فلسطین: سفاکی کے دوسو دن

اسرائیلی معیشت اور اسرائیلیوں کی صحت نازک ہورہی ہے تادیبی پابندیوں اور نیتن یاہو کے پروانۂ گرفتاری کا امکان

منگل 23 اپریل کو غزہ قتلِ عام کے 200 دن پورے ہوگئے۔ صرف غزہ ہی نہیں غربِ اردن بھی کربلا بنا ہوا ہے۔ ڈرون حملوں اور بمباری کے ساتھ فوج کی سرپرستی میں قبضہ گردوں (Settlers) کی فائرنگ سے 500 نوجوان لقمۂ اجل بنے، اَن گنت زخمی ہیں اور ہزاروں افراد عقوبت کدوں میں ٹھنسے ہیں۔ نابلوس، الخلیل، تلکُرم، اریحہ، قلقیلیہ، جنین، رام اللہ، مشرقی بیت المقدس… ہر جگہ ماتم کا سماں ہے، یعنی ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ تیس لاکھ انسانوں کے لیے ایک دہکتی بھٹی ہے۔ قتلِ عام، مکانوں اور دکانوں کی تباہی کے ساتھ زراعت ان وحشیوں کا خاص نشانہ ہے۔ یہاں کا ایک دیہی علاقہ قراوۃ بنی حسان اپنی سرسبزی اور پھلوں کے باغات کے لیے سارے فلسطین میں مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیتوں کے کچھ باغ ایسے ہیں جن کی کاشت حضرت یوسف ؑ کے بڑے بھائی یہودا نے شروع کی تھی۔ 7 اکتوبر کے بعد سے یہاں نئی فصل لگانے کی اجازت نہیں۔ گزشتہ ہفتے قبضہ گرد قراوۃ بنی حسان پر چڑھ دوڑے۔ زیتون اور بادام کے باغ روند دیے گئے، نئے پودوں اور کونپلوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔

ہفتہِ رفتہ کے دوران غزہ میں قتلِ عام جاری رہا اور بمباری سے ہونے والے جانی نقصان کا تخمینہ 34 افراد یومیہ ہے۔ اتوار کو خان یونس کے نصر اسپتال میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا۔ اسرائیلی فوج نے اسپتال خالی کرنے سے پہلے 18 بچوں سمیت 180 افراد کو گولی مار کر دفن کردیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کچھ جاں بلب زخمی زندہ دفن کردیے گئے تھے۔

تاہم اپنی غاصبانہ ولادت کے بعد سے پہلی بار اسرائیل شرمندہ اور مدافعت پر مجبور نظرآرہا ہے۔ اس کا آغاز 14 اپریل کی صبح ایرانی ڈرون اور میزائیل حملے سے ہوا۔ ایران نے ڈرون داغتے ہی اعلان کیا اور اسرائیل کو اپنے دفاع کے لیے 4 گھنٹے مل گئے۔ امریکہ، برطانیہ اور اردنی فضائیہ کی بھرپور مدد کے باوجود ایران کے کم ازکم تین میزائیل دفاعی نظام روندتے ہوئے اسرائیل کے سب سے بڑے اڈے نووییم (Nevatim) تک پہنچے جہاں جدید ترین F-35کے اسکواڈرن تعینات ہیں۔ میزائیل سے ایک C-130 مال بردار طیارہ تباہ ہوا، رن وے پر گڑھے پڑگئے اور بیرونی عمارت کی دیوار گرپڑی۔ قریب ہی ایک اور اڈہ رامون بھی نشانہ بنا۔

اس حملے پر اسرائیلی قیادت کا اشتعال دیکھنے کے قابل تھا۔ منہ سے جھاگ اڑاتے نیتن یاہو نے کہا کہ ہمارا جواب ایرانیوں کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ غرور کا یہ عالم کہ جب برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اپنی جرمن ہم منصب کے ساتھ اُن کا غصہ ٹھنڈا کرنے بنفسِ نفیس تل ابیب آئے تو بی بی جی نے صاف کہہ دیا کہ ’’احباب کا مشورہ سرآنکھوں پر، لیکن ہم انتقام تو لیں گے‘‘۔ بی بی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو امریکی یہاں تک کہہ گئے کہ ایران پر حملے کے بجائے شوقِ ستم رفح پر پورا کرلیجیے۔

شوروہنگامے کے بعد 19 اپریل کا حملہ اس شان سے کیا گیاکہ خود ان کے وزیر اندرونی سلامتی اتامر بن گوئر نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک لفظی ٹویٹ میں بی بی کو’’خوف زدہ کوّا‘‘ کہہ دیا۔ عبرانی اور انگریزی پر دسترس رکھنے والے لسانی ماہرین نے اس عبرانی لفظ کا انگریزی مترادف اپاہج یا Lame قراردیا ہے۔ مزے کی بات کہ اب تک اسرائیل نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اصفہان اور تبریزکو نشانہ بنایا گیا۔ اصفہان میں ایران کی جوہری تنصیبات ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے تاثر دیا کہ گویا ایران کا جوہری اڈہ تہس نہس کردیا ہے، لیکن عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے اعلان کردیا کہ ایران کے جوہری اثاثوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اسی کے ساتھ امریکہ کے سیارچوں (Satellites) نے اصفہان و تبریز کی صاف و شفاف تصاویر جاری کرکے اسرائیلی غبارے کو سوئی چبھو دی۔ تصاویر کا تجزیہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں گرائے جانے والے ڈرونوں کا ملبہ صاف نظر آرہا ہے جس سے ایرانیوں کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ چاروں حملہ آور ڈرون اصفہان کی شہری حدود سے باہر ہی گرا لیے گئے۔ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی حکام نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ایک فوجی مشق تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اہلِ غزہ جس آزمائش سے گزر رہے ہیں وہ اپنی جگہ، لیکن اب ان کے قائدین پر زمین تنگ ہوتی نظر آرہی ہے۔ جنگ بندی کے بارے میں مستضعفین کے بے لچک رویّے سے جہاں اسرائیل اور امریکہ بہت پریشان ہیں وہیں مصر کے جنرل السیسی اور قطر کے امیر کا پیمانہِ صبر بھی لبریز ہونے کو ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق قائدین کو اشارے مل رہے ہیں کہ امیرِ ذی وقار امریکہ کی جانب سے سخت دبائو میں ہیں۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عارضی جنگ بندی پر رضامند ہوکر اہلِ غزہ قیدیوں کو رہا کردیں۔ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ قائدینِِ غزہ کے بے لچک رویّے کی وجہ سے غزہ کے شہری عذاب کا شکار ہیں۔ مستضعفین اس کے لیے تیار نہیں، ان کا کہنا ہے کہ 35ہزار فلسطینیوں کی قربانیوں کو وہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ قطری حکام نے مبینہ طور پر قائدینِ غزہ کو پیغام بھجوا دیا ہے کہ اگر ہماری بات نہیں ماننی تو پھر کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈ لو۔ اتوار 21 اپریل کو مستضعفین کا اعلیٰ اختیاراتی وفد ترکیہ پہنچا جہاں مبینہ طور پر صدر اردوان سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا گیا۔ شنید ہے کہ عُمان نے بھی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

دوسری جانب امریکی خبر رساں ویب سائٹ Axious نے انکشاف کیا ہے کہ تفصیلی تحقیقات کے بعد امریکہ نے غربِ اردن میں تعینات نسخ یہودا اسرائیلی بٹالین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیہی (Leahy) قانون مجریہ 1997 کے تحت امریکی امداد یا اسلحہ وصول کرنے والی کوئی غیر ملکی فوج اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث پائی گئی تو اس پر تادیبی پابندیاں لگادی جائیں گی۔ اسرائیل کی نسخ یہودا قدامت پسند حدیدی فرقے کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ بٹالین میں توریت کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے جسے حقّہ (Halaka) کہتے ہیں۔ یہ بٹالین ایک برس سے غربِ اردن میں تعینات ہے۔ 7 اکتوبر کو غزہ پر حملے کے بعد سے اس بٹالین کے ہاتھوں 500 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ براہِ راست قتل کے علاوہ بٹالین کی سرپرستی میں قبضہ گرد (Settlers)بھی نہتے فلسطینیوں کو قتل، اُن کے مکانات و جائداد جلاتے، کھڑی فصلیں روندتے اور فساد مچاتے پھر رہے ہیں۔

دو روز قبل پیرس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے کہا کہ (پابندی کے حوالے سے) ان کی سفارش ایک مجاز پینل کی تفصیلی و شفاف تحقیقات پر مبنی ہے۔ جناب بلینکن نے یہ بھی کہا کہ ایک دوروز میں سرکاری اعلان متوقع ہے۔ اس خبر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو ٹویٹر پرچلاّئے کہ ’’ایک ایسے وقت میں جب ہمارے فوجی دہشت گرد عفریت سے لڑ رہے ہیں، اسرائیلی فوج کے ایک یونٹ پر پابندیاں لگانے کا ارادہ مضحکہ خیزی کی انتہا اور اخلاقی پستی ہے۔‘‘

امریکہ کے علاوہ ہیگ کی عالمی عدالت سے آنے والی خبریں بھی بی بی کے لیے بہت اچھی نہیں۔ اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیراعظم نیتن یاہو، وزیردفاع اور فوج کے سربراہ کے پروانۂ گرفتاری کا اجرا بعید از قیاس نہیں۔ ٹی وی کے مطابق 16 اپریل کی رات وزیراعظم، وزیرخارجہ اسرائیل کاٹز، وزیرانصاف یاریو لیون اور وزیرِ امور تزویرات (Strategy) ران ڈرمر کے درمیان کچن کیبنٹ کا اجلاس صبح تک جاری رہا، جس میں اس معاملے پر غور کیا گیا۔

اسرائیلی مظالم کی تفصیلات عام ہونے کے ساتھ امریکہ اور یورپ میں یہود مخالف رجحان (Antisemitism) کے نام پر تعلیمی اداروں میں نظریاتی تطہیر کا کام جاری ہے۔ دسمبر کے آغاز پر امریکہ کی تین موقر ترین جامعات ایم آئی ٹی(MIT)، ہارورڈ اور جامعہ پینسلوانیا (UPenn)کے سربراہان کو کانگریس کی مجلس قائمہ کے سامنے طلب کیا گیا۔ نیویارک سے ریپبلکن پارٹی کی رکن محترمہ الیس اسٹیفنک (Else Stefanic) اس سماعت کی روح رواں تھیں، انھوں نے ہارورڈ کی سربراہ ڈاکٹر کلاڈین گے اور UPennکی صدر لز مگ گل (Liz Magill) سے انتہائی ناشائستہ انداز میں بحث کی۔ اسٹافنک صاحبہ کا مطالبہ تھا کہ جامعات کے طلبہ کو ’’پڑھایا‘‘ جائے کہ 7 اکتوبر کو اہلِ غزہ نے اسرائیل کو سفاکی کا نشانہ بنایا۔ جامعات کے سربراہان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے کنڈرگارٹن اسکول نہیں جہاں پڑھایا جاتا ہو، بلکہ جامعات میں نظریات، بیانیے، واقعات اور واردات کا تجزیہ کرتے ہوئے تمام فریقوں کے مؤقف اور شواہد ودلائل کا بے لاگ تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اسٹیفنک صاحبہ نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سربرایان سے استعفیٰ طلب کیا۔ سماعت کے بعد اسرائیلی لابی نے اتنا شور مچایا کہ ہارورڈ اور UPennکی سربراہان مستعفی ہوگئیں۔ گزشتہ ہفتے جامعہ کولمبیا کی سربراہ مصری نژاد ڈاکٹر نعمت شفیق کو طلب کیا گیا جہاں طلبہ جامعہ کے ایک پارک پر قبضہ کرکے خیمہ زن ہوگئے ہیں جسے وہ غربِ اردن کی علامتی قبضہ بستی (Settlement) قرار دیتے ہیں۔ رکن کانگریس اسٹیفنک صاحبہ ایک بار پھر غصے میں ہیں۔ سماعت کے دوران محترمہ شفیق نے کہا کہ ان کے پاس طلبہ کے حقِ اظہار اور حقِ اجتماع پر پابندی لگانے کا کوئی اختیار نہیں۔ قانون سازی کانگریس کا کام ہے، وہ پابندی کا قانون منظور کرلے تو ہم اپنی جامعہ میں اس پر عمل درآمد یقینی بنالیں گے۔ اب ڈاکٹر شفیق پر بھی استعفے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔

اسرائیلی تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کی ایک مثال ہم گزشتہ نشست میں دے چکے ہیں جب جامعہ تل ابیب کی ایک سینئر لیکچرر کے خلاف صرف اس بنیاد پر مجرمانہ تحقیق کا کھاتہ کھول دیا گیا کہ انھوں نے ایک فوت ہوجانے والے فلسطینی قیدی کی تعزیت کی تھی۔ ایسا ہی کچھ امریکہ میں بھی ہورہا ہے۔ جامعہ جنوبی کیلی فورنیا (USC) نے 10 مئی کو ہونے والے جلسہ تقسیم اسناد میں الوداعی خطاب یا Valedictorianمنسوخ کردیا ہے۔ تقریب میں فارغ التحصیل ہونے والے سب سے لائق و فائق طالب علم کی طرف سے الوداعی خطاب امریکی جامعات کی روایت ہے۔ اِس بار خطاب کے لیے بنگلہ دیشی نژاد طالبہ اثنا تبسم کا انتخاب ہوا اور جلسے کے دعوت نامے میں اثنا کا نام بھی شایع کردیا گیا۔ مخصوص گروہ نے گزشتہ دنوں ’’انکشاف‘‘ کیا کہ اثنا سوشل میڈیا پر غزہ میں اسرائیلی وحشت کو نسل کُشی کہتی ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہروں میں نہ صرف شرکت کرتی ہے بلکہ دوست احباب کو بھی ساتھ لے کر کر جاتی ہے۔ تین دن پہلے جامعہ کے نگراں کار (Provost) ڈاکٹر اینڈریو گُزمین نے اثنا کا الوداعی خطاب منسوخ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بات آزادیِ اظہارِ رائے کی نہیں بلکہ اس سے جامعہ، اس کے طلبہ، اساتذہ اور جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہونے والے 65 ہزار افراد کی سیفٹی خطرے میں پڑسکتی ہے‘‘۔ معلوم نہیں پانچ منٹ کی تقریر سے کیا قیامت آجاتی!

ظلم و زیادتی، سینسر وپابندی اور انسانیت سوز تشدد نے جہاں دنیا بھر کے سلیم الفطرت لوگوں کو کرب میں مبتلا کررکھا ہے، وہیں یہ وحشت خود اسرائیلی شہریوں کے لیے بھی عذاب بنتی جارہی ہے۔ صحت کی خدمات فراہم کرنے والے ملک کے دوسرے بڑے ادارے مکابی ہیلتھ کیئر سروسز (Maccabi Healthcare Services) کے ایک جائزے کے مطابق صرف 46 فیصد اسرائیلی شہری جسمانی اور دماغی طور پر خود کو صحت مند سمجھتے ہیں۔ 17 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ وہ بہت کمزور اور بیمار ہوگئے ہیں۔ دائمی امراض میں مبتلا 35 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ غزہ حملے کے بعد ان کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ ملک کے نظام صحت اور طبی سہولتوں پر جنگ کے زخمیوں اور متاثرین کا دبائو ہے۔ نفسیاتی صحت کا معاملہ بھی کچھ اچھا نہیں۔ جائزے کے مطابق صرف 35 فیصد اسرائیلی خودکو دماغی اور جذباتی اعتبار سے صحت مند سمجھتے ہیں۔

انسانی صحت کے ساتھ اسرائیل کی معاشی صحت بھی اضمحلال کی طرف گامزن ہے۔ امریکہ نے غزہ قتلِ عام کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ بمبار طیاروں، مہلک میزائیلوں اور توپ کے گولوں سے لے کر سپاہیوں کے adult diapers تک امریکہ سے مفت اسرائیل آرہے ہیں۔ اس کے باوجود تل ابیب نے دسمبر میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 43 ارب ڈالر قرض لیا۔ غزہ حملے سے پہلے قرض کا حجم مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 60 فیصد کے مساوی تھا جو گزشتہ برس بڑھ کر 62.1فیصد ہوگیا اور اکائونٹنٹ جنرل یالی روٹنبرگ کا خیال ہے کہ 2024ء میں قرض کا بوجھ جی ڈی پی کا 67 فیصد ہوجائے گا۔ دو ماہ قبل Moody’s نے اسرائیل کی ساکھ، مستحکم (Stable) سے کم کرکے منفی (Negative)کردی تھی جس کی وجہ سے قرضوں پر سود کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔

ایک دلچسپ نکتے پر گفتگو کا اختتام: غزہ نسل کُشی میں امریکی صدر کی سہولت کاری پر مظاہروں کے دوران Genocide Joe کا نعرہ عام ہے۔ گزشتہ ہفتے سابق صدر ٹرمپ کے انتخابی جلسے میں اُن کے حامیوں نے بھی یہ نعرہ لگادیا، حالانکہ اسرائیل کی حمایت میں جناب ٹرمپ، بائیڈن سے زیادہ پُرجوش ہیں۔ تاہم وہ نعرے سن کر مسکراتے اور حمایت میں ہاتھ ہلاتے رہے۔ ایک صحافی نے جب اُن سے پوچھا کہ یہ کیسا نعرہ ہے؟ تو موصوف بولے ’’لوگ غلط کیا کہہ رہے ہیں!‘‘ یعنی یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا ہے۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔