نو منتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان تقریب حلف برداری

نومنتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے منصورہ لاہور میں منعقدہ پُروقار تقریب میں منصبِ امارت کا حلف اٹھا لیا۔ حلف برداری کی تقریب اپنی منفرد پہچان اور شان و شوکت کے اعتبار سے جہاں جمہوریت کی روح کی سرخیل تھی وہیں اُن تمام ملکی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیے مشعلِ راہ بھی، جو دن رات جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں لیکن جمہوریت کی الف ب سے بھی انہیں آشنائی نہیں۔

پوری قوت، جوش و جذبے، جاہ و جلال کے ساتھ تقریر کرنے والا 51 سالہ کراچی کا بیٹا بھرّائی ہوئی آواز اور نم آنکھوں سے حلف اٹھا رہا ہے۔ سابقہ امیر سراج الحق کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں۔ حافظ کی آنکھوں میں آنسو خدا خوفی اور امارت کے بوجھ کے ہیں، جب کہ سراج الحق کی آنکھوں میں آنسو نئے امیر جماعت کو استقامت اور اپنی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینے کے لیے ہیں۔

اس پُروقار تقریبِ حلف برداری میں جہاں کارکنان کا غیر معمولی رش تھا اور پنڈال تنگ دامنی کا رونا رو رہا تھا، وہیں تقریب میں سراج الحق، امیرالعظیم، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، میاں محمد اسلم، ممتاز صحافی اوریا مقبول جان، سلمان غنی، وکلاء، ڈاکٹرز، طلبہ، کسان رہنمائوں، مزدور رہنمائوں اور خواتین سمیت ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا جم غفیر موجود تھا جس نے مولانا مودودیؒ بانیِ جماعت اسلامی سے قیادت کا سفر حافظ نعیم الرحمن تک منتقل ہوتے دیکھا۔ جماعت اسلامی کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے اپنے اراکین کی رائے کو ہمیشہ مقدم رکھا اور پوری دیانت داری سے انٹرا پارٹی الیکشن مقررہ وقت پر کروائے اور قیادت کسی ایک خاندان کے پاس رکھنے کے بجائے اہل لوگوں کو منتقل کی۔ جہاں ایک عام انسان بھی قیادت کے بڑے سے بڑے منصب پر اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے فائز ہوسکتا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ ناظم اعلیٰ پاکستان بنے، امیر جماعت اسلامی کراچی بنے تو بہت شہرت ملی۔ نہ صرف جماعت اسلامی کے حلقے بلکہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ان کی قیادت اور قائدانہ صلاحیتوں کی معترف ہیں۔ آپ نے جماعت اسلامی کا گراف کراچی میں بلند کیا۔ جماعت اسلامی کو عام انسان کی جماعت بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹوں کے اعتبار سے جماعت اسلامی کراچی میں دوسرے نمبر پر رہی، جب کہ اس سے قبل جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں پہلے نمبر پر رہی تھی۔ حافظ صاحب کو نہ صرف جماعت اسلامی کے اراکین کی چاہت و محبت حاصل ہے بلکہ تحریک انصاف کا بھی بہت بڑا طبقہ انہیں پسند کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی قیادت جماعت اسلامی کو کس طرح سے چلاتی ہے تاکہ میدانِ سیاست میں جماعت اسلامی کا گراف بلند ہو۔

حافظ نعیم الرحمن کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ انہیں نوجوان قیادت کو آگے لانے کے علاوہ ایسی اصلاحات کرنی ہوں گی جن سے عام انسان جماعت اسلامی کو اپنی خیرخواہ جماعت سمجھے۔ حافظ نعیم الرحمٰن ایک اچھا بیانیہ دے کر نوجوانوں اور عام افراد کے دلوں پر دستک دے سکتے ہیں تاکہ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکے۔ سب سے زیادہ محنت پنجاب میں کرنی ہوگی کیونکہ پنجاب جاگے گا تو ملک جاگے گا۔ پنجاب میں جس کی حکومت بنتی ہے یا جس کی ہوا چلتی ہے، اُس کی ہوا وفاق میں محسوس ہوتی ہے۔ جس کی ہوا وفاق میں محسوس ہوتی ہے اس پارٹی کا وزن ہوتا ہے۔اور نہ اس کی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔

تقریبِ حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ سراج الحق سابقہ امیر نے بہترین انداز میں ذمہ داری ادا کی جس سے سب مطمئن ہیں۔ فارم 47 کے تحت جعلی مینڈیٹ لینے والوں کے خلاف جلد بڑی تحریک کا اعلان ہوگا اور ہم چین سے بیٹھنے والے نہیں۔ حافظ نعیم نے امارت کا منصب سنبھالتے ہوئے پہلی تقریر میں ہی جہاں اسٹیبلشمنٹ کو واضح پیغام دیا وہیں جعلی مینڈیٹ کا بھی متعدد بار ذکر کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اب خاموش نہیں رہا جائے گا۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ فارم 47 والے پاکستان کی قیادت کے اہل نہیں، یہ زبردستی مسلط کیے گئے ہیں، ہم ان کے خلاف جلد بڑی تحریک شروع کریں گے۔ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں آکر جعلی طریقے سے جیت جاتے ہیں جس سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی پوزیشن پر واپس جائے۔ آئین کی بالادستی ضروری ہے۔ جماعت اسلامی ملک کو بند گلی سے نکالنا چاہتی ہے۔ آئین کا تحفظ اور بالادستی ضروری ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں جو یہ سمجھتی ہیں کہ جمہوریت پر شب خون مارا گیا، انتخابات شفاف نہیں ہوئے لیکن جب اُن کو موقع ملتا ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوتی ہیں، جب یہ چھتری میسر نہ ہو تو الگ آکر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ جماعت اسلامی کسی سہارے کے ذریعے جمہوریت بحالی کی تحریک نہیں چلائے گی۔

حافظ نعیم کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کو خطے کا نہ تو پولیس مین بننے دیں گے اور نہ مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کی سودے بازی ہوگی۔ غزہ میں جو ظلم و ستم جاری ہے وہ امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کی نالائقی کی وجہ سے ہے۔ امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان ان کا بڑا ہدف ہیں۔ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے۔ کراچی میں ’بنوقابل‘ پروگرام کے ذریعے ہزاروں طلبہ کو آئی ٹی کی تعلیم دی، اب اس سلسلے کو ملک بھر میں پھیلایا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان تعلیم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہوں اور بے روز گاری کا خاتمہ ہوسکے۔ حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ خواتین کے ساتھ ظلم و جبر اور استحصال ختم ہونا چاہیے، ان کو عمدہ ٹرانسپورٹ دی جائے۔ محض نعروں اور اپنی پارٹی کی خواتین کو چند مخصوص نشستیں فراہم کرنے سے خواتین کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ خواتین آج کسمپرسی کی حالت میں ہیں اور جو خواتین دفاتر میں کام کرتی ہیں اُن کو ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ہمارا اصل کیریئر آخرت ہے۔ قرآن و سنت سے رشتہ جوڑ کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ دین انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر رب کی غلامی کی جانب لاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی بنیاد فرقہ پرستی پر نہیں۔ ہم کسی کی بھی نفی نہیں کرتے، ہماری بنیاد اقامتِ دین ہے، دین کو قائم کرنے کی جدوجہد۔ چھوٹی چیزوں میں الجھا کر لوگوں کی توجہ بڑی چیزوں سے نہ ہٹائی جائے۔ دین بہت بڑی طاقت اور قوت ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ بڑی چیزوں پر تو کمپرومائز کر لیا جائے اور اس نظام کا حصہ بن جایا جائے جب کہ چھوٹی چیزوں پر الجھا جائے! یہ درست نہیں۔ فقہی تنوع کو کسی کی نفی کیے بغیر قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کریں، ہر کسی کو ساتھ لے کر چلا جائے تاکہ معاشرے میں تفریق نہ پیدا ہو، نفرت اور تعصب کم ہو۔ جماعت اسلامی کا کارکن نفرت اور تعصب سے بیزار ہوتا ہے، اس میں معاشرے کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ خواتین کو وراثت میں ان کا حق ملے گا اور وہ حقوق ملیں گے جن کی وہ حق دار ہیں۔