صوبہ سندھ جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں گزشتہ طویل عرصے سے بدامنی کا ایک ایسا بدنما مرکز بنا ہوا ہے جس کی کوئی اور مثال ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسی سرزمینِ بے امان ہے جس کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والے سید مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں یہ بات کہہ کر سبھی کو حیران، پریشان اور دنگ کردیا تھا کہ ’’معلوم نہیں سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین ہتھیار جس میں نیٹو کا اسلحہ بھی شامل ہے، آخر کہاں سے آگیا ہے؟‘‘
وزیراعلیٰ کی نام نہاد معصومیت پر مبنی اس حیرت کو اس وقت سبھی نے ان کی حد درجہ نااہلی، نالائقی اور ناکامی گردانتے ہوئے یہ تبصرہ بجا طور پر صد فیصد درست کیا تھا کہ ’’وزیراعلیٰ اس بیان کے بعد اب اپنے منصب پر رہنے کے لائق بالکل نہیں رہے ہیں، کیوں کہ ان کی نااہلی اور ناکامی ان کے اس بیان سے صاف صاف جھلکتی ہے۔‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ وزیراعلیٰ موصوف نے اپنے جس مذکورہ بیان میں سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کے پاس نیٹو کے جدید ترین ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تھا سندھ کا بچہ بچہ اس کی حقیقت سے بہ خوبی آشنا ہے کہ ان ڈاکوئوں کے پاس ہر قسم کا تباہ کن اور جدید ترین اسلحہ کہاں سے اور کن راستوں سے ان تک پہنچتا ہے، اور ان ڈاکوئوں کا اصل سرپرست کون ہے؟ اب یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس نیٹو کے جدید ترین ہتھیاروں سمیت اسلحے کی موجودگی کے پسِ پردہ دراصل خود حکومت میں شامل منتخب عوامی نمائندے ہی ہیں، اور یہی عوامی نمائندے کچے کے ڈاکوئوں کے اصل سرپرست بھی ہیں۔ سندھ بھر کی پولیس بھی انہی کے اشارۂ ابرو پر چلتی ہے اور انتظامیہ بھی۔ کچے میں چھپے ہوئے سیکڑوں ڈاکوئوں کے بارے میں سندھ کا ہر باشندہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کس طرح سے یہ ظالم ڈاکو سرِعام، عام افراد، سیکورٹی اہلکاروں اور بچوں کو اغوا کرکے ان پر بہیمانہ تشدد کے دوران ان کی وڈیوز بناکر ان کے اہلِ خانہ سے لاکھوں کروڑوں روپے بھنگ (تاوان) طلب کرتے ہیں، اور مطلوبہ رقم نہ ملنے کی صورت میں اپنی دہشت کو قائم رکھنے کے لیے مغویوں کو بے دردی کے ساتھ قتل یا گولی مار کر شدید زخمی کرنے میں قطعی کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے۔ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس ہمہ اقسام جدید ترین اسلحہ از قسم اینٹی ائر کرافٹ گن، بکتربند، پولیس کے وائرلیس اور ڈرون کیمرے تک موجود ہیں۔ ہر وفاقی اور صوبائی حکومت اکثر عوام اور میڈیا کی شدید تنقید سے تنگ آکر اہلِ سندھ کے لیے ایک سنگین ترین مسئلہ بن جانے والے کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کا اعلان تو کرتی ہے جس کے تحت پولیس چوکیوں کے قیام، پیٹرول اور خوراک وغیرہ کے اخراجات کی مد میں ہر سال کروڑوں روپے کے اخراجات تو دکھا دیے جاتے ہیں، تاہم اس کا عملاً کوئی مثبت نتیجہ آج تک برآمد نہیں ہوسکا۔
آج کل بھی کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، شکارپور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن جاری ہے جس میں اکثر ڈاکوئوں کی ہلاکت، گرفتاری، اُن کے زخمی ہونے اور ٹھکانوں کی تباہی کی خبریں بھی بذریعہ میڈیا سامنے آتی رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے سندھ کے کچے کے بیشتر علاقے بلاامتیاز نوگو ایریاز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین ہتھیار اور ان کے روزمرہ استعمال میں آنے والی ساری اشیا زمینی راستوں کے ذریعے حکومتی متعلقہ اداروں کی نااہلی اور چشم پوشی یا ملی بھگت سے ہی پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ کچے کے ظالم ڈاکوئوں کے اصل سرپرست پکے کے ڈاکو ہیں یعنی سندھ کے منتخب عوامی نمائندے اور ان کے دست و بازو، جو عوام کی نظروں میں آئے بغیر کمالِ مہارت کے ساتھ کچے کے ڈاکوئوں سے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کارروائیاں کرواتے رہتے ہیں۔ سندھ کے اہلِ دانش و بینش تو پہلے ہی یہ کہا کرتے تھے لیکن گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے رہنما علی خورشیدی نے بھی برملا یہ حقیقت کہہ دی کہ ’’صوبائی کابینہ میں موجود اور دیگر ارکانِ اسمبلی جرائم پیشہ عناصر کے سرپرست ہیں۔ ان کی اور پولیس کی ملی بھگت سے سندھ میں ڈاکو راج قائم و دائم اور برقرار ہے۔ صوبائی کابینہ کے وزرا اور ارکانِ اسمبلی کی آشیرباد سے ڈاکوئوں، چوروں اور قاتلوں کو پولیس پروٹوکول ملا کرتا ہے۔‘‘
اس وقت نہ صرف صوبہ سندھ بلکہ ملک بھر میں جیکب آباد پولیس کی اس کارروائی پر تبصرے ہورہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر سردار بابل خان بھیّو (جن کا تعلق شکارپور سے ہے) کے بیٹے کو ویگو گاڑی اور پولیس موبائل کے ساتھ غیر قانونی اسلحہ اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ گزشتہ سے پیوستہ روز ہوا ہے جس کے بعد صوبائی مشیر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ بااثر ہونے کی وجہ سے سردار موصوف کے فرزند کو فی الفور رہا کردیا گیا تھا جب کہ حکومت کی مدعیت میں داخل کردہ ایف آئی آر میں بابل بھیو، ان کے بیٹے، ان کی گاڑی وغیرہ کا کوئی ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔ ضلع جیکب آباد کے تھانہ مولاداد میں سرکار کی مدعیت میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت داخل کردہ ایف آئی آر میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شکارپور، گھوٹکی اور کشمور میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن جاری ہے، سندھ اور بلوچستان میں اسلحے کے اسمگلرز اختیار عرف زاہد لاشاری اور دیگر، ڈبل کیبن گاڑیوں میں ہتھیار بلوچستان سے شکارپور میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے اور کراتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہتی ہیں۔ اختیار ولد صوبہ عرف میر محمد لاشاری، ذاکر حسین ولد محمد صاحب بھیو، نبیل احمد ولد رفیق بھیو رہائش جاگن ضلع شکارپور، توفیق ولد محمد رفیق گجر رہائش ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کو غیر قانونی ہتھیاروں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزمان کے مطابق بلوچستان سے یہ ہتھیار شکار پور سندھ میں ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کو فروخت کرکے علاقے بھر میں دہشت پھیلانا مقصود تھا جب کہ ہمارے ہمراہ پولیس موبائل میں موجود اہلکار ہمارے مددگار تھے۔ پولیس موبائل ایس پی این 375 کو تحویل میں لے کر اے ایس آئی امتیاز علی، ثنا اللہ اور بقا اللہ نامی اہلکاروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
سندھی اخبارات، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا، غرض یہ کہ ہر طرف اس وقت اسی واقعے کا چرچا بڑے زور شور سے جاری ہے۔ عہدے سے مستعفی ہونے والے مشیر وزیر اعلیٰ سندھ سردار بابل خان بھیو نے اس واقعے کو اپنی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ایک سازش قرار دیا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ تبصرہ بھی کیا جارہا ہے کہ اب وزیراعلیٰ سندھ کو بھی اس امر کا پتا لگ گیا ہوگا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین ہتھیار کہاں سے پہنچتے ہیں؟ سارے غیر قانونی ہتھیار دراصل سرکاری پروٹوکول اور عوامی نمائندوں کی سرپرستی کے ساتھ پولیس کی آشیرباد سے ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں میں پہنچا کرتے ہیں۔ یہ کارروائی تو عمل میں آگئی ہے لیکن اس کی وجہ سے ضلع جیکب آباد کی پولیس میں ایک کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔ جس انداز میں پولیس نے یہ کارروائی کی ہے اس حساب سے تو پولیس کی حکومتِ سندھ کی طرف سے بھرپور تعریف ہونی چاہیے۔ لیکن سارا معاملہ اس کے یکسر برعکس ہے۔ کارروائی میں حصہ لینے والے افسران طارق ترین، شفاعت اعوان اور شمس الدین کا ڈھرکی ضلع گھوٹکی تبادلہ کردیا گیا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ تبادلہ بطور سزا ہی کیا گیا ہے جس کے حوالے سے ایس ایس پی ضلع جیکب آباد سید سلیم شاہ یہ حیلے بہانے اور جواز گھڑ رہے ہیں کہ دراصل ان افسران کا تبادلہ تو اس واقعے سے پہلے ہی ضلع گھوٹکی میں کردیا گیا تھا۔ صرف ان تین افسران ہی کا تبادلہ اس واقعے کے رونما ہونے سے قبل ضلع گھوٹکی میں کیوں کردیا گیا تھا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ ہاں عوام اس سوال کا جواب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن وہ بے بس ہیں، اور جن کا بس چلتا ہے وہ بے لگام ہیں نشۂ اقتدار میں۔