انسان مادے اور روح دونوں کا مجموعہ ہے، جن کے مابین کشمکش ازل سے جاری ہے۔ ادب انسانی زندگی سے عبارت ہے۔ اس لیے ادب میں بھی روحانیت اور مادیت کی کشمکش واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ادب میں کئی مذہبی تصورات نے جگہ بنائی، جیسا کہ اردو ادب میں انسان کا ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین نظر آتا ہے۔ قرآنی آیات کے ترجمے، قرآنی تلمیحات، ارشاداتِ باری تعالیٰ کی تفسیر و تشریح اور ان کا شاعرانہ استعمال اردو شاعری میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے، یہاں تک کہ بعض نظمیں دیومالا کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہیں۔البتہ جدیدیت کے آغاز میں خدا اور مذہب سے بیزاری ایک نمایاں رجحان کی شکل میں ظاہر ہوئی، لیکن بعد کے تجربات نے اس بات کو ثابت کردیا کہ صرف مادہ پرستی ہی میں انسانی عظمت کا راز پوشیدہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے روحانی بالیدگی بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شعراء و ادباء نے حیات و کائنات کے اسرار و رموز کو اپنی نگارشات کا موضوع بنایا اور اس کے مختلف پہلوؤں کی نقاب کشائی کی ہے۔
پیش نظر کتاب ”ادب میں روحانیت اور مادیت کی کشمکش (انیسویں صدی میں)“ ڈاکٹر تہمینہ عباس صاحبہ (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ کراچی) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر جامعہ کراچی نے انھیں پی ایچ۔ ڈی کی سند عطا کی ہے۔ فاضل مقالہ نگار علم و ادب سے گہرا شغف رکھتی ہیں۔ اردو ادب کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محنتی محقق اور عمدہ افسانہ نگار بھی ہیں۔
فاضل مقالہ نگار نے درجِ ذیل سات ابواب پر مشتمل اس مقالے میں اردو ادب میں روحانیت اور مادیت کی کشمکش کا برعظیم پاک و ہند کی سماجی، معاشرتی اور ادبی تاریخ کے تناظر میں اردو کے نمائندہ تخلیق کاروں اور اصنافِ ادب کے حوالے سے مطالعہ کیا ہے: 1۔ پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد اور اردو ادب میں روحانیت کے موضوعات کا آغاز، 2۔ چند اہم اصطلاحات اور ان کی توضیح اردو ادب میں روحانیت کے موضوعات کا آغاز ، 3۔ مذہب اور تصوف کے اثرات اردو ادب پر (روحانیت اور مادیت کی کش مکش کے پس منظر میں)، 4۔ ہندوستان میں سیاسی و سماجی زوال و انتشار اور اردو ادب پر اس کے اثرات، 5۔ برطانوی ہند میں اردو ادب پر مغرب کے اثرات، 6۔ اردو کے نمائندہ تخلیق کاروں اور اصنافِ ادب کے حوالے سے مادیت اور روحانیت کی کش مکش کا مطالعہ، 7۔ اردو ادب میں مادیت اور روحانیت کی کش مکش: ایک مجموعی جائزہ۔
انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی سے اس تحقیقی مقالے کی اشاعت خوش آئند ہے۔ امید ہے علمی حلقوں میں اس کی پذیرائی کی جائے گی۔