین اور ارکان کی تقرری کی تھی۔

قوانین کے مطابق صنعتی تنازعات کی تصفیہ کاری، صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر اداروں میں اجتماعی سودے کاری (CBA) کے تعین کے لیے ریفرنڈم کے انعقاد اور اجتماعی سودے کاری ایجنٹ(CBA) سرٹیفکیٹ جاری کرنا، غیر منصفانہ مزدور کارروائیوں اور کارکنوں کی انفرادی و اجتماعی شکایات کی دادرسی کرنا شامل ہے۔ کمیشن آجران، ٹریڈ یونینز، لیبر فیڈریشنز اور کارکنوں کی جانب سے دادرسی کے لیے دائر کردہ انفرادی و اجتماعی شکایات پر دونوں فریقوں کو طلب کرکے ان کے کیسوں کی سماعت کرتا ہے اور دورانِ سماعت دونوں کا موقف سننے کے بعد مزدور قوانین کی روشنی میں فیصلے صادر کرتا ہے۔

قومی صنعتی تعلقات کمیشن نے اپنے مجموعہ میں کمیشن اور چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت اور انسانی وسائل میں رجسٹر شدہ ملک بھر کی ٹریڈ یونینز اور لیبر فیڈریشنز کے مفصل کوائف مرتب کیے ہوئے ہیں۔ قومی صنعتی تعلقات کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق کمیشن کے پاس صنعتی تعلقات ایکٹ 2012ء کے تحت ملک بھر کی مصدقہ رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز کی تعداد625 اور رجسٹرڈ ملک گیر لیبر فیڈریشنز کی تعداد 46ہے۔ جبکہ ان میں ملک بھر کے مختلف صنعتی اور دیگر اداروں میں محنت کشوں کی حقوق کے تحفظ کے لیے خدمات انجام دینے والی 318ملحقہ ٹریڈ یونینز اور اپنے چار لاکھ سے زائد ارکان کے ساتھ 1969ء میں قائم ہونے والی نیشنل لیبر فیڈریشن (NLF) پاکستان سرفہرست ہے۔