برطانیہ کے بلدیاتی انتخابات 2 مئی کو منعقد ہوئے اور برطانیہ کی سیاست میں نئی روش کی بنیاد ڈال گئے۔ گوکہ اس نئی سیاست کا باقاعدہ آغاز 7 اکتوبر 2023ء کے بعد ہوا، اور یہ مسئلہِ فلسطین سے منسلک ہے۔ ان انتخابات میں حیران کن نتائج کی توقع کی جارہی تھی جوکہ کسی حد تک پوری ہوئی، لیکن چند ایسے امور ہیں جن پر خود برطانوی سیاست دان حیران ہیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مسئلہ فلسطین کا جادو اِن بلدیاتی انتخابات میں سر چڑھ کر بولا۔ روایتی طور پر کونسلز یا لوکل باڈیز الیکشن میں کارکردگی اور آئندہ کے امکانات اور نئی سہولیات کے حوالے سے مہم چلائی جاتی ہے، لیکن اِس مرتبہ ان امور کا ذکر بہت حد تک اور خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ برطانیہ میں لوکل باڈیز کے پاس وسائل کی ایک بڑی قوت ہوتی ہے جس میں پولیس سے لے کر تعلیم، فلاح و بہبود اور عوام کو معاش یا اس ضمن میں سپورٹ کی فراہمی کی براہِ راست ذمہ دار مقامی حکومت ہوتی ہے، لہٰذا انتخابی مہم میں امیدوار اپنے منصوبے عوام کے سامنے رکھتے ہیں اور ووٹ کی اپیل کرتے ہیں۔
غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے بعد سے برطانیہ کی سیاست میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کا فلسطین پر مؤقف یکساں ہے جس کی وجہ سے برطانوی پارلیمان میں دونوں پارٹیاں جنگ بندی کی قرارداد لانے سے گریزاں رہیں اور اسرائیل کی حمایت میں مکمل فعال نظر آئیں۔ اس کا نتیجہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سامنے آیا، فلسطین میں انسانی نسل کُشی کے المیے پر لیبر پارٹی کی خاموشی اور اسرائیل کی حمایت پر نارتھ ویسٹ کی کئی کونسلز میں لیبر پارٹی کے کونسلر مستعفی ہوگئے جس کی وجہ سے لیبر پارٹی ان کونسلز میں اپنی عددی اکثریت برقرار نہ رکھ سکی اور یہاں حکومتی کنٹرول لیبر پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اس کے بعد برطانوی پارلیمان میں لیبر پارٹی کے شیڈو منسٹرز جوکہ مستقبل کے منسٹرز تھے ان کی ایک بڑی تعداد نے بھی جنگ بندی کی قرارداد پر لیبر پارٹی کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی شیڈو منسٹری چھوڑ دی۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی اکثریت لیبر پارٹی کو ووٹ دیتی ہے، لیکن فلسطین کے معاملے پر 7 اکتوبر کے بعد سے مسلمان اکثریت نے کھل کر لیبر پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور اسے ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں نارتھ ویسٹ کے شہر روش ڈیل میں ہونے والا ضمنی انتخاب ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا کہ جہاں رکن پارلیمان کے ضمنی انتخاب میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما اور اب ورکرز پارٹی کے سربراہ جارج گیلووے جوکہ صہیونیت کے سخت ناقد ہیں وہاں سے کھڑے ہوئے اور لیبر پارٹی کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ اس حلقے کو لیبر پارٹی کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا، لیکن لیبر پارٹی نے اپنی عزت بچانے کے لیے براہِ راست انتخابات میں مکمل طور پر حصہ نہیں لیا۔ 29 فروری 2024ء کو منعقدہ اس ضمنی انتخاب میں جارج گیلووے نے 39.7 فیصد ووٹ لے کر حیران کن کامیابی حاصل کی، جبکہ اس سیٹ پر جیتنے والی سابقہ پارٹی، لیبر پارٹی محض 7.7 فیصد ووٹ حاصل کرسکی۔ یہ نتائج سب کے لیے اس لحاظ سے حیران کن تھے کہ اتنی اکثریت سے جیت کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ اس الیکشن کو جیتنے کے بعد گیلووے نے اپنی فتح غزہ کے نام کی، جبکہ وزیراعظم رشی سونک نے یکم مارچ 2024ء کو اس الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انتہا پسندی اور برطانوی معاشرے کی تقسیم کی علامت قرار دیا اور اس جیت پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اس تبصرے نے جہاں عوام کے اظہارِ رائے کے حق کو گہنانے کی کوشش کی، وہیں مسلمانوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل بھی نظر آیا۔ رشی سونک کا یہ بیان ایک جانب کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے پیغام تھا تو دوسری جانب جنگ بندی کے لیے مہم چلانے والوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر مستحکم کرنے کا باعث بن گیا۔ یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ حکومتی پالیسی کا عکاس ہے جس کا اظہار سابق وزیر داخلہ سوئیلا براومین سے لے کر کنزرویٹو پارٹی کے لیڈران کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے کہ جہاں انہوں نے جنگ کے ہر مخالف کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے تو دوسری جانب مسلمان سیاست دانوں کو نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال میئر لندن صادق خان کو لندن میں ہونے والے جنگ بندی مظاہروں کا پشت پناہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور اس پر منظم مہم جوئی ہے۔
ان سب امور کی بازگشت مقامی حکومتوں کے ان انتخابات میں سنی گئی کہ جہاں جنگ بندی کی مخالف لیبر پارٹی کو مسلم اکثریتی علاقوں میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب میئر لندن صادق خان جوکہ خود لیبر پارٹی کے امیدوار تھے، کی حمایت میں بھی ان کے خلاف مہم جوئی کی وجہ سے اضافہ ہوا۔ حالانکہ 7 اکتوبر سے قبل لگتا یہ تھا کہ صادق خان کے بطور میئر لندن اقدامات کی وجہ سے اُن کی حمایت روز بروز کم ہورہی ہے۔ ان اقدامات میں سب سے بڑا قدم آلودگی سے پاک زون کا دائرۂ کار بڑھانا تھا جس پر لندن میں شدید مزاحمت نظر آئی اور حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی نے بھی اس پر خوب پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن نفرت انگیز مہم صادق خان کو نقصان کے بجائے فائدہ دے گئی اور صادق خان نے نہ صرف اس مہم کا سامنا کیا بلکہ اپنے ناراض ووٹرز کو منانے کے لیے اردو میں بھی پیغامات دیے۔ صادق خان بالآخر اس معرکے میں ایک واضح برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ انہوں نے دس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے اپنی مدمقابل کنزرویٹو پارٹی کی سوزن ہال کو تقریباً پونے تین لاکھ ووٹوں سے شکست دے کر مسلسل تیسری مرتبہ میئر لندن منتخب ہوکر تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اس سے قبل کوئی بھی فرد مسلسل تین مرتبہ میئر لندن منتخب نہیں ہوسکا تھا۔ اس کارنامے کے پیچھے جہاں صادق خان کی اپنی جدوجہد ہے، وہیں اِس بار سخت معرکے میں کنزرویٹو پارٹی کی منفی مہم نے بھی صادق خان کی جیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
برمنگھم برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے، یہاں انتخابات میں اُس وقت دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوئی جب ایک آزاد امیدوار احمد یعقوب نے جوکہ بنیادی طور پر وکیل ہیں، انتخابی معرکے میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ احمد نے اپنی پوری انتخابی مہم غزہ کے مسئلے کو اجاگر کرنے پر منظم کی۔ انہوں نے اس پر مساجد میں خطاب سے لے کر اپنی تشہیر کے تمام تر مواد پر فلسطین کے جھنڈے اور غزہ کو نمایاں رکھا۔ یہ رجحان پورے برطانیہ میں جہاں جہاں انتخابات ہوئے، نظر آیا۔ آزاد امیدواروں کی اکثریت اور پارٹی امیدواروں میں سے بھی چند ایک نے ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اس حکمت عملی کا استعمال کیا۔ برمنگھم جو کہ لیبر پارٹی کا مضبوط ترین گڑھ تصور کیا جاتا ہے وہاں سے میئر برمنگھم کے الیکشن میں احمد یعقوب نے آزاد حیثیت سے 69 ہزار ووٹ لے کر سب کو ششدر کردیا، اور لیبر پارٹی بہت مشکل سے محض 1500 ووٹوں کی برتری سے میئر لندن کی نشست پر کامیاب ہوئی۔
یہ نتائج دو بڑے شہروں میں بدلتے رجحانات کا پتا دے رہے ہیں۔ گوکہ برطانیہ کی 371 کونسلز میں سے یہ انتخابات 107 کونسلز میں منعقد ہوئے، تاہم اس لحاظ سے ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ اِس سال کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل یہ آخری انتخابات تھے جن سے سیاست کا رخ سمجھ میں آسکتا ہے۔ برطانیہ کی نارتھ ویسٹ کی کونسلز میں اولڈہیم ایک نمایاں کونسل ہے جہاں روایتی طور پر لیبر پارٹی مضبوط ہے، لیکن اس کونسل میں بھی ایک طویل عرصے بعد لیبر پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آزاد امیدوار جن کی اکثریت نے غزہ کے معاملے پر مہم چلائی، لیبر پارٹی کی شکست کا باعث بن گئے اور بڑی تعداد میں منتخب بھی ہوئے۔ اسی طرح بلیک برن سے آزاد امیدوار سب سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے اور کونسل کی 8 نشستیں جیت گئے۔
اس وقت لیبر پارٹی کو اپنے جنگ حمایتی بیانیے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تو ہے لیکن کنزرویٹو پارٹی کی بدترین کارکردگی نے لیبر پارٹی کے لیے جیت کے امکانات روشن کیے۔ ان انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کو 40 سال کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تقریباً 400 نشستیں کھو بیٹھی، جبکہ لیبر پارٹی کو مزید 232 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی طرح لبرل ڈیموکریٹ جماعت کو 98 مزید نشستوں پر کامیابی ملی، اور گرین پارٹی بھی مزید 28 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس طرح کنزرویٹو پارٹی کی شکست کسی ایک پارٹی کی جھولی میں نہ جاسکی، اس پر مستزاد یہ کہ لیبر پارٹی کی مکمل یا واضح جیت میں غزہ کا بیانیہ حائل رہا۔ اب جنگ مخالف عناصر کی تقسیم برطانیہ کی سیاست میں نظر آرہی ہے جس کا فائدہ کنزرویٹو اور لیبر کو ہوگا۔ اگر آئندہ انتخابات میں یہ عناصر مل کر کسی ایک جگہ متحد ہوسکیں تو ان کے ووٹر کو بہت اچھا پیغام ملے گا، اور اگر دونوں بڑی پارٹیوں میں سے کسی کو عددی برتری حاصل نہ ہو تو یہ گروہ بھی ایک بیلنسنگ پاور کو اچھے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔
ابھی برطانوی الیکشن میں کچھ ماہ باقی ہیں لیکن یہ برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ لوکل باڈیز الیکشن میں مقامی سے زیادہ بین الاقوامی بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس کی باز گشت آئندہ الیکشن میں اس سے زیادہ ہوگی۔ برطانیہ کی سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے، آئندہ آنے والے الیکشن اس کا نتیجہ اور رُخ متعین ضرور کردیں گے۔