عمران خان اور ’’ڈیل‘‘ کی کہانیاں؟

سازشی سودے بازی کی سیاست سے جمہوریت کی ناکامی

پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مختلف ادوار میں ’’ڈیل‘‘ کی سیاست، یا ’’کچھ لو اورکچھ دو‘‘کی بنیاد پر ہونے والی سیاست ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی سیاست اور اس سے جڑے فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ سے بالادست حیثیت حاصل رہی ہے۔ اِس وقت بھی ڈیل ہی کی بنیاد پر سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک ڈیل موجودہ حکومت سے ہے جس کی بنیاد عمران خان کی سیاسی دشمنی ہے، جبکہ دوسری ڈیل عمران خان کی مخالفت کی بنیاد پر ہے کہ ہمیں ہر صورت اُن کے اقتدار اور سیاست کا راستہ روکنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خا ن کے سیاسی مخالفین ہوں یا اسٹیبلشمنٹ… دونوں کا عمران خان کی مخالفت پر باہمی اتفاق ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ کسی بھی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہو، وگرنہ اس کی بھاری قیمت مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر ادا کرنا پڑے گی۔ اسی لیے مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کا مخالف بناکر رکھا جائے اور اُنہیں اس بات کا یقین دلایا جائے کہ عمران خان اقتدار میں آئے تو وہ نہ صرف سیاسی مخالفین، بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی معاف نہیں کریں گے۔ اس کھیل میں مسلم لیگ(ن) کے حامی صحافی بھی پیش پیش ہیں جو یہ بیانیہ بناکر پیش کررہے ہیں کہ عمران خان مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ ہوں گے اور ان کا سیاسی وجود خطرے کی علامت ہوگا۔ لیکن 8فروری کے انتخابی نتائج کے بعد عمران خان کی سیاسی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ سیاسی حلقوں سمیت خود اسٹیبلشمنٹ میں بڑھ گئی ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ کی مفاہمت کے بغیر سیاسی استحکام کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ جو سیاسی حکومتی نظام اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور مدد کے ساتھ شہبازشریف حکومت کی صورت میں سامنے آیا ہے وہ خود اپنے سیاسی بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر سے اس پورے انتخابی نظام اور اس کے نتائج کو ہی چیلنج کیا جارہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ 8فروری کا مینڈیٹ ہمارا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے ہم پر جبری بنیادوں پر مسلط کیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں نوازشریف سمیت ایک بڑا دھڑا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف بیانیہ بنانے کی کوشش کررہا ہے جو خود اس خودساختہ حکومتی نظام کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ نوازشریف کے حامیوں کے بقول مرکز اور پنجاب میں اگرچہ ہماری حکومت ہے مگر یہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے مقابلے میں موجودہ وزیر داخلہ محسن نقوی طاقتور ہیں۔ اسی مایوسی کی بنیاد پر سیاسی نظام کو خود سے متنازع بنانے اور تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نوازشریف کو گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت خود اُن کی اپنی جماعت کے بعض افراد بشمول اُن کے بھائی شہبازشریف نے اُن کو سیاسی طور پر گمراہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں یہ آواز ابھر رہی ہے کہ ہمیں اپنی سیاسی بقا اور استحکام کے لیے موجودہ نظام سے خود کو علیحدہ کرنا ہوگا وگرنہ ہماری ساکھ مزید خراب ہوگی۔

اسی بنیاد پر پچھلے کچھ ماہ سے عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں اورکہا جارہا ہے کہ پسِ پردہ آج بھی ڈیل کے تناظر میں مختلف کھیل جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیونکر ڈیل کی طرف بڑھ رہی ہے؟ اور کیوں اُن کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ڈیل کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا؟ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی جہاں ایک بڑی تقسیم پیدا ہوئی ہے وہیں اُن میں یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ ہمیں ہر صورت مفاہمت کا راستہ تلاش کرنا ہے، وگرنہ سیاسی اور معاشی سطح پر استحکام کی باتیں محض باتیں ہی رہ جائیں گی۔ اب کہا جارہا ہے کہ ایک طرف برطانیہ، اور برطانیہ میں موجود عمران خان کی سابقہ اہلیہ اس کو یقینی بنانے کے لیے پسِ پردہ کوشش کررہی ہیں، دوسری طرف پاکستان میں کچھ سیاسی اور کچھ غیر سیاسی لوگ بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت چاہتے ہیں۔ اسی طرح خود پی ٹی آئی کے اپنے اندر ایسے افراد موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا، اور اسی بنیاد پر ہماری سیاسی واپسی کے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔ کچھ سابق جرنیل بھی اس سلسلے میں اپنی سطح پر کوشش کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چاروں طرف سے کوششیں ہورہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اب تک ان معاملات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں مل سکا؟ اصل میں اسٹیبلشمنٹ یقینی طور پر مفاہمت چاہتی ہے، اورچاہتی ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر رام کیا جاسکے۔کیونکہ اُن کو اندازہ ہے کہ عمران خان کی مزاحمت نے اُن کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہاں خرابی کا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی اور اپنے ایجنڈے کی بنیاد پر مفاہمت چاہتی ہے، اور چاہتی ہے کہ اگر عمران خان سے معاملات طے ہونے ہیں تو وہ ہماری شرائط پر ہی ہوں۔ جبکہ دوسری طرف عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ اگر پابند ِسلاسل ہیں اور بدستور مزاحمت کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی کمزور ڈیل کرکے اپنی سیاسی پوزیشن کمزور کریں۔ عمران خان کو اندازہ ہے کہ اس وقت ان کی سیاسی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ان کی اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے کوئی کمزوری دکھائی تو اس کا بڑا نقصان سیاسی محاذ پر ان ہی کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کی جو بات چل رہی ہے اس میں ایک بڑی رکاوٹ عمران خان کا اپنا سخت رویہ ہے۔ وہ آسانی سے سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں، اور جو لوگ بھی اُن کے پاس جیل جاتے ہیں اور مفاہمت کا پیغام دیتے ہیں تو عمران خان کا مؤقف سخت ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان ہی اصل میں مفاہمت کے حامی نہیں۔ ایک الزام یہ بھی لگ رہا ہے کہ عمران خان سیاسی لوگوں، سیاسی جماعتوں یا حکومت سے آگے بڑھ کر مذاکرات کے حامی نہیں بلکہ وہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے اور براہ راست مذاکرات چاہتے ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کی اصل طاقت حکومت یا سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہے اور ان کا بڑا ٹکرائو بھی اسٹیبلشمنٹ ہی سے ہے۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان کو دبائو میں لاکر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کرایا جاسکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ فی الحال اس کے امکانات کم ہیں۔ ویسے بھی مفاہمت کے لیے ابھی تک ہم نے حکومت اور ریاست کی جانب سے ایسے کوئی اقدامات نہیں دیکھے جن کی بنیاد پر پی ٹی آئی یا خود عمران خان کو کوئی بڑا ریلیف ملا ہو جو اُن کی پریشانی یا مشکلات کو کم کرسکے۔ فی الحال پی ٹی آئی بدستور عتاب میں ہے اور اس کے لوگوں کے خلاف تمام مقدمات کی نوعیت قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان پہلے ڈیل کے لیے ہاں کریں پھر ریلیف دیا جائے۔ اس سے قبل بھی ڈیل کی جو باتیں چل رہی تھیں وہ بھی ناکام ہوئی تھیں،کیونکہ عمران خان کو ملک چھوڑنے یا سیاسی قیادت سے دست برداری کا آپشن دیا جارہا تھا جو یقینی طور پر عمران خان کے لیے ممکن نہ تھا۔ اب بھی جس ڈیل کی باتیں ہورہی ہیں اس میںضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی جاری ہے کہ عمران خان سیاسی طور پر باہر نکل کر کوئی بھی بڑی تحریک یا موجودہ نظام کو گرانے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ عمران خان کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اگر اس نظام کو ایک سے دو برس تک قبول کرلیں اور اس کی بنیاد پر سیاست کریں تو سیاسی راستہ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن عمران خان کا مؤقف ہے کہ جو کچھ اُن کے اور اُن کی جماعت کے خلاف 8 فروری کو کیا گیا اس کی تلافی کی جائے، جو لوگ گرفتار ہیں یا ان پر دہشت گردی سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات ہیں، یا جو بھی افراد ملٹری کورٹس میں ہیں ان کو رہا کیا جائے، سانحہ9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور ہمیں سیاسی سرگرمیوں کی ہر سطح پر اجازت ہو، اور بانی پی ٹی آئی پر سیاسی انتقام پر مبنی جو بھی مقدمات ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے۔ ڈیل کی اس سیاست میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ بھی طے ہو اس میں عمران خان کی ضمانت کون دے گا کہ وہ طے شدہ معاملات پر اتفاق بھی کریں گے اور اس پر عمل بھی کریں گے۔ بہت سے لوگ اسی بنیاد پر اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ عمران خان پر ایک حد سے زیادہ اعتبار نہ کیا جائے کیونکہ وہ مختلف اوقات میں سیاسی یوٹرن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان کو پیغام دیا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے، مفاہمت یا ڈیل کی سیاست نہ کی تو اس کے بعد ان کو اور زیادہ سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان پر مزید سختیاں آئیں گی۔ یعنی ہم مفاہمت کا عمل بھی سیاسی حکمت عملی کے مقابلے میں طاقت کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کی اس حکمتِ عملی کے خلاف ایک سخت ردعمل ہمیں قومی سطح پر اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی ہوئی تنقید اور عمران خان کے سخت ردعمل کے طور پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان کو بھی ڈیل ہی کرنی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو ہی اس کھیل میں برتری حاصل ہونی ہے تو پھر اس سارے عمل میں سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی کہاں رہ جائے گی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں کسی بھی صورت میں ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے، اور یہ عدم ٹکرائو کی پالیسی ہی سیاسی اورمعاشی استحکام کا سبب بنے گی۔ لیکن اگر ڈیل سے ہماری مراد ایک سیاسی جماعت کو طاقتور اور ایک جماعت کو کمزور کرکے اپنے ہی ایجنڈے کی بالادستی ہے تو پھر سیاست اور جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں بچے گا اور ہمارا سیاسی اورجمہوری نظام داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر تماشا ہی بنا رہے گا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ڈیل کی سیاست کے بجائے اس بنیادی نکتے پر آنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں ریاستی اور حکومتی نظام کو ڈیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین و قانون اور سیاسی و جمہوری حکمتِ عملی کی بنیاد پر ہی آگے بڑھانا ہے۔ کیوں تمام فریق اس بات پر اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں کہ سب کو ایک مستحکم پاکستان کو ہر سطح پر یقینی بنانے کے لیے اپنے اپنے آئینی، قانونی، سیاسی اور جمہوری دائرۂ کار میں رہ کر ہی کام کرنا ہے۔ ڈیل کی سیاست کا ماحول بھی اُس وقت بنتا ہے جب ہم آئین و قانون کی حکمرانی کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنی مرضی کے نظام کو جمہوریت کے نام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو اگر واقعی آگے بڑھنا ہے تو ہمیں آئین و قانون اور عوامی مفادات پر مبنی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیل کی سیاست کو فروغ دینا ہوگا۔ ڈیل کی سیاست سے مراد اگر طاقتور افراد کے درمیان اقتدار کی باہمی جنگ ہے تو اس کھیل سے عام آدمی کے مفادات کو کیسے طاقت مل سکے گی، یا کیسے عام آدمی اس طرز کی ڈیل پر ہونے والی سیاست سے خود کو مستفید کرے گا؟ پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں پسِ پردہ اور سازشی بنیاد پر ہونے والی سودے بازی کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا اورملک کو حقیقی معنوں میں سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھانا ہوگا۔اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان پر جو چاروں طرف سے سخت تنقید ہورہی ہے یا اداروں کو ملک کے اندر اورباہر سے باتیں سننے کو مل رہی ہیں وہ خود بھی ان کے مفاد میں نہیں۔ سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی سمجھنا قومی مفاد کے برعکس ہے۔اس لیے ہمیں سیاسی دشمنی کے کھیل سے باہر نکل کر قومی سیاست میں جو بھی حقیقی مسائل ہیں ان کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے۔اگر ہم نے ایک بار پھر جوڑ توڑ کی بنیاد پر ڈیل کی سیاست کرلی تو اس سے وقتی طور پر تو کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے مگر مجموعی طور پر یہ ہماری قومی سیاست اور جمہوریت کی ناکامی ہوگی۔