ترس گئے ہیں

رات گئے برادر سلیم مغل کا فون آیا۔ پروفیسر سلیم مغل ہمارے ملک کے معروف ماہر ابلاغیات و ماہرِ فنِ اشتہاریات ہیں۔ وفاقی اُردو یونیورسٹی میں شعبۂ ابلاغیات کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ بچوں کے مشہور رسائل ’’آنکھ مچولی‘‘ اور ’’نونہال‘‘ سمیت متعدد علمی و ادبی جرائد کی ادارت کرچکے ہیں۔ اُن کے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سلیم بھائی جامعہ کراچی میں ہمارے ہم عصر تھے اور اُس زمانے کے نہایت مقبول طالب علم رہنما تھے۔ جامعہ کراچی کے سالانہ مجلے ’’الجامعہ‘‘ کے یکے بعد دیگرے دو سال مدیراعلیٰ بھی رہے۔

فون پر سلیم بھائی کہنے لگے کہ ’’حاطب بھائی! اُردو کی اکثر تراکیب ایسی ہیں جن کے استعمال کا موقع محل تو لوگ جانتے ہیں، مگر اُن کے معانی سے نابلد ہوتے ہیں۔ مثلاً یہی دیکھ لیجے کہ یہ فقرہ اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’فلاں شخص بہت خدا ترس ہے‘۔ مگر ’خدا ترس‘ کا کیا مطلب ہے؟ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں میں یہ ذوق پیدا کریں کہ وہ الفاظ کے استعمال کے مواقع جاننے کے ساتھ ساتھ الفاظ کے اصل معانی جاننا بھی سیکھیں۔ اس طرح ان میں تحقیق کا شوق بھی پیدا ہوگا‘‘۔

اُس رات سلیم بھائی نے خاصی طویل گفتگو کی۔ گفتگو کے سیاق و سباق سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سلیم بھائی کے کسی شاگرد نے شاید ’خداترس‘ کا مطلب خدا پر ترس کھانا بتا دیا جس پر وہ بھڑک اُٹھے۔ بچوں میں تو خیر بعد میں ہوگا، ہم میں تحقیق کا شوق اُسی وقت پیدا ہوگیا۔

’ترس‘ کا لفظ آپ کو فارسی میں بھی ملے گا اور یہی لفظ سنسکرت یا ہندی میں بھی موجود ہے۔ فارسی میں اس کا مصدر ’ترسیدن‘ ہے، جس کے معنی ہیں ’ڈرنا یا خوف کھانا‘۔ لہٰذا ’خدا ترس‘ کا مطلب ہوا ’خدا سے ڈرنے والا‘۔ ’ترس‘ ڈر، خوف یا دہشت کو کہتے ہیں۔ اردو میں ’لرزاں و ترساں‘ کا مرکب اکثر استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب ہے ’کانپتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے‘۔ لفظ ’ترساں‘ کے معنی ہیں ’ڈرا ہوا، خائف یا خوف زدہ شخص‘۔ فارسی میں ’ترسَم‘ کا مطلب ہے ’میں ڈرتا ہوں‘ یا ’مجھے ڈرہے‘۔ شیخ سعدیؔ کا مشہور شعر ہے:

ترسم نَرسی بہ کعبہ اے اعرابی
کِیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است

یعنی: ’’اے بدُّو، اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ تُو کعبہ نہ پہنچ سکے گا کیوں کہ تُو جس راہ پرچل رہا ہے وہ ترکستان جا رہی ہے‘‘۔

یہ شعر عموماً ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ایسے موقعے پر پڑھا جاتا ہے جب کوئی فرد یا کوئی گروہ اپنے عزائم، دعووں یا اہداف کے بالکل برعکس طریقوں پر عمل پیرا ہوگیا ہو۔ ٹی وی پرفارسی شعر پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پیمرا والے ’پڑھاکو‘ کو پکڑ نہیں پاتے۔

فارسی ہی میں ’ترسا‘ کے معنی ہیں ’ڈرانے والا‘ یا ’وہم کرنے والا‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اصطلاحی معنوں میں ’ترسا‘ کا لفظ نصرانی عقیدہ رکھنے والوں اور آتش پرستوں، دونوں کے لیے استعمال کیا گیا۔ کیا خبر کہ دونوں ہی ڈرائے ہوئے اور وہمی ہوتے ہوں۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’اس معنی میں یہ لفظ رومی ہے‘‘۔ (ویسے ’ترسا‘ نام کے دو گاؤں بھی ہیں۔ ایک اسٹونیا میں، ایک مصر میں۔)

اُدھر مولوی سید احمد دہلوی مرحوم ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں نصرانیوں اور پارسیوں کے تعلق سے اس لفظ کی یوں وضاحت فرماتے ہیں:

’’چوں کہ یہ لوگ خوب صورت ہوتے ہیں اور نیز اہلِ اسلام کے عقائد کے موافق کافر، پس اس وجہ سے شعرا اکثر معشوق کو اس نام و صفت [یعنی ’ترسا‘] سے تعبیر کیا کرتے ہیں‘‘۔ ان ’’خوب صورت‘‘ آتش پرستوں کو ’گبر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سو، میر تقی میرؔ کا شعر ہے:

طرزِ نگاہ اُس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن، کیا گبر اور ترسا

’’بالِ جبریل‘‘ میں علامہ اقبالؔ اپنی نظم ’’تاتاری کا خواب‘‘ شروع کرتے ہوئے ان حسینوں کی ’چشمِ بے باک‘ کا ذکر کرتے ہیں:

کہیں سجادہ و عمامہ رہزن
کہیں ترسا بچوں کی چشمِ بے باک

’ترسا بچہ‘یعنی عیسائیوں یا پارسیوں کا بچہ، حسین لڑکا، مجازاً معشوق۔میرؔکو ماہِ صیام آجانے پر پینے پلانے کی ایک ہی جگہ نظر آتی تھی:

آخر کو روزے آئے، دو چار روز ہم بھی
ترسا بچوں میں جا کر دارُو پیا کریں گے

نظیرؔ اکبر آبادی بھی کسی ایسے ہی محبوب کو، جس کا شمار ’ترساؤں‘ میں ہوتا ہوگا،خدا کا خوف دلا کر فریاد کرتے ہیں:

تجھے کچھ بھی خدا کا ترس ہے اے سنگ دل ترسا
ہمارا دل بہت ترسا، ارے ترسا نہ اب ترسا

نظیرؔ کے اس شعر کے دوسرے مصرعے میں دو دفعہ ہندی کا’ ترسا‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ہندی میں ’ترس‘ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ رحم کرنے کے معنوں میں اور خواہش مند ہونے یا لالچ کرنے کے معنوں میں۔’ترس آنا‘ کا مطلب ہے ’رحم کھانا، جی کُڑھنا یا دل دُکھنا‘۔ ’ترسنا‘ کے معنی ہیں ’خواہش رکھنا، کسی چیز کا بھوکا ہونا یا ایسی چیز کی اُمید باندھنا جو ہاتھ نہ آسکے‘۔ نیز ’آرزو کرنا یا اشتیاق ہونا‘۔

ناسخؔ نے اپنے ایک ہی شعر کے دوسرے مصرعے میں یہ دونوں معانی بھگتا دیے ہیں:

ہمیں سے ہے کنارا، ہم کنار اغیار سے ظالم
ترس آتا نہیں تجھ کو، ہمارا جی ترستا ہے

’ترسانا‘ کا مطلب ہے للچانا اور اُمید دلا کر مایوس رکھنا، یعنی آرزو پوری نہ ہونے دینا۔رشکؔ کی آرزو بھی غالباً پوری نہ ہو سکی:

نہ بوسہ دینا آتا ہے نہ دل بہلانا آتا ہے
تجھے اے کافرِ ترسا فقط ترسانا آتا ہے
جب کہ حفیظؔ جالندھری کا دعویٰ تھا کہ
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں

کسی چیز کو’ترس جانا‘ کہہ کرکسی چیز سے محروم ہو جانا مراد لیا جاتا ہے۔دیکھیے اقبالؔ کو امت کی موجودہ حالت پر یوں ترس آیاہے :

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لیے

’راہ داں‘ کا مطلب ہے ’راستہ جاننے والا یا راہ نما‘۔ اقبالؔ اپنی ملت کے لیے بھلا کن خوبیوں کے حامل رہنماؤں کے خواہاں تھے؟ یہ جاننے کے لیے اُن کی اُردو اورفارسی شاعری کا مطالعہ لازم ہے۔مگر فارسی تو دور کی بات ہے، اقبالؔ کے دیس کے تعلیمی اور ابلاغی ادارے اب تو ترس گئے ہیں کسی مردِ اُردو داں کے لیے۔نتیجہ یہ کہ اب ہمیں ایسے رہنما میسر ہیں جو خدا ترس ہیں نہ انھیں اپنی قوم پر ترس آتا ہے۔افرادِ قوم کو ملّی تو کیا بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی ترسا ترسا کر مارے دے رہے ہیں۔