لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب

خریطہ کھولا تو خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ نئے اور ناواقف قارئین ہڑبڑا گئے ہوں گے کہ ’’اَماں!کیا چیز کھول بیٹھے؟‘‘ گو یہ لفظ اب استعمال نہیں ہوتا، مگر یہ چیز اب بھی استعمال ہوتی ہے۔ خریطہ کہتے تھے اُس تھیلے، کِیسے یا جزدان کو جس میں اہم کاغذات، شاہی دستاویزات اور قیمتی اشیا رکھ کر یا لپیٹ کر ارسال کی جاتی تھیں۔ انگریزی زبان میں اِسے Parcel Pouch” “کہہ لیجے۔ ہم فرطِ مسرت سے جھوم اُٹھے جب ہمیں اس خریطے میں نئی دہلی سے بالواسطہ یعنی براستہ عرب امارات ایک ضخیم کتاب موصول ہوئی۔ کتاب کا نام تھا: ’’لفظوں کے پیچھے چھپی تہذیب۔ تہذیبی فرہنگ‘‘۔ روغنی کاغذ پر چھپے ہوئے خوب صورت چہار رنگی مغلیہ سرورق کے بعد اندرونیا سرورق سے پہلے خالی صفحے پر درج تھا: ’’محترم ابونثر احمد حاطب صدیقی کی خدمت میں بصد احترام و خلوص۔ (دستخط) نعیمہ جعفری پاشا۔20 مارچ 2024ء‘‘

کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، جن کا اصل نام نعیم فاطمہ جعفری ہے، کتاب پر دستخط کرنے کے دو دن بعد،22 مارچ کو کسی نامعلوم سنہ میں راجستھان کی خوب صورت راجدھانی، یعنی ادیب و تہذیب پرور گلابی شہر، جے پور میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا، پھر پی ایچ ڈی کی سند جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے حاصل کی۔ اِس کتاب سمیت اُن کی 21 تصانیف ہیں، جن میں ’’فرہنگ کلیات نظیر اکبر آبادی مع تنقیدی مقدمہ‘‘ کے علاوہ افسانوں کے متعدد مجموعے اور ادبِ اطفال پر کئی تصانیف شامل ہیں۔

’’تہذیبی فرہنگ‘‘ بے حد دلچسپ کتاب ہے۔ فرہنگ کیا، یہ تو ایک طرح کا دائرۂ معارف (Encyclopaedia) ہے۔ بہت سے الفاظ، تراکیب، کہاوتوں، محاوروں اور ضرب الامثال کا تہذیبی پس منظر بتانے کے لیے مصنفہ نے اچھی خاصی تحقیق کی ہے اور تفصیلی مضامین تحریر کیے ہیں۔ فرہنگ کو 26 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب کا تعارف تحریر کرنے کے بعد اس موضوع پر حروفِ تہجی کی ترتیب سے الفاظ، تراکیب، کہاوتیں، ضرب الامثال اور محاورے پیش کیے گئے ہیں۔ موضوعات میں آرائشِ جمال، سنگھار کا سامان، زیورات، لباس، کھانا پکانے کی اصطلاحات، رسومات، ظروف / برتن، سلائی کا سامان، بیماریاں، مہذب گالیاں، رشتے، پیمائش کا نظام اور عمر کی منزلیں شامل ہیں۔ ایک باب اشیائے خور و نوش پر بھی باندھا ہے مگر عنوان ’’اشیائے خورد و نوش‘‘ لکھا گیا ہے، فرہنگ میں ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔کتاب کی ضخامت 1056 صفحات ہے۔ کاغذ دبیز ہے۔ جلد کی دفتی بھی سخت اورموٹی ہے۔ اس کتاب کا وزن ڈیڑھ دو سیر سے کم کیا ہوگا۔ کتاب کے باب ’’پیمائش اور ان کا نظام‘‘ سے استفادہ کیجیے تو اس کتاب کو ’دوسیری‘ کے باٹ کی جگہ بے تکلف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ فرہنگ نئی نسل کو پرانی تہذیب سکھانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، کیوں کہ اس میں نئی تہذیب کا پرانی تہذیب سے موازنہ بھی شامل ہے۔ یہی کتاب تربیت کے آلے یعنی ’’تنبیہ الغافلین‘‘ کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ کتاب پڑھ کر بھی کوئی تہذیب نہ سیکھے تو فرہنگ دونوں ہاتھوں سے اُٹھاکر اُس کے دے ماریے۔ اپنے جے پور والے مشتاق احمد یوسفی کے بقول کنپٹی میں ’بھمباقا‘ کھل جائے گا۔ ’بھمباقا‘ کیا ہوتا ہے؟ یہ تہذیبی نکتہ اِس ’’ تہذیبی فرہنگ‘‘ میں نہیں بتایا گیا۔ البتہ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم بتاتے ہیں کہ اس سے مراد بڑا چھید ہے۔ وہ سوراخ جو آر پار ہوجائے۔ پوری کتاب کے آر پارآپ کو گزار دینا تو اس کالم میں ممکن نہیں، لیجے فقط چند چیزیں چکھ لیجے۔

’’بیسن دانی: (اُردو، اسم، مؤنث) بیسن رکھنے کی ڈبیا۔ پرانے زمانے میں خواتین صابن سے منہ نہیں دھوتی تھیں۔ منہ دھونے کے لیے چنے کا آٹا یا بیسن استعمال کیا جاتا تھا، جن ڈبیوں میں بھر کر بیسن غسل خانوں میں رکھا جاتا تھا انھیں بیسن دانی کہا جاتا تھا۔ یہ ماننا تھا کہ بیسن (چنے کی دال کا آٹا) یا چنے کا آٹا رنگت کو نکھارتا ہے اور کیل مہاسوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔ بیسن میں دودھ اور ذرا سی ہلدی ملا کر منہ دھونے سے خشکی اور دانے دُور ہوجاتے ہیں اور چہرے پر نکھار آتا ہے۔ بیسن دانی آرائشِ جمال میں اہم رول نبھاتی تھی‘‘۔ (باب: ’’آرائشِ جمال/سنگھار‘‘، ذیلی عنوان’’سنگھار کا سامان‘‘۔ ص:36)

’’پہنچی (پوہ ں چی): (ہندی/اردو، اسم،مؤنث) ’’پہنچا‘‘ ہندی /ہندوستانی میں کلائی کوکہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ زیور جو کلائی میں پہنا جاتا ہے ’پہنچی‘ کہلاتا ہے۔ فارسی میں اس زیور کو ’’دست بند‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’پہنچی‘ چوڑی یا کڑے سے اس طرح مختلف ہوتی ہے کہ چوڑی یا کڑے ہاتھ میں ڈال کر پہنے جاتے ہیں جب کہ پہنچی کلائی پر لپیٹ کر کھٹکے یا چٹخنی سے بند کی جاتی ہے۔ اس لیے وہ کلائی کے سائز کی ہوتی ہے اور اپنی جگہ قائم رہتی ہے، جب کہ چوڑیاں کلائیوں میں آگے پیچھے ہوتی رہتی ہیں اور بجتی رہتی ہیں۔ پہنچی کڑے کی شکل کی حلقہ نما بھی ہوتی ہے اور باریک سونے کی زنجیروں کے درمیان سونے چاندی کے لمبوترے جڑاؤ پترے سے جڑی ہوئی بھی ہوتی ہے، جسے زنجیر کی طرح پہنا جاتا ہے۔کڑے کی شکل کی پہنچی میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے گھنگھرو یا موتی یا نگ بھی لٹکے ہوتے ہیں‘‘۔ (باب: ’’آرائشِ جمال/سنگھار‘‘، ذیلی عنوان’’زیورات‘‘۔ ص:70-69)

’’مائیوں/مانجھا/اُبٹن: (اردو/ہندی، اسم، مذکر) شادی سے پہلے کی ایک رسم، جسے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اس رسم میں شادی سے پانچ چھے دن پہلے لڑکی اور لڑکے کو (اپنے اپنے گھروں میں) پیلے کپڑے پہنا کر ایک کمرے میں بٹھا دیتے تھے اور انھیں نکاح کے دن تک باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی‘‘۔ (باب: ’’رسومات‘‘، ذیلی عنوان’’شادی کی رسمیں‘‘۔ ص:248)

پاکستانی پنجاب میں یہ رسم ’’تیل‘‘ کہلاتی ہے، جو زیادہ پُرمعنی اصطلاح ہے، کیوں کہ اس کے بعد دولھا دُلھن کا تیل ہو جاتا ہے۔

’’تام چینی: (اُردو، اسم، مؤنث) تام=تانبہ +چینی=مٹی چینی۔ پرانے زمانے میں امیر اور غریب سب کے ہاں کھانا کھانے کے لیے تام چینی کے برتن استعمال ہوتے تھے۔ تانبے کے پتلے پتروں سے بنائے ہوئے برتنوں پر گاڑھی مٹی چینی کی پالش کی جاتی تھی۔ خاص طور پر کناروں پر گہری نیلی یا سرخ رنگ کی موٹی پرتیں جمائی جاتی تھیں تاکہ دھات سے ہاتھ نہ کٹے… مٹی چینی کا گھول اتنا موٹا جم جاتا تھا کہ تانبہ بالکل ڈھک جاتا… تام چینی کی نہ صرف رکابیاں اور طشتریاں بنتی تھیں بلکہ پیالے، مگ، طشت (ٹرے)تھالیاں، ناشتے دان اور قابیں (ڈش) بنا کرتی تھیں‘‘۔[مضمون سے جزوی اقتباسات](باب: ’’ظروف/برتن‘‘، ذیلی عنوان ’’کھانا پکانے اور کھانے کے برتن‘‘۔ ص: 375-374)

’’دہلیز: (فارسی، اسم، مؤنث) گھر کی چوکھٹ۔گھر کے داخلی دروازے پر جہاں کواڑ لگا ہوتا تھا وہاں ایک اونچی پتھر یا سیمنٹ کی چوکھٹ لگی ہوتی تھی، جس کے اوپر کواڑ بند ہوتا تھا۔ دہلیز دراصل نہ صرف عمارت کا ایک حصہ ہوتی تھی بلکہ ایک استعارے یا علامت کے طور پر بھی استعمال کی جاتی تھی جیسے دہلیز پار کرنا یعنی گھر کی روایتوں کو توڑ کرکوئی کام انجام دینا یا گھر سے باہر نکل جانا۔ اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ شہر دہلی کا نام دہلیز ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے، کیوں کہ دہلی میں داخل ہونا ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان کی دہلیز پار کرنا اور پورے ملک پر قبضہ ہوجانا‘‘۔ [طویل مضمون سے اقتباس](باب:’’فن تعمیر اور تعمیرات‘‘۔ص:499)

’’چیل گاڑی: (اردو، اسم، مؤنث) ہوائی جہاز، ایروپلین۔ زمانۂ قدیم میں ہوائی جہاز کی ایجاد کے برسوں بعد تک ہندوستان کے آسمان پر ہوائی جہاز بہت ہی کم اور کبھی کبھار ہی نظر آتے تھے۔ جب ہوائی جہاز کے گزرتے وقت گڑگڑاہٹ کی آواز فضا میں گونجتی تو لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل آتے، آسمان میں اُڑتے ہوئے ایک دیو پیکر پرندے کا تماشا دیکھتے۔ انھیں یہ محسوس ہوتا کہ ایک بڑی سی لوہے کی چیل ہے جو آسمان میں اُڑ رہی ہے، لہٰذا اس کا نام ’’چیل گاڑی‘‘ رکھ دیا گیا۔ انھیں معلوم ہوچکا تھا کہ اس میں مسافر بھی سفر کرتے ہیں، بہت سوں کو یہ فکر بھی لاحق ہوجاتی تھی کہ چیل گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ رفعِ حاجت کریں گے تو وہ اُن کی چھت پر یا خود اُن پر بھی گر سکتا ہے‘‘۔
[مضمون سے اقتباس] (باب: ’’متفرقات‘‘۔ ص: 846)