برادر ہمسایہ ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی تین روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب موجودہ حکومتی اتحاد کو اقتدار سنبھالے ابھی چند ہفتے ہوئے ہیں، یوں صدر رئیسی پہلے سربراہِ مملکت ہیں جو نئے حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کے بعد پاکستان آئے ہیں۔ دوسری جانب عالمی سطح پر مشرق وسطیٰ میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اسرائیل سات ماہ سے غزہ کے نہتے اور محصور شہریوں، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین پر اندھا دھند گولہ بارود کی بارش کررہا ہے جس سے اب تک 35 ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کی جانیں لی جا چکی ہیں اور دنیا کے اقتدار، وسائل اور اختیارات پر قابض حکمران اس کھلی نسل کُشی پر خاموش تماشائی ہی نہیں بنے ہوئے بلکہ کھلم کھلا ظلم و سفاکی کی حمایت و سرپرستی کررہے ہیں۔ پاکستان اور ایران دونوں امتِ مسلمہ اور خطے میں اہم مقام ر کھتے ہیں، دونوں کا اس معاملے میں مؤقف یقیناً اہمیت اور وزن رکھتا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات میں امت کے اس اہم ترین مسئلے پر ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا ہوگا جس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔
پاکستان اور ایران دونوں قریب ترین اور مسلمان ہمسایہ ممالک ہیں۔ دونوں کے مابین تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ایران پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا، اس کے بعد بھی دونوں ممالک مختلف مسائل میں ایک دوسرے کے مؤقف کی تائید و حمایت کرتے چلے آئے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ تعلقات نہ صرف پہلے کی طرح خوش گوار نہیں رہے بلکہ ایک وقت میں شدید کشیدگی کا شکار بھی رہے، جس میں ہمارے دشمنوں خصوصاً بھارت کی سازشوں اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔ تاہم یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ دونوں ملکوں کے فیصلہ سازوں نے کشیدگی کو طول دینے کے بجائے حکمت و تدبر سے کام لیتے ہوئے صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے مثبت طرزِ فکر کا مظاہرہ کیا۔ اس پس منظر میں صدر ابراہیم رئیسی کا حالیہ دورۂ پاکستان یقیناً خوش آئند اور مثبت سمت پیش رفت کا آئینہ دار ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ملکوں کے سربراہان نے اپنی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، خاص طور پر تجارت، توانائی، ثقافت، روابط اور عوامی سطح پر تعاون کو وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا اور دو طرفہ تجارتی حجم ڈھائی ارب کی موجودہ سطح سے بڑھا کر آئندہ پانچ برس میں چار گنا یعنی دس ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا۔ فریقین نے دہشت گردی کے خطرے سمیت تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا، چنانچہ دونوں ملکوں کے وزرائے داخلہ نے اس ضمن میں عملی پیش رفت کے طور پر دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا، اور سرحدی امور، منشیات و اسمگلنگ پر قابو پانے اور دو طرفہ سلامتی کے معاہدے پر جلد دستخط کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ دونوں ملکوں کے قیدیوں کی جلد از جلد اپنے ملکوں کو واپسی میں آسانی کے لیے ان کے جرمانے معاف کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ایرانی صدر اور پاکستانی وزیراعظم کی ملاقات میں غزہ میں اسرائیلی قابض فوج کی طرف سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کی مذمت کرتے ہوئے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں اور محاصرہ ختم کرنے پر زور دیا گیا اور انسانی بنیادوں پر غزہ کے محصور عوام کے لیے امداد کی اپیل کا اعادہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غزہ کے معاملے میں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے دونوں رہنمائوں نے اس امید اور عزم کا اظہار بھی کیا کہ غزہ کے عوام کو ایک دن اُن کا حق اور انصاف مل کر رہے گا۔ پاکستانی وزیراعظم نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی مؤقف کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت پر ایرانی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔
ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان سے دو دیرینہ دوست، ہمسایہ اور برادر مسلم ممالک کے تعلقات میں سامنے آنے والی پیش رفت بلاشبہ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے باعثِ اطمینان ہے جس سے خطے میں امن و خوش حالی اور دو طرفہ بہتر و مفید تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بگاڑنے کے خواہاں ممالک کی سازشیں اپنی موت آپ مر جائیں گی، تاہم اس مثبت اور خوش آئند پیش رفت کے باوجود یہ امر حیران کن ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین گیس پائپ لائن کے دیرینہ منصوبے کی تکمیل کے ضمن میں کوئی اچھی خبر اس دورے کے دوران سننے میں نہیں آئی، حالانکہ قدرتی گیس کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے وسائل کے سبب پاکستان کو توانائی کے شدید بحران اور سنگین مسائل کا سامنا ہے، اور ایران جیسے ہمسایہ ملک سے پائپ لائن کے ذریعے گیس کی دستیابی سے ہمارے توانائی کے مسائل نہایت کم وسائل میں حل ہوسکتے ہیں۔ ایران تو عرصہ قبل اپنی سرحد تک پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرچکا ہے، اور اگر یہ پائپ لائن معاہدے کے مطابق مکمل ہوجائے تو یومیہ 75 کروڑ سے ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس پاکستان کو فراہم ہوسکتی ہے، مگر پاکستان امریکی دبائو کے باعث اس منصوبے کی تکمیل میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ضرورت ہے کہ سفارتی سطح پر مؤثر کوششوں کے ذریعے امریکی دبائو سے نجات کی راہ نکالی جائے اور اوّلین فرصت میں پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اس منصوبے کو مکمل کیا جائے۔ (حامد ریاض ڈوگر)