پاکستان تو امریکہ کی کالونی بنا ہوا ہے،ہندو ستانی اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں:انٹرویو …سابق بیورو کریٹ روئیداد خان

پاکستان 1971 میں نہیں ٹوٹا بلکہ اکتوبر 1958 میں ٹوٹا ہے

روئیداد خان بھی اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ آپ سے اسلام آباد میں ایک دور میں طویل ملاقات ہوئی تھی، جس میں کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ گو کہ یہ آپ سے پہلی ملاقات تھی لیکن مجھے بالکل ایسا نہیں لگا کہ ہم پہلی مرتبہ مل رہے ہیں۔ محبت، سادگی، تہذیب و شائستگی، خلوص و اپنائیت چند گھنٹوں میں دیکھنے کو ملے۔ آپ سے مل کر جب اٹھ رہا تھا تو دروازے تک چھوڑنے آئے اور کئی بار کہا کہ جب بھی اسلام آباد آئیں میرے ساتھ ایک کپ چائے ضرور پینے آئیں۔ اب سوچتا ہوں مجھے آپ سے مزید کئی بار ملنا چاہیے تھا اور اقتدار کے ایوانوں سے متعلق بہت کچھ جاننا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوسکا، جس کا دکھ شاید ہمیشہ رہے۔

روئیداد خان نے اپنی مصروف زندگی سول سروس آف پاکستان میں گزاری، ایک طبقے کا یہ خیال ہے کہ آپ اصل طاقت ور حلقوں سے قربت میں رہے، لیکن دوسری طرف سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدکی زندگی صرف بیوروکریسی اور اس کے نظام میں نہیں رہی بلکہ آپ عملی زندگی میں مزاحمت کرنے والے فرد کے طور پر سامنے آئی۔ پھر ہم نے آپ کو اسلام آباد کی سڑکوں پر جمہوریت اور عدلیہ کے لیے بھی دیکھا۔ اسلام آباد میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ آخری دنوں میں بیمار تھے، انتقال کے وقت آپ کی عمر101 برس تھی۔ روئیداد خان کے لواحقین میں 5 بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ انہیں اسلام آباد کے ایچ-11 قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

روئیداد خان 1949ء میں سول سروس آف پاکستان میں شامل ہوئے اور دورانِ ملازمت نہایت اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں سے چند قابلِ ذکر یہ ہیں: چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری اور بعد میں سیکریٹری جنرل وزارتِ داخلہ، وفاقی وزیر برائے احتساب، اور احتساب کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر۔

جن 6صدور کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے اُن میں سے پانچ کے ساتھ کام کرنے کا ان کا ذاتی تجربہ ہے۔ آپ امریکہ، چین اور بھارت میں پاکستانی سفیر، جبکہ عراق اور سوڈان میں اقوام متحدہ مشن کے سربراہ بھی رہے۔ 1988ء میں ریٹائر ہوئے تھے اور 21 اپریل 2024ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ روئیداد خان ریٹائر ہونے کے بعد اے این پی میں چلے گئے، انہوں نے جلال آباد میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے جنازے میں شرکت کی تھی۔

روئیداد خان ستمبر 1923ء میں ضلع مردان کے علاقے ہوتی میں ایک پختون خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ جگہ شمال مغربی صوبہ سرحد کے ضلع مردان میں کلپانی ندی کے کنارے واقع ہے۔ یہ ندی بائے زئی سے نکلتی ہے اور جنوب کی طرف بہتی ہوئی نوشہرہ اور گاؤں پیر سبک کے درمیان دریائے کابل سے جاملتی ہے، ہشت نگر اور یوسف زئی کا نکاس آب بھی کلپانی ندی میں جمع ہوکر اس ندی کے رستے دریائے کابل میں جا گرتا ہے۔ آپ بتاتے تھے کہ کلپانی ندی میرے بچپن کی کائنات کا مرکز تھی، میں خودبخود اس ندی کی طرف کھنچا چلا جاتا، گھنٹوں کبھی اس میں تیرتا، کبھی اس میں مچھلیاں پکڑتا، کبھی اس کے کنارے بھاگتا دوڑتا اور کبھی کھیلتا کودتا، یا پھر اس کے کنارے بکھری ریت پر کانچ کی گولیوں سے کھیلتا رہتا۔ آپ کے دادا کریم داد خان کے پانچ بچے تھے، دو بیٹے اور تین بیٹیاں۔ والد رحیم داد خان ان میں سے ایک تھے۔ دادا چونکہ گاؤں کے ملک تھے اس لیے انہیں زمینداروں سے لگان وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا اختیار تھا۔ اس خدمت کے عوض انہیں جمع کردہ رقم کا کچھ حصہ مقررہ شرح پر بطور کمیشن ملا کرتا تھا۔ روئیداد خان کے مطابق خاندان میں والد وہ پہلے فرد تھے جو ایسے اسکول میں داخل ہوئے جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوکر والد نے پشاور کے اسلامیہ کالجیٹ اسکول میں داخلہ لیا، لیکن جب1922ء میں انہیں نائب تحصیلدار کی سرکاری ملازمت مل گئی تو انہوں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ آپ بتاتے ہیں کہ میرے والدین نے مجھ سے محبت کا اظہار کبھی برملا نہیں کیا اور نہ ہی بچپن میں ان کے بہت زیادہ قریب رہے۔ اُن دنوں گھر میں بڑوں کے مابین جو گفتگو ہوا کرتی تھی اسے آپ خاموشی سے سن تو سکتے تھے لیکن ازراہِ ادب اس میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، بزرگوں کی گفتگو کے بیچ بولنا آداب کے خلاف تھا۔ آپ نے1930ء کی تحریک سول نافرمانی دیکھی تھی جس میں آپ بتاتے ہیں کہ ”ہمارے گھر کے پاس، عدالتوں کے باہر، سرخ پوش احتجاجی ناکہ بندی کررہے تھے اور برطانوی گھڑ سوار ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے تابڑ توڑ حملے کررہے تھے۔ اپریل 1930ء کے دوسرے نصف میں، موہن داس کرم چند گاندھی کے مشہور ڈنڈی مارچ کے بعد جو نمک کے قوانین کے خلاف احتجاج تھا، پورا ہندوستان ایک عظیم تاریخی جدو جہد میں مصروف تھا۔آپ 1930ء تا 1938ء پارا چنار، مانسہرہ اور کوہاٹ میں رہے۔ابتدائی طور پر کوہاٹ کے اسلامیہ ہائی اسکول میںپڑھا،پھر کوہاٹ کے بھارتری ہائی اسکول میں منتقل ہوئے۔ آپ 1940ءمیں لاہور میں قردادِ پاکستان کی منظوری کے وقت بھی موجود تھے،،فورمین کرسچن کالج لاہور کی انجمنِ مقررین کے سیکریٹری رہے،بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھے، علی گڑھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ انگلش لٹریچر میں بی اے کے بعد والد کی خواہش کے احترام میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایم اے اور ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔1944ءمیں آپ کی شادی ہوئی، ایبٹ آباد کے گورنمنٹ کالج میں لیکچرر رہے،1946ءمیں تحصیل صوابی ضلع مردان میں سب جج مقرر ہوئے۔ آپ کہتے ہیں اُس وقت عدلیہ اپنی غیر جانب داری اور انصاف پسندی کے لیے مشہور تھی، اراکینِ عدلیہ اپنے آپ کو انتظامیہ اور سماجی تقریبات سے دور رکھتے تھے۔ پھر 1949ء میں آپ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اکیڈمی لاہور سے وابستہ ہوئے، مشرقی پاکستان میں بھی رہے، وہاں سے 1951ء میں آسٹریلیا ٹریننگ کے لیے گئے، واپس آئے تو سرحد حکومت میں خدمات ادا کیں۔ ان کے مطابق 1963ء سے 1965ء تک کمشنر کراچی تعینات کردیا گیا، یہ وہی دور تھا جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا جارہا تھا۔ چند سال قبل روئیداد خان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ آپ نے ایک متحرک زندگی گزاری۔ آپ کی زندگی سے جڑی ایک تاریخ ہے، جس میں سے بہت سی کہانیاں اور واقعات روئیداد خان کے مذکورہ طویل انٹرویو میں موجود ہیں جو جنرل پرویزمشرف کے آخری دور میں جب عدلیہ کی تحریک چل رہی تھی، لیا گیا۔ اس انٹرویو میں صرف روئیداد خان کی زندگی کے روز وشب نہیں ہیں بلکہ پاکستان، اس کے نظام اور حکمرانوں کی بدترین تاریخ ہے۔

اس انٹرویو سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم تاریخی طور پر غلام ہیں اور آج جو کچھ بھی پاکستان میں ہورہا ہے یہ ماضی کا تسلسل ہے۔ روئیداد خان تو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، اُن کی کئی باتوں سے اتفاق اور کئی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن درحقیقت وہ ایک بڑے آدمی تھے، اور اس پائے کا بیوروکریٹ اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملےگا، کیونکہ ہم اب بحیثیتِ قوم پستی اور زبوں حالی کی آخری حدوں کو ہر ہر شعبے میں چھو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ روئیداد خان کی مغفرت فرمائے۔