حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
”جو شخص حج کرنے کا ارادہ کرے تو پھر وہ جلدی کرے۔ “
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب المناسک:1732)
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ عبادات اور اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کے حوالہ سے انتہائی اہمیت رکھتاہے۔ان ایام میں جہاں ایک طرف حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے فقر کے لباس احرام میں ملبوس ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہیں اور اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف اس فریضے کی ادائیگی نہ کرنے والے اہل ایمان کے لیے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب و تحریض احادیث مطہرہ میں ہمیں نظر آتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مامن ایام العمل الصالح فیھا احب الی اللّٰہ من ھٰذہ الایام …یعنی الایام العشر……قالوا: یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم والا الجہاد فی سبیل اللّٰہ؟؟ قال: ولاالجہاد فی سبیل اللّٰہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذٰلک بشی ئٍ (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیک اعمال کے حوالہ سے ان دنوں سے زیادہ پسندیدہ دن اور کوئی نہیں۔ (اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں)۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ۔ کیا جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے ؟؟
آپؐ نے فرمایا :جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کراللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے اور واپس کچھ نہ لے کر آئے ۔ (یعنی شہادت بھی نصیب ہو اور مال بھی خرچ ہوجائے۔)
ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور احادیث مطہرہ میں ان دنوں میں عبادات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن بکثرت لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں ۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلب گار ہوناچاہیے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اعظم الایام عنداللہ یوم النحر ثم یوم القر(احمد و ابودائود من عبداللہ بن قرطؓ) ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا یوم النحر (قربانی کا دن) اور یوم عرفہ ہے۔ آپؐ نے اس دن کی سب سے بہترین دعا اسے قرار دیا ہے: لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ، ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہت اور تعریف ہے۔ اور وہی ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔
یوم عرفہ کا روزہ
غیر حاجی کے لیے عرفہ کاروزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اس کا عظیم اجر وثواب ذکر کیاگیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یکفرالسنۃ الماضیۃ والباقیۃ (رواہ مسلم عن ابی قتادہ ؓ)’’یہ روزہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے سال کاکفارہ بن جائے گا‘‘۔
لیکن حاجی کے لیے افضل اور مستحب یہ ہے کہ وہ یوم عرفہ کاروزہ نہ رکھے تاکہ وہ حج کے موقع پر ذکر دعا اور دیگر عبادات کا حق ادا کرسکے ۔ اور اسے کمزوری ونقاہت لاحق نہ ہو ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کی سہولت کے پیش نظر خود بھی یوم عرفہ کاروزہ نہیں رکھا۔
حضرت ام فضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس چند لوگ آئے اور عرفہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روزہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔ بعض نے کہاکہ آپؐ روزے سے ہیں اور بعض نے کہاکہ آپؐ روزہ سے نہیں ہیں میں نے (اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے ) آپؐ کی خدمت میں دودھ کاپیالہ بھیجا۔
آپؐ اپنے اونٹ پر سوار وقوف فرما رہے تھے ۔ آپؐ نے دودھ پی لیا (بخاری ومسلم)۔عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر اور دعائیں مسنون اور باعث اجر و ثواب ہیں۔
یوم النحر ……قربانی کادن
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے جہاں دیگر مناسک حج کی ادایگی کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کرتے ہیں وہیں غیر حاجی عام اہل ایمان کے لیے بھی اُن کی عبادت ’نحر ‘ قربانی کے وقت کی فضیلت ہے ۔ اور جانوروں کی قربانی کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کاذریعہ بتایا گیاہے اس اہم عبادت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خشیت وللہیت ہے۔ یہ بات قابل صد افسوس ہے کہ آج جہاں دیگر عبادات بھی تدریجاً ایک رسم و روایت کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں وہیں قربانی کو بھی نام و نمود اور نمائش کاذریعہ بنادیاگیاہے۔
قربانی کی اس اہم عبادت میں شریعت مطہرۃ کے پیش نظر یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷)اللہ تعالیٰ تک (قربانی کے جانور وں کا )نہ تو گوشت پہنچتاہے اور نہ ہی خون بلکہ اللہ تعالیٰ تک تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔
قربانی کے ذریعے ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اعزا و اقربا کے لیے صدقہ و انفاق کی کیفیت ہو اور باہم محبت ومؤدت کے تعلقات کو بڑھایاجائے۔ قربانی کاگوشت خود بھی کھانا مستحب ہے۔ قربانی کے ذریعے شعائر اسلام کااظہار اور اس کی عظمت واضح ہوتی ہے ۔ قربان کا یہ عمل حاجیوں کے ساتھ مشابہت کاعمل ہے جس میں ایک گونہ ترغیب اور تشویق کاپہلو بھی غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے حاجیوں سے مشابہت کے پیش نظر اپنے بال نہ منڈوانا اور ناخن نہ کتروانا مستحب ہے۔a