توحید

اسلام کا تصور یہ ہے کہ ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یا مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کیا ہے؟ یہ فطرت توحید کے سوا کچھ نہیں

توحید انسانی تاریخ کا اہم ترین تصور ہے۔ لیکن توحید تصور نہیں، توحید عقیدہ ہے۔ لیکن توحید عقیدہ بھی نہیں ہے، توحید دراصل کائنات کی آخری اور واحد حقیقت ہے۔ تصور، عقیدہ اور حقیقت بظاہر تین لفظ ہیں، لیکن یہ لفظ نہیں ہیں بلکہ انسان کے تین درجے اور تین مرتبے ہیں۔ وہ لوگ جن کا ایمان کلمے سے آگے نہیں بڑھتا، یا ذرا ہی آگے بڑھتا ہے، اُن کے لیے توحید تصور ہے جو کہیں مؤثر ہوجاتا ہے اور کہیں بالکل مؤثر نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایمان کے سفر میں پیش قدمی کر جاتے ہیں اور ایمان اُن کے اعضا اور جوارح میں پھیلنے لگتا ہے، اُن کے لیے توحید عقیدہ بن جاتی ہے۔ لیکن یہ منزل بہرحال تصور اور حقیقت کے درمیان کی منزل ہے۔ انسانیت کا بلند ترین مرتبہ یہ ہے کہ توحید انسان کے لیے کائنات کی اوّل و آخر اور واحد حقیقت بن جائے۔ ایسی حقیقت جو ہر چیز پر محیط ہو۔

مذاہبِ عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ توحید کا تصور ہر مذہب کی اساس رہا ہے، اور یہ بالکل فطری بات ہے۔ مذہب کی اساس توحید پر نہیں ہوگی تو پھر کس پر ہوگی؟ کیوں کہ وہی ایک واحد ہستی ہے جس نے پیغمبروں اور رسولوں کو مبعوث کیا اور ان کے لیے ایک ہی دین یعنی دینِ حنیف کو پسند فرمایا۔ لیکن عام خیال یہ ہے کہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں توحید کا تصور باقی نہیں رہا۔ کیا یہ بات درست ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔

توحید کے حوالے سے اہم ترین مثال ہندو ازم کی پیش کی جاتی ہے، اور یہ مثال برصغیر کے تناظر میں زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ ہندو ازم کے بارے میں معروف خیال یہ ہے کہ اس میں ایک خدا کے بجائے ہزاروں خدائوں کا تصور موجود ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بعض حیوانات اور بعض درختوں تک کو دیوتا کا درجہ دے دیا ہے۔ یہ خیال غلط نہیں۔ مقبولِ عام ہندوازم کی صورتِ حال یہی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوازم میں ایک خدا کا تصور نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ بہت نمایاں بھی ہے۔ ہندوئوں کی بنیادی مقدس کتابوں میں بنیادی عقیدہ یہ بیان ہوا ہے کہ یہ کائنات صرف ایک ہستی ’’برہما‘‘ نے خلق کی۔ وہی اس کا مالک ہے اور اس کے نور سے یہ زمین و آسمان روشن ہیں۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوئوں میں شرک کا مرض کہاں سے در آیا اور ہزاروں خدا کہاں سے ظاہر ہوگئے اور انہوں نے حیوانات، یہاں تک کہ بعض درختوں تک کو کیوں تقدیس سے ہم کنار کردیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے لیکن اس پر ہم ذرا آگے چل کر غور کریں گے۔

عیسائیت کا بنیادی تصور تثلیث کا تصور ہے۔ خدا، اس کا بیٹا اور روح القدس، یعنی تین میں ایک اور ایک میں تین۔ یہ عیسائیت کا معروف و مقبول تصور ہے اور اس تصور میں توحید تلاش نہیں کی جاسکتی۔ تاہم عیسائیت کی تاریخ کے جو ابتدائی حوالے دستیاب ہوئے ہیں، اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا تصور بہت بعد کی چیز ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی توحید کا وہی تصور موجود تھا جو اسلام میں ملتا ہے۔ مسلمان، جو عرب سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے تو انہیں دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ عیسائیت اور اس کے تصورِ تثلیث سے بھی واسطہ پڑا، اور اسی واسطے کی وجہ سے مسلمانوں میں علمِ کلام کی بنیاد پڑی۔ بہرحال مسلمانوں نے تثلیث کے تصور کا جو جواب دیا اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اگر بن باپ کے پیدا ہوئے تو اس میں اس ’’اسرار‘‘ اور اس توجیہ کی کوئی گنجائش نہیں جو عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی ذات اور ان کی پیدائش کے حوالے سے وضع کرلی ہے، کیوں کہ حضرت آدمؑ تو بغیر ماں اور بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور اماں حوّا حضرت آدمؑ کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئیں۔ اس اعتبار سے حضرت آدمؑ اور اماں حوّا کی پیدائش میں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے کہیں زیادہ ’’اسرار‘‘ موجود ہے۔ مسلمان علما اور متکلمین کا یہ جواب نہ صرف دین کی منطق کے اعتبار سے بالکل درست ہے بلکہ عقل کی توجیہ بھی یہی ہوسکتی ہے۔ یہ منطق اور یہ توجیہ بھی اس امر کی تصدیق اور توثیق کرتی ہے کہ عیسائیت میں بھی یقینا توحید کا وہی تصور موجود رہا ہوگا جو کہ اصلی تصور ہے۔

توحید کے تصور کے حوالے سے اسلام اور یہودیت ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور حیرت انگیز طور پر یہودیت کی تاریخ میں توحید کا تصور اس طرح مسخ نہیں ہوا جس طرح کہ ہندوازم اور عیسائیت کی تاریخ میں ہوگیا۔ تاہم یہودیت کا تصورِ توحید اسلام کے تصورِ توحید کی طرح کمال کو پہنچا ہوا نہیں ہے، کیسے؟ اس کی وضاحت آگے آتی ہے۔

چینی مذہب میں کنفیوشس ازم کو شریعت اور تائوازم کو طریقت کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے، اور ان دونوں میں توحید کا تصور موجود ہے۔ چینی زبان میں تائو (Tao) کا مطلب ہی ازلی و ابدی اصول یعنی Ultimate Reality ہے۔ حالیہ برسوں میں اسلام اور تائوازم کے اساسی تصورات کے کئی اہم تجزیہ آمیز موازنے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کو اسلامی طریقت کے اہم ترین نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے ان کی تعلیمات سے وسیع پیمانے پر استفادہ کیا گیا ہے، اور ان تحریروں اور موازنوں سے ثابت کیا گیا ہے کہ تائوازم کی تعلیمات اور تصورات، شیخ اکبر کے فہمِ دین کے بے حد قریب ہیں۔

بدھ ازم کے بارے میں یہ رائے عام رہی ہے کہ اس میں خدا کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہ رائے عام افراد کی رائے نہیں بلکہ بدھ ازم کے بڑے بڑے ماہرین نے بھی یہی کہا ہے۔ اس رائے کی اساس وہ لٹریچر ہے جو گوتم بدھ کی تعلیمات اور اُن کی زندگی کے حوالے سے فراہم ہوا ہے۔ اس لٹریچر کے مطابق گوتم بدھ نے خدا کے بارے میں سکوت کیا۔ سکوت کا مطلب یہ ہے کہ اُن سے جب کسی نے خدا کے بارے میں سوال کیا تو وہ یا تو خاموش رہے یا مسکرا دیے، یا سوال پوچھنے والے سے کہا کہ تم دوسرے امور یا تعلیمات پر توجہ دو۔ اس حوالے سے اس رائے کا وجود میں آجانا قرین قیاس ہے کہ بدھ ازم میں خدا کا کوئی تصور موجود نہیں، اور جب خدا ہی کا کوئی تصور موجود نہیں تو پھر توحید کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم بدھ ازم کے حوالے سے حالیہ زمانے میں جو شواہد ملے ہیں یا ان کی بعض تعلیمات اور تصورات کی جو تعبیر ہوئی ہے، اُس کے حوالے سے بدھ ازم کے بعض بڑے بڑے ماہرین کا اصرار ہے کہ بدھ ازم میں خدا کا تصور نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ یہ تصور ایک خدا کا تصور ہے۔ ان ماہرین نے اس حوالے سے گوتم بدھ کے شونیے (Shunny) کے تصور کو پیش کیا ہے۔ شونیے سنسکرت کا لفظ اور ہندوازم کا ایک اہم تصور ہے جس کا لفظی ترجمہ صفر یا Zero ہے، تاہم ہندوازم میں یہ تصور حقیقتِ نہائی کا مفہوم رکھتا ہے اور مذکورہ ماہرین کا دعویٰ اور اصرار ہے کہ بدھ ازم میں بھی اس کا مفہوم یہی ہے، بلکہ بدھ ازم میں یہ مفہوم مزید وسیع ہوگیا ہے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے یہ کہنا تو سراسر غلط ہوگا کہ اسلام نے کوئی نیا تصورِ توحید پیش کیا۔ کیونکہ اسلام کوئی نیا دین نہیں، بلکہ یہ وہی دین ہے جس کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا، لیکن چونکہ اسلام پر آکر اس دین کا دائرہ مکمل ہوگیا جس کی ابتدا حضرت آدمؑ سے ہوئی تھی، اس لیے توحید سمیت دین کی تمام بنیادی اور اہم تعلیمات اور تصورات کو اسلام میں ’’کاملیت‘‘ حاصل ہونی ہی تھی۔ یہ کاملیت اس لیے بھی ناگزیر تھی کہ اسلام کے بعد کوئی دین، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، اس لیے اسلام کو ماضی کے تمام تصورات اور مستقبل کے تمام امکانات کو اپنے اندر سمیٹنا تھا، چنانچہ ان دونوں حوالوں سے اسلام پر دینِِ حنیف کی تکمیل ہوئی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت اور عبدیت کی تکمیل ہوئی اور اسلام کے تصورِ توحید کی صورت میں توحید کا تصور منتہائے کمال کو پہنچا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلام کا تصورِ توحید کیا ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔

اسلام کا تصورِ توحید سورۂ اخلاص میں بیان ہوگیا ہے۔ یعنی اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا، اور کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ لیکن علما اور مفسرین نے واحد اور احد کے فرق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مقامِ وحدت یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، ایسا ایک جو دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں۔ لیکن مقامِ احدیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک کے تصور سے بھی ماورا ہے۔ ایک کے تصور ہی سے نہیں، انسان کے خیال اور گمان سے بھی ماورا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقام کو بیان کرنے کے لیے نفی در نفی کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی آپ نے اللہ کا جو تصور قائم کیا، اس کی نفی کردی جائے اور یقین کرلیا جائے کہ اللہ یقینا یہ نہیں ہے۔ یہاں سے تشبیہ اور تنزیہہ کے تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ تشبیہ کیا ہے؟ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اور تشبیہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اس کے صفاتی ناموں سے پہچانتے ہیں۔ وہ رحیم ہے، کریم ہے، غفور ہے، علیم ہے، خبیر ہے، جبار ہے، قہار ہے۔ اور تنزیہہ کیا ہے؟ یہ کہ وہ ذات ایک ہے اور ہر تعین سے ماورا ہے۔ توحید کا یہی وہ تصور ہے جو اسلام کے حوالے سے کمال کو پہنچا۔

اس کا مفہوم یہ نہیں کہ دوسرے مذاہب میں یہ تصورِ توحید موجود نہیں، لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ہر مذہب میں ایک خاص عرصے کے بعد یا تو تشبیہ کا غلبہ ہوا، یا تنزیہہ غالب آگئی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوازم اور یہودیت ایک تقابلی صورتِ حال پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے اپنے کالم کی ابتدا میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہندوئوں میں شرک کا مرض کہاں سے آگیا اور ہندوئوں کے یہاں ہزاروں خدائوں کی پوجا کیوں ہونے لگی؟ اس سوال کا ایک جواب یقینا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوازم کی اصل تعلیمات مسخ ہونے لگیں، یہاں تک کہ وہ صورت پیدا ہوگئی ہے جسے ہم ہزاروں سال سے ہندوازم میں موجود پاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہندو ازم کی تعلیمات مسخ کیوں ہوگئیں اور کیونکر ایسا ہوا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ تشبیہ کے تصور کے غلبے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ بے شک یہ پوری کائنات ہی اللہ کی ایک ’’نشانی‘‘ ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ محض نشانی ہی ہے۔ اس طرح تاریخ کے سفر میں جو عظیم المرتبت انسان پیدا ہوئے وہ اللہ کے بندے ہی تھے، نعوذ باللہ بجائے خود خدا نہ تھے۔ لیکن ہندوئوں نے اللہ کی نشانیوں اور اللہ کے بندوں کو اُن کے اصل مرتبے سے بلند کرکے خالق کے مرتبے پر فائز کردیا جس سے توحید کے تصور پر زک پڑی اور ہندوازم میں شرک کا سیلاب در آیا۔ یہودیت کا معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے، جہاں تنزیہہ کا غلبہ ہوگیا۔ اگر بدھ ازم کے حوالے سے شونیے کے تصور کو درست مان لیا جائے تو بدھ ازم کا معاملہ بھی یہودیت کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اسلام دونوں تصورات کو جگہ جگہ بیان کرتے ہوئے ان کے مابین ایک ایسا توازن پیدا کرتا ہے جو بے مثال ہے لیکن مذاہبِِ عالم میں اسلام کی حیثیت کے عین مطابق ہے۔

اسلام کے تصورِ توحید کے حوالے سے دیکھا جائے تو توحید کا تصور نہ صرف انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر گوشے میں کارفرما نظر آتا ہے بلکہ وہ کائنات اور اس کے مظاہر میں بھی پوری طرح مضمر ہے اور اسلام کی تمام عبادات میں بھی جاری و ساری ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یا مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کیا ہے؟ یہ فطرت توحید کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ تصور کا ایک حصہ یہ ہے کہ بچہ تو اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والین یا باَلفاظِ دیگر اس کا ماحول اسے کچھ اور بنا دیتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ ایک ہم آہنگ کُل ہوتا ہے۔ ایسا کُل جس میں روح، نفس اور جسم میں کوئی جھگڑا نہیں ہوتا، کوئی دوئی نہیں ہوتی، اس کے اندر نفس اور جسم روح کی کامل مطابقت میں کام کررہے ہوتے ہیں، لیکن ماحول اس ہم آہنگی کو توڑتا ہے اور اس اعتبار سے بچے کو توحید کی راہ سے ہٹاکر شرک کی راستے پر دھکیلتا ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو، وہ کرتے کیوں نہیں؟ یہ کوئی اخلاقی تعلیم نہیں ہے۔ کہنے اور کرنے میں جو فرق ہوتا ہے، اس سے نفاق پیدا ہوتا ہے جو ایک اعتبار سے شرکت کی علامت ہے۔ دوسری جانب قول و فعل کی یکجائی تصورِ توحید کی علامت ہے۔

اسلامی عبادات کو دیکھیے۔ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام اجتماعیت پر بہت زور دیتا ہے، درست۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں تو بندے اور بندہ نواز کا فرق مٹ جاتا ہے جو اسلام کا مطلوب ہے، بجا۔ ایک توجیہ یہ ہے کہ اسلام اجتماعیت پر زور دیتا ہے اور مسجد میں ایک ساتھ نماز پڑھنے سے مسلمانوں میں ایک امت ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے، یہ بھی درست۔ ایک خیال یہ ہے کہ ایک ساتھ نماز پڑھنے سے مسلمان ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہوجاتے ہیں جس سے ایک دوسرے کے مسائل میں حصے دار بنتے ہیں اور اس سے غم گساری کی راہ ہموار ہوتی ہے، درست۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نماز باجماعت کا تصورِ توحید سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نماز خدا اور بندے کی ملاقات ہے، لیکن ذرا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کی پوزیشن پر غور کیجیے۔ کیا اس پوزیشن میں امام اصولِ توحید کی علامت نظر نہیں آتا؟ اور کیا امام اور مقتدیوں کی Formation سے وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا خوب صورت منظر نہیں ابھرتا؟ حج کی عبادت کو دیکھیے تو اس میں کعبہ حاجیوں کے طواف کے درمیان توحید کی علامت نظر آتا ہے، روزوں کو دیکھیے تو روزوں کا اصل مقصود یعنی تقویٰ بھی توحید کی علامت دکھائی دیتا ہے۔

اسلام میں خاندان اور ان کے تصور پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس تصور اور اس پر دیے گئے زور کی بھی بہت سی تشریحات اور تعبیریں ہوئی ہیں، اور یہ سب تشریحات اور تعبیریں درست ہوں گی، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ معاشرے کی وسیع کائنات میں خاندان وحدت اور اصولِ واحد ہی کی علامت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب خاندان بکھرتا ہے تو اس سے معاشرے میں انتشار کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ہر قابلِ قدر چیز کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کی یکجائی اس طرح معاشرے کو منضبط اور بامعنی رکھتی ہے جس طرح اصولِ توحید اس پوری کائنات اور زندگی کو منضبط اور بامعنی رکھتا ہے۔ کائنات کی بات ہورہی ہے تو یہ دیکھ لینے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں سورج کی پوزیشن اور علامت کیا ہے؟ کیا سورج بھی سیاروں کے درمیان اصولِ واحد کی علامت نہیں؟ اور کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے کہ ہم تمہیں کائنات اور خود تمہارے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ اسلام کا تصور فرد سے شروع ہوکر خاندان سے ہوتا ہوا امت اور انسانیت کے تصور تک جاتا ہے۔ اسلام امت کو ایک جسم بتاتا ہے اور انسانیت کے بارے میں اس کا کہنا یہ ہے کہ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو۔ یہ بھی وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت ہی کی صورتِ حال ہے۔ یہاں تک کہ انسانی زبانوں کو دیکھا جائے تو بھی یہی اصول ابھر کر سامنے آتا ہے۔ دنیا کی ہزاروں زبانیں تصورات اور الفاظ کے اعتبار سے مماثل ہیں ہی‘ لیکن زبانوں کی اصوات کی یکجائی تو صاف صاف اصولِ توحید ہی کی ترجمان ہے۔

ہمارے یہاں روایتی فارسی اور اردو غزل پر ایک بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس میں ’’محبوب‘‘ کی نہایت مبالغہ آمیز تعریف ہوتی ہے۔ یہ اعتراض غلط نہیں، مگر یہ اعتراض نام نہاد حقیقت پسندی کے مرض اور کم فہمی کے شاہکار کا بھی درجہ رکھتا ہے، کیوں کہ اعتراض کرنے والوں نے یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ غزل کی شاعری میں محبوب کا تصور بیک وقت مجاز اور حقیقت کی سطحوں کو سمیٹتا ہے، چنانچہ حقیقت کی رعایت سے مجاز کی مبالغہ آمیز تعریف بھی مبالغہ آمیز نہیں ہوسکتی۔ انہیں یہ تصور تک معلوم نہیں کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اللہ کی کوئی تعریف ہرگز ہرگز مبالغہ آمیز نہیں ہوسکتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں بھی توحید کا اصول پوری طرح کارفرما دکھائی دیتا ہے۔

ہم نے کالم کی ابتدا میں کہا تھا کہ توحید ایک تصور، ایک عقیدہ اور ایک حقیقت ہے، اور پھر اس کی کچھ تشریح بھی کی تھی۔ تاہم اس تشریح کو ٹھوس معنوں میں بیان کیا جائے تو کہا جائے گا کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد کے لیے توحید ایک تصور ہے۔ عالموں کے لیے ایک عقیدہ ہے اور عارفوں کے لیے ایک حقیقت۔ یہاں دیگر مذاہب اور اسلام کے حوالے سے توحید کے تصور پر ہماری بات مکمل ہوجاتی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقیقتِ توحید کا تعلق دین و مذہب کے ساتھ ہے؟ اور کیا ہم اس کو مذہبی تصور سے ہٹ کر زندگی میں تلاش نہیں کرسکتے؟ یہ بجائے خود ایک اہم سوال ہے۔ آیئے اس سوال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسان نے خدا کا انکار کیا ہے اور مذہب کو مسترد کیا ہے لیکن وہ اپنے ذہن، اپنے وجود اور کائنات میں مضمر ڈیزائن اور اس کے اصل اصول کو مسترد نہیں کرسکتا جو ہر چیز کی بنیاد ہے۔ انسان الفاظ، اصطلاحوں اور تصورات کے چکر میں پڑتا ہے لیکن کچھ حقائق ایسے ہیں جو الفاظ، اصطلاحوں اور تصورات سے ماورا ہیں۔ یہ حقائق اظہار میں آتے ہیں اور آتے رہیں گے، یہ اور بات ہے کہ انسان انہیں کسی اور نام سے پکارتا ہے۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے خدا اور توحید کا انکار کیا، ان سے انحراف کیا، لیکن اس انکار اور انحراف کے باوجود کہیں اور نہیں جاسکا۔ اس کی زندگی اور اس کی ذہنی و فکری کاوشیں گواہی دیتی رہی ہیں کہ وہ کہیں بھی نہیں جاسکا۔ البتہ اسے یہ گمان ضرور گزرا کہ وہ کہیں چلا گیا۔ بے شک انسان اپنی محدودات کو نہیں پھلانگ سکتا۔

فلسفے کی تاریخ تھیلز سے شروع ہوتی ہے، اور تھیلز کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی اصل پانی ہے۔ تھیلز کے اس خیال کی فلسفے کی تاریخ میں اس اعتبار سے پذیرائی ہوئی ہے کہ وہ پہلا آدمی ہے جس نے فلسفیانہ فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر چیز کی توجیہ ایک اصول یا ’’اصولِ واحد‘‘ سے کرنے کی کوشش کی۔ تھیلز کے بعد کئی اور لوگ ہوئے، کسی نے کہا کہ ہر شے کی بنا آگ ہے، کسی نہ کہا ہوا ہے۔ پانی، آگ، ہوا کی توجیہات میں خدا کا نام کہیں نہیں آتا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ پوری کائنات کی توجیہ ’’اصولِ واحد‘‘ سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسفے کے میدان میں یہ کوشش ہمیشہ جاری رہی ہے۔ خدا کا انکار کرنے اور مذہب کو مسترد کرنے والے فلسفیوں کا خواب بھی یہ رہا ہے کہ وہ ایک خود مکتفی نظام وضع کرلیں، ایسا نظام جس کی توجیہ ایک اصول سے ہوسکے۔ ایک اصول کی فراہمی اس لیے اہم رہی ہے کہ اس کی وجہ سے نظام کے داخلی اور خارجی تضادات (Contradictions) کے کم ہونے یا بالکل نہ ہونے کا مکان بڑھ جاتا ہے۔ مذہب میں ایک خدا یا توحید کی پوزیشن بھی یہی ہے۔

مغربی فلسفے میں ہیگل کا نظام بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے، اور ہیگل کی فکر نے فلسفے کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہیگل کے فلسفے، فکر اور نظام میں خدا کے در آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکنSachiko Murata اور William C.Chittik نے اپنی تصنیف The Vision of Islam میں لکھا ہے کہ ہیگل کے فلسفۂ تاریخ میں ساری خدائی (Divinity) در آئی ہے۔ کارل مارکس کا کہنا ہے کہ ہیگل کا فلسفہ سر کے بل کھڑا تھا، میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا، اور کارل مارکس مذہب اور خدا کے سخت خلاف تھا۔ لیکن مارکسزم کو ’’مذہب‘‘ کہا گیا ہے اور بالکل درست کہا گیا ہے، کیوں کہ اس کے سارے اساسی تصورات مذہب کے کسی نہ کسی تصور کے مماثل ہیں۔ مذہب میں خدا اور اس کے حوالے سے تقدیر کا تصور موجود ہے، اور مارکس ان تصورات کو جبر قرار دیتا ہے، لیکن خود مارکس کا تصورِ تاریخ یہی ہے۔ مارکس کے یہاں تاریخ کی کروٹوں کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا۔ اقبال نے مارکس کونیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتابکہا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ مارکس کی Das Capital کو تقریباً ایک مقدس کتاب کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس میں گویا قوموں کی تقدیر کے راز آشکار ہوگئے تھے۔

سائنس کا معاملہ بھی فلسفے سے مختلف نہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے مگر خدا اور توحید کو تو وہ بھی مانتے تھے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کے جس کام پر انہیں نوبیل انعام دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے کائنات میں کارفرما چار قوتوں کو دو قوتوں میں محدود کرنے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کام کا آغاز توحید کے اصول پر کیا ہے۔ موصوف کا خیال تھا کہ وہ اپنے نظریے کو آگے بڑھائیں گے اور کسی دن ثابت کردیں گے کہ کائنات میں کارفرما اصل قوتیں چار نہیں بکہ ایک ہی ہے۔ عبدالسلام کا پس منظر مذہبی تھا لیکن وہ بہرحال سائنس کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کررہے تھے، اور ان کے نظریے پر سائنسی اصولوں، نظریات اور طریقہ کار ہی کا اطلاق ہوگا۔ یعنی فرض کیجیے عبدالسلام کی جگہ کوئی لامذہب ہوتا تو وہ کیا کہتا؟ وہ کہتا کہ کائنات کی اصل اور اسے چلانے والی قوتیں چار نہیں، دو ہیں، اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ بالآخر ثابت ہوجائے کہ اصل قوتیں دو نہیں، صرف ایک ہے۔

جدید نفسیات کی بنیادیں بھی خدا کے انکار اور مذہب کے استرداد پر استوار ہیں، اور یہ نفسیات انسان کو جبلت سے آگے ذرا مشکل ہی سے پہچانتی ہے، لیکن اس نفسیات کا کہنا بھی یہی ہے کہ انسانی نفسیات کو کسی ایک اصول کا تابع ہونا چاہیے، کیوں کہ ایسا نہیں ہوگا تو پھر انسان میں نیوروسس کی کیفیات پیدا ہوں گی۔

جینیات یعنی Genetics کی بات کی جائے تو وہاں بھی یہی کوشش ہورہی ہے کہ جسمانی ساخت کا اصل اصول دریافت کرلیا جائے، اور ماہرینِ جینیات کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کی صورت میں انہوں نے یہ اصول دریافت کرلیا ہے، لیکن تحقیقات جاری ہیں۔ نئے نظریات اور نئے تصورات ابھر رہے ہیں، لیکن ہدف یہی ہے کہ اصلِ اصول دریافت کیا جائے۔

مغرب میں ادب اور آرٹ مذہب سے کب کے بے نیاز ہوچکے ہیں، لیکن ادب اور آرٹ کا یہ ازلی و ادبی مسئلہ ہے کہ ان میں نظم و ہم آہنگی ہو اور ادب پارے یا فن پارے سے ’’کلیّت‘‘ کا تصور ابھرے اور یہ معلوم ہو کہ ادب پارہ یا فن پارہ ’’ایک اکائی‘‘ ہے۔ ادب اور آرٹ ان تصورات سے کبھی بھی جان نہیں چھڑا سکتے۔ وہ خدا کا انکار کریں گے، مذہب کو مسترد کریں گے لیکن دوسرے الفاظ میں، دوسرے انداز میں کسی نہ کسی سطح پر کسی نہ کسی عنوان سے بیان انہی کو کریں گے۔

چلیے، انسان ہر چیز بدل سکتا ہے، مسخ کرسکتا ہے مگر اپنے جسمانی وجود کا کیا کرے جو بجائے خود وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا ثبوت ہے۔ یہاں ہم انسانی وجود سے روح کو الگ کرکے بات کررہے ہیں۔ اس تعدد کے دائرے میں روح دراصل امرِ ربی نہیں بلکہ وہ ایک نامعلوم توانائی ہے، لیکن خود انسانی جسم کیا ہے اور اس کی ساخت ایسی کیوں ہے؟ اور جیسی ہے اس سے کیا کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے؟ کیا انسان ہاتھ، پائوں اور چند دیگر اعضا کا مجموعہ ہے؟ کیا ہم ان اعضا کو الگ الگ کرکے یا الگ الگ دیکھتے ہوئے انسان کا کوئی تصور قائم کرسکتے ہیں؟

ذرا انسان کے اقتدار اور اختیار کی صورتِ حال کو دیکھ لیجیے۔ انسان اپنے معاملات ایک خدا کے سپرد کرنے پر تیار نہیں۔ لیکن اقتدار و اختیار کا تصور بہرحال ایک انسان پر جا کر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ انسان کہیں صدر ہے اور کہیں وزیراعظم… کہیں کسی ادارے کا چیئرمین ہے اور کہیں منیجنگ ڈائریکٹر۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ انسانی ذہن اس کے سوا کیوں نہیں سوچ پاتا؟ وہ اختیار اور اقتدار کو حتمی طور پر کسی ایک شخص کے حوالے کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ اس کے ڈیزائن میں مضمر رجحان نہیں ہے؟

مذہب میں انسان کے امکانات کا سوال خدا اور اس کی مقرر کی ہوئی انسانی تقدیر کے سپرد ہے، اور مذاہب کی تاریخ میں یہ بحثیں بہت ہوئی ہیں کہ تقدیر اور تدبیر کا رشتہ کیا ہے؟ یہ سوال جدید علوم میں بھی زیر بحث ہے، بس عنوان بدل گیا ہے۔ نفسیات اور عمرانیات وغیرہ کا سوال یہ ہے کہ انسانی شخصیت اور اس کی تقدیر کے تعین میں فطرت کا دخل زیادہ ہے یا انسان کے خارجی ماحول کا؟ دیکھیے اصطلاحیں بدل گئی ہیں، لیکن سوال وہی ہے۔ اور سوال مختلف ہو بھی نہیں سکتا۔ انسان ہر چیز کو مسترد کرسکتا ہے لیکن خود اپنے وجود اور کائنات میں مضمر ڈیزائن کو نہیں، کیوں کہ یہ ڈیزائن انسان نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، اُس ہستی نے جس کا انسان اپنی جہالت کی وجہ سے انکار کرتا ہے لیکن فی الاصل جس کا انکار ممکن ہی نہیں۔