غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے سات ماہ: ایرا ن اور سعودی عرب کی قیادت پاکستان کی سرزمین پر

نحیف اور نہتے فلسطین کے خلاف اسرائیل کی بدترین جارحیت کو سات ماہ ہونے والے ہیں۔ ہر روز اسرائیل انسانی حقوق اور عالمی امن کے لیے اقوام متحدہ کی ہر شق کا قتلِ عام کررہا ہے۔ سات ماہ کے عرصے کے دوران خاموشی اُس وقت ٹوٹی جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو دنیائے اسلام میں تشویش بڑھ گئی کہ آگ کے شعلے مسلم دنیا کی قبا کو کسی بھی وقت جلا کر راکھ بنا سکتے ہیں۔ اس تشویش نے سعودی عرب اور ایران کو متحرک کیا، دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادتوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں اگرچہ باہمی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے بھی ہوئے، تاہم اسرائیل کی جارحیت پر بھی نتیجہ خیز گفتگو ہوئی اور آنے والے دنوں میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان بھی طے ہوا، جس کے بعد کوئی ایسی حکمتِ عملی سامنے آسکتی ہے جس کے نتیجے میں فلسطین کے لیے مسلم دنیا کی جانب سے ایک فعال کردار دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے پہلے سے بڑھ کر فعال کردار اس لیے بھی سامنے آنے کی امید اور توقع ہے کہ امریکہ کا دہرا معیار ایک بار پھر سامنے آیا ہے، پینتیس ہزار سے زائد نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں اسرائیل کے تباہ کن ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور ڈالروں کی بارش کے علاوہ اقوام متحدہ میں ویٹو کے بے محابا استعمال سے عملی مدد کرنے کے بعد امریکہ نے اگلا وار پاکستان پر کیا ہے اور اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے سامان فراہم کرنے کے الزامات میں چین کی تین اور بیلا روس کی ایک کمپنی پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ پاکستان نے ایکسپورٹ کنٹرول پالیسی کے اس سیاسی استعمال کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی یہ پابندی کسی ثبوت کے بغیر لگائی گئی ہے۔ پاکستان نے اسے دوغلا پن قرار دیا ہے۔ امریکی مؤقف ہے کہ بیلاروس ٹریکٹر پلانٹ کے نام پر پاکستانی میزائل پروگرام کے لیے ٹرکوں کے چیسز فراہم کرتا ہے۔ ایک اور کمپنی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ فلامنٹ کی وائنڈنگ مشین دیتی ہے جو راکٹ موٹر میں استعمال ہوسکتی ہے۔ پاکستان نے یکسر یہ مؤقف مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ ویری فکیشن میکانزم پر بات چیت کے لیے تیار رہتا ہے تاکہ ایکسپورٹ کنٹرول کے امتیازی اطلاق سے گریز کیا جاسکے۔ حقائق یہ ہیں کہ جوہری پھیلائو پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کرنے والوں نے بعض ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لیے لائسنسنگ کی شرط ختم کردی ہے۔ اس کی وجہ سے علاقائی عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور علاقائی امن و سلامتی خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ امریکہ اپنے تابع دار ملکوں کی فوجی مدد کررہا ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان نے حال ہی میں یوکرین، اسرائیل اور تائیوان کے لیے 95 ارب ڈالر کی فوجی امداد کی منظوری ہے، امداد کا یہ بل اب سینیٹ کو بھیجا جائے گا جہاں اسے حتمی منظوری مل جائے گی۔

امریکہ جنگ کے ذریعے تباہی لانے والے ملکوں کی مدد کررہا ہے اور دنیا کو امن کا درس بھی دے رہا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی سرزمین پر اترنے والی سعودی اور ایرانی قیادت کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ سعودی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ پاکستان پہنچے، اُن کے بعدایران کے صدر ابراہیم رئیسی اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے۔ اعلیٰ اختیاراتی سعودی وفد کے دو روزہ دورے میں گزشتہ ہفتے سرمایہ کاری کے ممکنہ شعبوں کی نشاندہی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ سعودی وزیر خارجہ نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے قیام کے ساتھ ایسے ماحول پر زور دیا، جس میں سرمایہ کاری کے فیصلوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے نافذ کیا جاسکے۔ پاکستانی انتظامیہ معاشی تعطل سے نمٹنے میں آج تک ناکام رہی ہے اور ہمیشہ آئی ایم ایف پروگرام کی تلاش میں اس سے نمٹا جاتا ہے (پاکستان اس وقت اپنے تئیسویں پروگرام پر ہے اور باضابطہ طور پر اگلے پروگرام کی درخواست کر چکا ہے)۔ اس بات کا اعادہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں وفاقی وزیر خزانہ نے یو ایس پاکستان بزنس کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کیا جب انہوں نے زراعت، آئی ٹی، کان کنی، معدنیات اور توانائی سمیت اہم شعبوں میں بیرونی اور ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ معاملہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی تمام سیاسی قیادت دو مفروضوں پر کام کررہی ہے۔ سب سے پہلے غیر ملکی سرمایہ کاری کو تلاش کیا جانا چاہیے، حالانکہ آج تک بڑے وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ کوئی امید کرے گا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے سبق سیکھا گیا ہے، جو کثیر جہتی/دوطرفہ ممالک کے درمیان اس بنیاد پر خاصی تشویش پیدا کرتے رہتے ہیں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ معاہدوں پر عمل پیرا ہونے میں حکومت کی ناکامی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آیا CPEC قسم کے معاہدے سعودی سرمایہ کاری پر لاگو ہوں گے یا نہیں۔ یہ سعودیوں کے ساتھ مذاکرات کی موجودہ سطح پر واضح نہیں ہے، اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب معاہدوں پر دستخط ہو جائیں گے۔

اب جہاں تک سعودی وفد کی مصروفیت اور ملاقاتوں کا تعلق ہے، اسلام آباد میں اپنے دورے کے دوران سعودی معاون وزیر دفاع میجر جنرل طلال بن عبداللہ العتیبی نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات میں دفاعی پیداوار اور فوجی تربیت سمیت دوطرفہ دفاعی تعاون کو مزید بڑھانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ ملاقات پاکستان، سعودی عرب دفاعی تعاون کے پانچویں اجلاس کا ایک اہم حصہ تھی۔ جنرل عاصم منیر نے رائل سعودی لینڈ فورسز کی استعدادِ کار میں اضافے کے لیے پاکستانی فوج کی طرف سے مسلسل تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی دونوں برادر ممالک کی ضرورت ہے۔ زمینی، فضائی اور سمندری حدود کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحیت کو مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ پاکستان نے سعودی عرب کو 30 ارب ڈالر کے منصوبوں کا تفصیلی ہوم ورک پیش کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے بھی جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی جس میں سیکورٹی اور اسٹرے ٹیجک تعاون کو آگے بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سعودی وفد نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی پائیدار اور تزویراتی نوعیت کو اجاگر کیا اور دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھنے کے لیے متعدد راہیں تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا کہ ریاض پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے نمایاں طور پر آگے بڑھے گا، پاک سعودیہ بات چیت بہت کامیاب رہی، اس کے اچھے اثرات ضرور سامنے آئیں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان پے در پے وفود کا تبادلہ اور ملاقاتیں اس بات کی نشاندہی ہے کہ دونوں ملک تیزی سے اپنے اپنے اہداف کی طرف گامزن ہیں۔ سعودی اور پاکستانی وفود کا تبادلہ نگران حکومت میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کا یہ دورہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں آنے والے وفد میں سعودی وزیر صنعت و معدنی وسائل بندر ابراہیم بن عبداللہ الخریف، نائب وزیر برائے سرمایہ کاری انجینئر ابراہیم بن یوسف المبارک، سعودی خصوصی کمیٹی کے سربراہ محمد التویجری، وزارتِ توانائی اور سعودی فنڈ برائے تعمیر و ترقی کے سینئر عہدیدار، وزیر برائے ماحولیات و آبی وسائل و زراعت انجینئر عبدالرحمن بن عبدالمحسن الفضلی بھی شامل تھے۔ اس دورے کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت ہونے والے مذاکرات میں اپنے اپنے ممالک کے وفود کی قیادت کی۔ سعودی وزیر خارجہ کے وفد کے بعد سعودی عرب کے معاون وزیر دفاع بھی ایک وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچے جس کا مقصد دفاعی تعاون سے منسلک منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔

آج پاکستان اور چین کا اقتصادی راہداری کا مشترکہ منصوبہ جو اس وقت آپریشنل ہونے کے مراحل میں ہے، اس پورے خطے کے لیے گیم چینجر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس کے ناتے سے خطے کے ممالک کی، عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے بھی کھل رہے ہیں۔ چنانچہ خطے کے ممالک کی برآمدات کو سی پیک کے ذریعے فروغ حاصل ہوگا تو اس کا براہِ راست اور بالواسطہ پاکستان کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اب برادر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں 6 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے راستے بھی ہموار ہورہے ہیں تو آنے والا وقت پاکستان کے بہتر مستقبل اور اس کی معیشت کے استحکام کی نوید سناتا نظر آرہا ہے۔

سعودی وزیر خارجہ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تشریف لائے ہیں، جبکہ معاون وزیر دفاع دفاعی معاہدوں کو آگے بڑھائیں گے۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ سعودی ولی عہد کا ممکنہ دورہ مزید تعاون پر مشتمل ہو، اور ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ اقتصادی تعاون میں نئی جہتیں تلاش کرکے ان پر کام کیا جائے۔ پاکستان سعودی عرب میں فٹبال کی کھپت بھی پوری کرنا چاہتا ہے، پاک سعودی تعلقات میں وسیع پیمانے پر کثیر الجہتی تعاون ممکن ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک میں بیٹھے ماہرین ان نئی جہتوں کو تلاش کرکے قدم آگے بڑھائیں۔

سعودی وفد کے بعد ایران کے صدر اسلام آباد پہنچے، جہاں صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کے علاوہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم شہبازشریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ملاقات کے دوران اگلے پانچ سالوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 10 ارب امریکی ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ صدر رئیسی اور وزیراعظم شہبازشریف نے غزہ میں اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے سات ماہ سے زائد عرصے سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کی شدید مذمت کی اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں اور محاصرہ ختم کرنے پر زور دیا، اور غزہ کے محصور عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی اپیل کا اعادہ کیا۔ اس سے قبل مارچ 2016ء میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا، اور اب آٹھ برس بعد ایران کے صدر کا دورۂ پاکستان ہورہا ہے۔ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد کسی بھی غیر ملکی سربراہِ مملکت کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ایرانی وفد میں وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام کے علاوہ پچاس رکنی ایک بڑا تجارتی وفد بھی شامل تھا۔ ایرانی صدر لاہور اور کراچی بھی گئے، جامعہ کراچی میں ان کی اہلیہ کی کتاب کی تقریبِ رو نمائی ہوئی۔ سرحدی دہشت گردی اور حملوں کے باعث دونوں ممالک کے مابین طے پایا تھا کہ دونوں اطراف سے سینئر فوجی افسران کو بطور رابطہ افسر تعینات کیا جائے گا تاکہ سرحدی تنازعے جنم نہ لیں اور موقع پر ہی معاملات کو حل کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لیے بات چیت مکمل ہوچکی ہے اور لائزان افسر کی تعیناتی کا عمل بھی مکمل ہوچکا ہے۔ بیرونی دنیا کی یقینی طور پر اس دورے پہ نظر ہوگی لیکن پاکستان کو اس کا کوئی منفی اثر ملنے کا امکان کم ہے۔ تازہ ہوا کا ایک جھونکا یہ آیا ہے کہ پاکستان اورایران نے مشترکہ خصوصی اقتصادی زون کے قیام کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کے لیے ٹیکسٹائل، زرعی مصنوعات، فارماسیوٹیکلز، آئرن اور اسٹیل مصنوعات برآمد کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح مشترکہ خصوصی اقتصادی زون میں درآمدات کے متبادل اشیاء والی صنعتوں کا قیام عمل میں لاکر جاری کھاتوں پر دبائو کم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان سرِدست جن معاشی بحرانوں میں گھرا ہے ان سے نبرد آزمائی اسی صورت ممکن ہے کہ وہ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا کے ساتھ اقتصادی و معاشی مراسم بڑھائے، اس کی ابتدا اگر ہمسایہ ممالک سے ہو تو یہ اپنے ساتھ امن کی نوید بھی لائیں گے۔ پاکستان کو کسی کے بھی دبائو میں آئے بغیر اپنی ضروریات اور اپنے مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ بلاشبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔

دوست ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کی آمد ایک جانب، دوسری جانب ہمیں آئی ایم ایف کے چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستان کو امید ہے کہ اسے ایک بڑا بیل آؤٹ پروگرام مل جائے گا۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کا 3 ارب ڈالر کا قرضہ پروگرام اسی ماہ ختم ہورہا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے ’بڑے اور طویل مدتی‘ قرض پروگرام کی درخواست کررہا ہے اور فنڈ کے حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ پاکستان نے جون 2023ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس سے اس جنوبی ایشیائی ملک کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم خاص طور پر اقتصادی معاملات میں، وقت کے ساتھ ہم قدم نہ ہوپائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ہم نے نہ اپنی جز وقتی یا طویل مدتی پالیسیاں بنائیں اور نہ ہی تجارتی و اقتصادی مراسم بڑھانے پر توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کساد بازاری کے بعد پاکستان ڈیفالٹ ہونے تک پہنچ گیا تھا۔ پاکستان کی معاشی حالت اب بھی کوئی قابلِ رشک نہیں کہ اسے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف سے نجات مل سکتی ہے اگر ہم صرف غیر قانونی تجارت کا دھندا ہی روک لیں۔ صرف امریکی ڈالر کی اسمگلنگ سے پاکستان کو 23 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان میں سونے کی دو کھرب روپے سالانہ کی مارکیٹ میں محض 29 ارب روپے معیشت کا حصہ بنتے ہیں، باقی پیسہ کالا دھن ہے، درجنوں ٹن سونا ہر سال پاکستان سے اسمگل ہوتا ہے۔ اسمگلنگ کو روکا جائے تو ایک کھرب روپے سے زائد سالانہ بچائے جا سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ سے پاکستان کو دو سے تین ارب ڈالر سالانہ کا نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ منسٹری آف کامرس کی 2020ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے بہت سے شعبوں میں مکمل طور پر سرایت کرچکی ہے اور اِس سے پاکستانی معیشت کو سالانہ تین ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں 74 فیصد موبائل فون، 53 فیصد ڈیزل، 43 فیصد انجن آئل، 40 فیصد ٹائر اور 16 فیصد اسمگل شدہ آٹو پارٹس بکتے ہیں۔ مسئلے کی نوعیت اِس قدر گمبھیر اور حجم اتنا بڑا ہونے کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظم و ضبط قائم رکھنے والی ایجنسیاں ملک میں داخل ہونے والی غیر قانونی اشیاء کا صرف پانچ فیصد ہی پکڑ سکتی ہیں۔ اسمگلنگ سے ہونے والے اِس شدید نقصان کو کرنسی کی اسمگلنگ مزید تباہ کن بناتی ہے اور پاکستان ڈالر کی اسمگلنگ سے سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرتا ہے۔ پانچ بڑے شعبوں میں اسمگلنگ، غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری سے پاکستان کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جن میں رئیل اسٹیٹ، تمباکو، ٹائر اینڈ لبریکنٹس، چائے اور ادویہ کے شعبے شامل ہیں۔