جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے

پاکستان کی سیاسی تاریخ کسی معمے سے کم نہیں۔ تاریخ میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ کوئی ایک نقطہ نظر کو اہمیت دیتا اور کوئی دوسرے نقطہ نظر کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ نقطہ نظر کی بات تھی لیکن کچھ حقائق اور واقعات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں جن کو جھٹلانا ممکن نہیں ہوتا، جیسے 14 اگست 1947ء کو قیام پاکستان، 16 دسمبر 1971ء کو سانحہ مشرقی پاکستان یا 6 ستمبر1965ء کو جنگ ِستمبر۔ ہمارے ہاں سانحہ یہ ہوا ہے کہ مؤرخ سے پہلے بعض دوسرے عناصر متحرک ہوگئے اور انہوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے اپنے مفاد کے مطابق بہت سے واقعات کو اپنی مرضی کا رنگ دے دیا، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قومی زندگی کے اہم واقعات کے بارے میں وہ بیانیہ زبان زدِ عام ہوگیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ البتہ یہ حقیقت بہرحال موجود تھی کہ وہ بیانیہ کسی کے ذہنِ رسا کا شاہکار تھا، اور اس شاہکار کے پسِ پشت چونکہ قوت کارفرما تھی اس لیے حقیقت شرمندہ ہوکر کسی کونے کھدرے میں بیٹھ گئی اور گھڑی ہوئی کہانیاں زبان زدِ عام ہوگئیں۔

حقیقت کیا ہے یہ بتانا ضروری تھا، اور بہت سے اہلِ دانش نے قوم کی طرف سے یہ فرضِ کفایہ ادا بھی کیا، لیکن کام بہت زیادہ تھا اور مردانِ کار بہت کم۔ ہمارے دوست اور بھائی ڈاکٹر فاروق عادل کا شمار اسی قافلے میں ہوتا ہے جس نے قوم کو سچ بتانے کا ذمہ اٹھایا۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب ’’ہم نے جو بھلادیا‘‘ چند ماہ پہلے شائع ہوئی جو اسی سلسلے کی کڑی تھی، اللہ تعالیٰ نے مقبولیت بخشی اور اس کتاب کے دو ایڈیشن پہلے ایک ڈیڑھ ماہ میں ختم ہوگئے، یوں اس کتاب کو سال 2023ء کی بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ اسی سلسلے کی دوسری کتاب ’’جب مؤرخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ اب شائع ہوئی ہے۔ کتاب کیا ہے انکشافات کا پشتارہ ہے۔ پاکستان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے متبادل تاریخ لکھنے کا دعویٰ کیا، لیکن یہ صرف دعویٰ ہی تھا، سائنٹفک بنیاد پر بیان کیے گئے سچے حقائق نہیں تھے۔

ڈاکٹر فاروق عادل کا کمال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں اُن کا ہر مضمون انکشافات سے بھرا ہوا ہے، اور انکشافات کا ثبوت بھی ساتھ پیش کردیا گیا ہے۔ مثلاً ہماری تاریخ میں فقیر ایپی ایک پراسرار کردار ہے، بعض لوگ اسے ہیرو تسلیم کرتے ہیں، اور کچھ نے تو اسے مذہبی پیشوا بھی قرار دیا۔ کون جانتا ہے کہ اِس شخص نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے نہرو کی سطح پر جاکر بھارت کے ساتھ سازباز کی۔ ایک حقیقت یہ ہے۔ اور دوسری یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اس نے خود اعلان کیا کہ اگر میں پاکستان کے خلاف بات کروں تومجھے گمراہ سمجھا جائے۔ یہ کیسا معمّا ہے اور کیسے واقعات ہماری تاریخ میں گزرے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے یہ کہانی پہلی بار ناقابلِ تردید ثبوتوں کے ساتھ بیان کردی ہے۔

کون جانتا ہے کہ اسکندر مرزا نے پاکستان کا پہلا مارشل لا لگانے کا فیصلہ کیوں کیا، اور یہ بات بھی کوئی نہیں جانتا کہ اُس نے مارشل لا لگانے کے بعد ایک بھارتی شہری کو پاکستان کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور وہ شخص پاکستان پہنچ بھی گیا تھا۔ وہ شخص کون تھا، پھر یہ سازش کیوں کامیاب نہ ہوسکی؟ یہ بڑی حیرت انگیز کہانی ہے جو ہماری تاریخ میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔

بلوچستان کا سرداری نظام کیا ہے، بھٹو صاحب نے اسے ختم کیوں کیا اور ختم کرنے کے باوجود یہ ختم کیوں نہ ہوسکا؟ یہ کہانی بھی بڑی عبرت انگیز ہے۔ اسی طرح قلات پر فوجی آپریشن کا راز کیا ہے، خان آف قلات درست کہتے ہیں یا حکومتِ پاکستان کی کہانی درست تھی، یا ان دونوں فریقوں کی کہانیوں میں کوئی گڑبڑ تھی؟ ان رازوں سے بھی یہ کتاب پہلی بار پردہ اٹھاتی ہے۔

مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان… ملک کے ان دونوں حصوں میں ایک دوسرے کے بارے میں 1971ء کے سانحے سے پہلے کتنی معلومات دستیاب تھیں، نیز یہ کہ کس وجہ سے پاکستان کے دائیں اور بائیں بازو کا پریس مشرقی پاکستان کے بارے میں ایک ہی انداز سے سوچتا تھا، یہ راز بھی اس کتاب کی اشاعت سے پہلے کبھی سامنے نہیں آسکا تھا۔ اگرتلہ سازش کیس کیا تھا، اس کے اصل کردار کون تھے اور حکومتِ پاکستان، خاص طور پر یحییٰ خان نے اس سلسلے میں پہاڑ جیسی غلطیاں کیوں کیں، فوجی جرنیلوں نے یہ کیوں کہاکہ نواب زادہ نصراللہ اور اصغر خان نے شیخ مجیب کو سزائے موت سے بچالیا، یہ حقائق بھی یہی کتاب پہلی بار سامنے لارہی ہے۔

پاکستان میں صدارتی نظام کی بحث کبھی ختم نہیں ہوئی۔ ایوب خان نے یہ نظام نافذ کیا تو اُن کے پاس کیا دلائل تھے، اب یہ نظام پاکستان میں آسکتا ہے کہ نہیں، اور آگیا تو اس کے کیا فائدے اور نقصانات ہوں گے، قومی تاریخ کے پس منظر میں یہ ایک ایسا جائزہ ہے جو ایک پاکستانی کے سامنے کبھی نہیں آیا ہوگا۔ ایوب خان کے عہد کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اقتصادی اعتبار سے شاندار دور تھا، لیکن حقائق ہمیں ایک مختلف کہانی سناتے ہیں۔ ایوب خان کی شخصیت کے بارے میں ڈاکٹر فاروق عادل ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ بتارہے ہیں کہ اپنے زمانے کے ہر موقع پر یہ شخص فیصلہ کرنے سے گھبرایا اور موقع سے غائب ہوگیا۔ یہ ایک الگ عبرت انگیز کہانی ہے جو اس کتاب میں ’’بزدل سورما‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔

نواب امیر محمد خان ہماری تاریخ کا ایک منفرد کردار ہیں، ان کے بارے میں بڑے قصے کہانیاں مشہور ہیں، لیکن ڈاکٹر فاروق عادل کے انکشافات حیران کن ہیں۔ اس شخصیت سے ہم آج بھی بہت کچھ سیکھ کر اپنا آج بہتر بناسکتے ہیں اور اس کی کہانی سے عبرت بھی پکڑ سکتے ہیں۔ غرض ڈاکٹر فاروق عادل نے قومی زندگی کے 33 غیر معمولی واقعات کو غیر معمولی انداز میں بیان کردیا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ یہ کتاب خریدلی جائے اس سے پہلے کہ اس پر پابندی لگادی جائے۔ خیر، یہ پابندیوں کا زمانہ نہیں، لیکن اس کتاب کو پڑھے بغیر پاکستان اور اس کی تاریخ کو سمجھنا بالکل ممکن نہیں۔

پاکستان میں مہنگائی پر قابو پانا کیوں مشکل ہوچکا ہے، چھوٹے چھوٹے ہنگامے ہوتے ہیں، دھرنے بھی ان پر بھی قابو پانا کیوں ممکن نہیں رہا، اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟ اس کہانی کا آغاز جنرل پرویزمشرف کے زمانے میں ہوتا ہے، اور یہ ایک ایسا جرم ہے جس کا ابھی تک سدباب دریافت نہیں ہوسکا۔ یہ کہانی بھی پہلی بار ڈاکٹر فاروق عادل نے بیان کی ہے۔

قلم فائونڈیشن نے ان اہم اور بھرپور تاریخی حقائق کو بڑے اہتمام سے دیدہ زیب کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے اپنے روایتی معیار کو بڑی خوبی کے ساتھ قائم رکھا ہے۔

ہمیں بہر صورت ڈاکٹر فاروق عادل کے عزم و استعداد کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے تاریخ جیسے اہم اور نازک موضوع پر مستند حقائق اور معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ یکجا کردیا ہے۔