)اٹھارہویں قسط (
ایمنسٹی انٹرنیشنل کو تحقیقات سے معلوم ہوا کہ فلسطینی سویلینز کو، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، بالعموم بہت فاصلے سے گولی ماری گئی جبکہ اُن کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کی زندگی کے لیے کوئی حقیقی اور بڑا خطرہ بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ جس وقت اِن سویلینز کو گولی ماری گئی تب اُن کے علاقے میں کسی بھی نوعیت کی لڑائی نہیں ہورہی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ بیشتر فلسطینی شہریوں کو اُس وقت گولی ماری گئی جب وہ سفید جھنڈے لہراکر بتارہے تھے کہ وہ غیر متحارب ہیں، یعنی حماس یا کسی اور گروپ کی طرف سے اسرائیلی فوج کے خلاف لڑائی میں شریک نہیں۔ اس امر کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جن علاقوں میں سویلینز کو بڑی تعداد میں شہید کیا گیا اُن کا کنٹرول اسرائیلی فوج کے ہاتھ میں تھا، اور جن سویلینز کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اُن میں حماس یا کسی اور گروپ کے جنگجو چھپے ہوئے یا پناہ لیے ہوئے نہیں تھے۔ ایک اور واقعے میں عبدِ ربو فیملی کی دو خواتین اور تین بچے اپنے گھر سے محض چند منٹ کے لیے باہر نکلے تھے اور اُنہوں نے سفید کپڑے کے ٹکڑے بھی لہرائے تھے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ غیر متحارب ہیں، مگر پھر بھی اسرائیلی فوجیوں نے گولی چلادی جس کے نتیجے میں ایک دو سالہ بچی اور ایک سات سالہ بچی شہید ہوئی۔ تیسری بچی اور اُن کی دادی زخمی ہوئیں۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں یہ بات صراحت کے ساتھ درج ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی شہریوں کو کسی جواز کے بغیر نشانہ بنایا یعنی موت کے گھاٹ اتارا۔ اُن کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں کو کسی بھی نوع کے خطرات کا سامنا نہ تھا کیونکہ وہ عام سویلین فیملیز تھیں۔ مختلف حوالوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے سویلینز پر کسی جواز کے بغیر فائر کھولا۔
آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے جو گواہیاں ریکارڈ کرائی گئیں اُن میں واضح طور پر درج ہے کہ فلسطینی شہریوں کو کسی جواز کے بغیر اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔ مثلاً کھیتوں میں کام کرنے والوں اور چہل قدمی کرنے والوں پر فائر کھولنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں اور افسران کی گواہیوں میں کہا گیا کہ جنہیں نشانہ بنایا گیا وہ کسی بھی اعتبار سے دہشت گرد نہ تھے۔ اِن گواہیوں میں سفاکی کے مظاہر پر شدید حیرانی اور رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ چند سپاہیوں اور افسروں نے کہا کہ بہت سوں کو اس طور مارا گیا گویا اُن کی جان کی کوئی قیمت ہی نہ ہو۔ انسانی جانوں کے تلف ہونے پر بھی افسردگی کا اظہار کرنے والے خال خال تھے۔ فلسطینی علاقوں میں ہر شخص کو دہشت گرد سمجھ لیا گیا تھا اور اُس سے اُسی طور پیش آیا گیا جس طور دہشت گردوں سے پیش آتے ہیں۔ بہت سے فوجیوں نے بتایا کہ اُنہیں اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ جو چاہیں کریں۔ بعض سپاہیوں کو حکم دیا گیا کہ جیسے ہی کوئی دکھائی دے، گولی داغ دو۔ طے کرلیا گیا تھا کہ کسی کو بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جواز کے بغیر نشانہ بنانا ہے، اور نشانہ بنایا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی فوج نے جتنے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو شہید کیا اُس سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی بھی اعتبار سے جنگ نہ تھی بلکہ اِسے واضح طور پر قتلِ عام ہی قرار دیا جاسکتا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈنکن کینیڈی کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج نے جس انداز سے کارروائیاں کیں اُنہیں پولیس ایکشن ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے پولیس ایکشن نوآبادیاتی قوتوں کی طرف سے مقامی آبادیوں کے خلاف کیے جاتے تھے اور اس کا مقصد اُنہیں یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ جب تک وہ مزاحمت ترک نہیں کریں گے تب تک اُنہیں نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ نوآبادیاتی قوتوں نے جن خطوں اور ممالک کو فتح کیا وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ اسرائیلی فوج نے بھی فلسطینیوں سے ایسا ہی سلوک روا رکھا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے جو گواہیاں ریکارڈ کرائیں اُن سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو جنگ کا نہیں بلکہ قتلِ عام کا سامنا تھا۔
ایک اسرائیلی فوجی نے اپنی گواہی میں کہا کہ بیشتر کارروائیاں ریموٹ کنٹرول ڈیوائسز کے ذریعے کی گئیں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کی زندگی خطرے میں نہ تھی مگر پھر بھی فلسطینیوں کو نہیں بخشا گیا۔ اُس سپاہی نے مزید بتایا کہ ہمیں لگتا تھا شکار کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ ہم کوئی وڈیو گیم کھیل رہے ہیں اور اپنی طرف سے محض بٹن دباکر، جس کو بھی چاہتے ہیں ختم کردیتے ہیں۔
ایک اور فوجی نے بتایا: کبھی کبھی ہمیں ایسا لگتا تھا جیسے ہم محدب عدسہ لگاکر چیونٹیوں کو ختم کررہے ہوں۔ فلسطینیوں پر بیشتر حملے فضائی کیے گئے یا پھر اسنائپرز نے اُنہیں نشانہ بنایا۔ بہت سے اسرائیلی فوجیوں نے بتایا کہ اُنہیں ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی جنگ نہ ہو بلکہ ایک ٹب میں موجود مچھلیوں کو شکار کیا جارہا ہو۔ نیو ری پبلک کے لٹریری ایڈیٹر لیون وائزلٹیئر نے اس بات پر شدید احتجاج کیا کہ غزہ کے لوگوں کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا گیا اور پھر اُن کے قتل کے حوالے سے شدید بے حسی کا مظاہرہ بھی کیا گیا، یعنی اسرائیلی فوجیوں اور افسران کو اپنے کیے پر شرمندگی بھی نہ ہوئی۔ اُنہوں نے اس بات پر بھی شدید افسوس ظاہر کیا کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کے لیے چیونٹی اور مچھلی جیسے الفاظ استعمال کیے۔ یہ گویا اس امر کا مظہر تھا کہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھا گیا تھا۔ اسرائیلی فلسفی ایزا کیشر نے انتہائی بے دردی اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’اسرائیلی فوجی افسران اور سپاہیوں نے جس شاندار شجاعت کا مظاہرہ کیا اُس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔‘‘ یہی نہیں، 8 اسرائیلی فوجیوں کو شاندار انداز سے شجاعت کا مظاہرہ کرنے پر تمغوں سے بھی نوازا گیا!
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں اس امر پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں میں فاسفورس استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا، جبکہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت اور گنجائش نہیں تھی۔ فاسفورس کے استعمال سے فلسطینیوں کا کیا ہوا ہوگا اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھی فاسفورس کے استعمال سے درجۂ حرارت 816 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ فاسفورس محض جِلد کو نہیں بلکہ ہڈیوں تک کو بھسم کردیتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی جامع رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے خاصے گنجان آباد علاقوں میں بھی فاسفورس کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی مشکلات پیدا ہوئیں اور متعدد اسکولوں، اسپتالوں اور امدادی اداروں کو شدید نقصان پہنچا۔ فاسفورس کے استعمال سے خاصی تعداد میں اموات بھی واقع ہوئیں۔
اسرائیلی فوج نے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کی عمارتوں پر بھی سفید فاسفورس پھینکنے سے گریز نہیں کیا۔ ان دھماکوں سے صرف عمارتیں تباہ نہیں ہوئیں بلکہ بڑے پیمانے پر شہری بھی نشانہ بنے۔ واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے عملے نے بار بار خبردار کیا تھا کہ اگر اِن عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تو عام شہری بھی بڑے پیمانے پر نشانہ بنیں گے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ آپریشن کاسٹ لیڈ سے قبل اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے نے غزہ میں متعدد اسکولوں اور اسپتالوں کی لوکیشن کے حوالے سے بھی اسرائیل کو خبردار کردیا تھا۔ نقشوں کے ذریعے اسرائیلی فوج کو بتایا گیا تھا کہ اُسے کہاں کہاں حملوں سے گریز کرنا ہے۔ بمباری کی صورت میں حماس کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں، اسپتالوں اور امدادی اداروں کی عمارتوں کے تباہ ہونے کا بھی خدشہ تھا۔ اور یہی ہوا۔ القدس اسپتال کی لوکیشن بھی اسرائیلی فوج کو دی گئی تھی تاکہ وہ اُسے نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ اور جس علاقے میں یہ اسپتال واقع ہے وہاں لڑائی بھی نہیں ہورہی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے غزہ پر داغے جانے والے سفید فاسفورس کے گولوں کے تجزیے کے بعد بتایا کہ یہ گولے امریکہ میں تیار کیے گئے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی تیار کردہ ایک اور رپورٹ میں بھی یہی بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج نے جدید ترین، قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے والی ٹیکنالوجیز کی مدد سے فلسطینی شہریوں پر اِس طور حملے کیے جیسے کوئی وڈیو گیم کھیلا جارہا ہو۔ اسرائیل کے لیے فلسطینی علاقوں کو نشانہ بنانا کھیل سے کمتر درجے کا معاملہ تھا۔ نہتے اور مکانات سے دور کھلے میدانوں میں پڑے ہوئے فلسطینیوں کو بھی یوں بے دردی سے نشانہ بنایا گیا جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں۔
ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ ڈرونز کی مدد سے داغے جانے والے میزائل پوری قطعیت کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرتے تھے۔ قطعیت کے حوالے سے کوئی ابہام نہ تھا۔ ڈرونز پر تو کیمرے نصب ہوتے ہی ہیں، میزائلز پر بھی کیمرے نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے اُن میزائلز کو داغنے والوں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا کہ وہ جا کہاں رہے ہیں۔ ایسے میں خالص غیر متحارب لوگوں کو نشانہ بنانا نیت کی خرابی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مزین ہتھیاروں سے عام فلسطینیوں کو نشانہ بنانا کسی بھی اعتبار سے درست اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جدید ترین ٹیکنالوجیز سے مزین کسی بھی میزائل کا رخ موڑنا کچھ مشکل نہیں۔ ڈرون آپریٹر اگر محسوس کرے کہ اُس نے جو میزائل داغا ہے وہ اپنے ہدف سے دور جارہا ہے تو وہ بروقت میزائل کا رخ بدل کر نقصان کا گراف کم سے کم رکھنے کی کوشش کرسکتا ہے، مگر غزہ کے معاملے میں اسرائیلی فوج نے ایسا کچھ نہ کیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ 6 ڈرون حملوں میں 8 بچوں سمیت 29 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اُن علاقوں میں کسی بھی طرح کی لڑائی نہیں ہورہی تھی جہاں یہ حملے کیے گئے۔ اسرائیلی فوج اس بہانے کے پیچھے نہیں چھپ سکتی کہ اُسے اندازہ نہ ہوسکا یا اندازے کی غلطی ہوئی۔ قطعیت کے ساتھ نشانہ بنانے کی ٹیکنالوجیز کے ہوتے ہوئے یہ جواز تو گھڑا ہی نہیں جاسکتا کہ کسی حملے میں محض اندازے کی غلطی کے باعث بہت بڑے پیمانے پر سویلینز کی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ مزید برآں، یہ حملے دن کے وقت کیے گئے جب لوگ خریداری کررہے تھے، بچے اسکول سے واپس آرہے تھے اور معمول کے مطابق دیگر سرگرمیاں جاری تھیں۔ دن کے اجالے میں کسی بھی ہدف کے تعین میں غلطی کا بہانہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ اگر اِن علاقوں میں حماس یا دیگر فلسطینی گروپوں کے جنگجو اسرائیلی فوج سے لڑ رہے ہوتے تو کیا بچے اسکول جاسکتے تھے؟ خریداریاں جاری رکھی جاسکتی تھیں اور کیا عام آدمی اپنی عمومی معاشی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا تھا؟
اِن تمام حقائق کے باوجود اسرائیلی حکومت نے اپنی رپورٹ میں انتہائی بے شرمی سے یہی راگ الاپا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران انسانی جان کے احترام کا پورا خیال رکھا گیا اور کسی بھی صورت میں کسی غیر متعلق، غیر متحارب شخص کو قتل نہیں کیا گیا۔ ایزا کیشر نے بھی انتہائی بے شرمی سے اسرائیلی فوج کو انسانی جانوں کا ’’انتہائی احترام‘‘ کرنے پر ’’شاندار خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا۔
(جاری ہے)