بھارت انتخابات: مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تنہائی

مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور دیوار سے لگانے کی اس حکمتِ عملی کا مقصد بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ کے طور پر اُبھارنا ہے

بھارت میں عام انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے، اور اس دوران ایک بات بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ اس انتخابی منظر سے مسلمان غائب ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو مسلمان امیدوار میدان میں اُتارے ہی نہیں، دوسری جماعتوں نے بھی مسلمانوں کو ٹکٹ جاری کرنے میں بہت کنجوسی سے کام لیا ہے۔ مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور تاریخ میں ایک بار یہاں مسلمان وزیراعلیٰ بھی رہ چکا ہے اِس بار بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈیا اتحاد سمیت کسی جماعت نے مسلمان امیدوار میدان میں نہیں اُتارے۔ یوپی جیسی اہم ریاست میں انڈیا اتحاد نے 80 نشستوں میں سے صرف 6 مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے اس ریاست میں 17 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا جانا چاہیے تھا۔ اس ریاست کی 25 کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی تو مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو بھارت میں کمزور اور غیر مؤثر بنانا چاہتی ہی تھی اب کانگریس اور دوسری سیکولر جماعتوں نے بھی جمہوریت کا جشن مسلمانوں کے بغیر منانے کی حقیقت کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا راستہ اپنالیا ہے۔ مسلمان بھارت کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں، اور اس قدر بڑی تعداد کو قیادت اور متحرک کردار سے تادیر محروم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ جلد یا بدیر کروڑوں کے اس انسانی سمندر کو اپنی تہہ سے کسی موتی کو اُچھالنا ہی پڑے گا۔

مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور دیوار سے لگانے کی اس حکمتِ عملی کا مقصد بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ کے طور پر اُبھارنا ہے۔ اس سوچ کے زیراثر بھارت کے سیاسی اور ثقافتی ماحول کو ہندوتوا کے زعفرانی رنگ میں رنگا جا رہا ہے۔ بھارت کے تنوع کو ایک دیمک لگ گیا ہے جو اس ملک کا کیا حال کرے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ اسی سوچ کے تحت بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈی ڈی نیوز نے اپنے لوگو کا رنگ روبی سرخ سے زعفرانی میں تبدیل کردیا ہے جس پر حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ایسا اس دوران ہوا جب ملک کے انتہائی اہم انتخابات ہورہے ہیں۔ ڈی ڈی نیوز چلانے والی سرپرست تنظیم براڈکاسٹر پرسار بھارتی کے اس اقدام سے ملک میں کم ہوتی پریس کی آزادی کے متعلق تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ نشریاتی ادارے نے چند دن قبل باضابطہ طور پر نیا لوگو متعارف کرایا اور اس اقدام کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری اقدار وہی ہیں‘‘۔ انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’’اگرچہ ہماری اقدار وہی ہیں، لیکن اب ہم ایک نئے روپ میں دستیاب ہیں۔ پہلے سے مختلف خبروں کے سفر کے لیے تیار ہوجائیں… بالکل نئے ڈی ڈی نیوز کا تجربہ کریں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہمارے پاس رفتار کے بجائے درستی، دعووں کے بجائے حقائق، سنسنی خیزی کے بجائے سچائی پیش کرنے کی جرأت ہے، کیونکہ اگر یہ ڈی ڈی نیوز پر ہے تو سچ ہے‘‘۔ زعفرانی رنگ کے نئے لوگو پر حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اور اس کے اہم اداروں کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی کوشش ہے۔ زعفرانی رنگ کو حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جس نے اسے اپنے جماعتی رنگ کے طور پر اپنایا اور اسے پارٹی جھنڈوں، بینرز، اسکارف اور لباس میں استعمال کیا ہے۔ ہندوؤں میں بھی یہ رنگ مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ پرسار بھارتی وفاقی حکومت کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن میڈیا اداروں کو چلاتی ہے جو کہ بالترتیب آکاش وانی، آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن (ڈی ڈی) ٹی وی ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بینرجی نے کہا کہ ’’ملک بھر میں انتخابات کے دوران دوردرشن لوگو کی اچانک تبدیلی اور زعفرانی رنگ پر میں حیران ہوں‘‘۔ ممتا بینرجی نے کہا کہ ’’یہ بالکل غیر اخلاقی، سراسر غیر قانونی ہے، اور قومی عوامی نشریاتی ادارے کے بی جے پی کی طرف واضح جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا کیونکہ انتخابات جاری ہیں، اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر پہلے والا لوگو واپس لایا جائے۔ پرسار بھارتی کے سابق سی ای او جوہر سرکار نے کہا کہ وہ ڈی ڈی کے زعفرانی رنگ کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ پرسار، جو اپوزیشن ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، کے بقول ’’صرف لوگو ہی نہیں، اب پبلک براڈکاسٹر کا سب کچھ زعفرانی ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے پروگراموں اور تقریبات کو زیادہ سے زیادہ ایئر ٹائم ملتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اب شاید ہی کوئی جگہ ملتی ہے۔‘‘

ناقدین نے اس فیصلے کے وقت پر بھی سوال اٹھایا ہے، کیونکہ بھارت میں قومی انتخابات 19 اپریل کو شروع ہوئے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ترنمول کانگریس پارٹی کے ترجمان شوبھنکر بھٹا چاریہ نے کہا کہ انڈیا کے ترنگے کو بھی حکمران جماعت سے خطرہ ہے جو پورے ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنا چاہتی ہے، اور وہ زعفرانی رنگ ہے۔ انہوں نے ٹائمز ناؤ پر کہا کہ ’’اس کی کیا ضرورت تھی؟ یہ صرف لوگوں کے سامنے اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے ہے۔ وہ دکھا رہے ہیں کہ یا تو آپ جھک جائیں گے یا پھر ہم آپ کو زبردستی جھکائیں گے۔‘‘ سوشل میڈیا کے ایک انڈین صارف کا کہنا تھا کہ یہ چینل سرکاری ملکیت ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ عوامی ملکیت ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس طرح کا ’’متعصبانہ فیصلہ لینے کا حق نہیں ہونا چاہیے‘‘۔

پرسار بھارتی کے سی ای او گورو دویدی نے اس تشویش پر بات کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ نئے لوگو کا نارنجی رنگ پُرکشش ہے اور اس فیصلے کی بنیاد خالصتاً چینل کی ری برانڈنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل جی 20 سربراہ اجلاس سے قبل ہم نے ڈی ڈی انڈیا میں تبدیلیاں کیں اور اس چینل کے لیے بصری زبان کے طور پر گرافکس کا ایک سیٹ منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’روشن اور دلکش رنگ استعمال کرنے کا تعلق خالصتاً چینل کی برانڈنگ اور بصری جمالیات سے ہے، اور اگر کسی کو اس میں کچھ اور نظر آرہا ہے تو یہ بدقسمتی کی بات ہے۔

یہ صرف ایک نیا لوگو نہیں ہے، بلکہ پوری شکل اور ماحول کو اَپ گریڈ کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس ایک نیا سیٹ، نئی لائٹنگ، بیٹھنے کا انتظام اور سامان ہے۔‘‘

گزشتہ سال انڈیا کے سرکاری نشریاتی ادارے نے حکمراں دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نظریاتی سرپرست تنظیم کی حمایت یافتہ نیوز ایجنسی ہندوستان سماچار کے ساتھ ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ہندوستان سماچار کو مبینہ طور پر حکمراں بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت حاصل ہے۔گزشتہ سال مئی میں جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق انڈیا کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے 150 ہو گئی ہے، جو پچھلے سال 142 پر تھی۔