جمہرۃ انساب العرب

علم انساب، علمِ تاریخ کا ایک اہم ترین جزہے۔ علمِ تاریخ کی گہری معرفت اور اس میں اختصاص علمِ انساب کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مصادرِ تاریخ میں کئی ایک مقامات پر پیدا ہونے والی پیچیدہ الجھنیں، متعلقہ شخصیات کی خاندانی وابستگیوں کی معرفت سے سلجھتی چلی جاتی ہیں۔

پیش ِ نظر کتاب انساب سے متعلق علامہ محمد بن علی بن احمد بن سعید بن حزم ظاہری اندلسی ؒ(384ھ۔456)کی مشہور و معروف کتاب ’’جمہرۃ انساب العرب‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ علامہ ابن حزمؒ اندلس کے مشہور علما میں سے تھے۔ آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ آپ بیک وقت محدث، مجتہد، فقیہ، سیرت نگار، مؤرخ، ماہرِانساب، مناظر، ماہرِ نفسیات، ادیب، شاعر، نقاد، فلسفی اور متکلم تھے۔ اس پر مستزاد آپ تین خلفاکے وزیر بھی رہے۔ سیرت نگار کی حیثیت سے آپ کی سب سے اہم اوریادگار کتاب ’’جوامع السیرۃ‘‘ ہے۔

پیشِ نظر کتاب میں علامہ ابن حزم ؒنے سورہ حجرات کی آیت31 (وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآیلَ لِتَعَارَفُوْا) کے حوالے سے علم انساب کی جلالتِ شان کی بنیادی وجہ یہ ذکر کی کہ انساب کی معرفت قوم، قبیلے اور خاندان کی جان پہچان کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد اس علم کی فضیلت کے بیان کے لیے آپ کی ذکر کردہ تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ: علمِ انساب کا کچھ حصہ وہ ہے جس کی معرفت فرض ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے نسب مبارک، اور آپﷺ کی قوم، قبیلے کا جاننا، خاندان فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ سے وابستگی کا جاننا، اپنے والدین کو جاننا، محرم و غیر محرم رشتے داروں کا جاننا، اُن تمام رشتے داریوں کا جاننا جن سے میراث، نفقہ وغیرہ کسی بھی طرح کے واجب حقوق وابستہ ہیں۔

علم انساب کا کچھ حصہ وہ ہے جس کی معرفت فرض کفایہ ہے، جیسا کہ امہات المومنین اور اکابر مہاجرین و انصار صحابہ کرام کا جاننا، اسی طرح رسول اللہﷺ کے عزیز و اقارب کا جاننا تاکہ اموالِ غنیمت کے خمس کے مستحقین کا علم ہوسکے اور یہ بھی معلوم ہوسکے کہ صدقاتِ واجبہ کن کے لیے حرام ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں کے پیش ِ نظر علم ِ انساب ایک نفع بخش اور مفید علم ہے۔

انساب پر علامہ ابن حزم ؒکی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتاب نبی اکرم ﷺ کے ہر اُس صحابی اور واقعۂ سیرت میں ذکر کردہ بیشتر افراد کے نسب کو بیان کرتی ہے، جن کا ذکر سرسری طور پر سیرت کے کسی بھی واقعے میں ہو۔ اور نسب کا تذکرہ کرنے کے بعد علامہ ابن حزم ؒکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بطور مثال سیرتِ نبویﷺ سے اس فرد سے متعلق کوئی واقعہ بھی نقل کردیں۔

مثلاً: علامہ ابن حزم انصار کے ذکر میں عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ کی اولاد کی سرخی کے تحت براء بن معرور بن صخر بن خنساء بن سنان بن عبید بن عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ بیعت عقبہ میں شریک تھے اور نقیب ہوئے۔ یہ وہ پہلے شخص ہیں جنھیں قبلہ رخ دفن کیا گیا۔ ان کے بیٹے بشر بن براء وہ ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ زہر آلود بکری کا گوشت کھایا تھا اور اسی زہر کے اثرات کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔ اسی طرح بنونجار کے براء بن اوس بن خالد کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ آپﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کے رضاعی والد ہیں، کیوں کہ ان کی اہلیہ امِ بردہ نے رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کو دودھ پلایا تھا۔

اس قسم کی نادر معلومات کتب ِ انساب میں صرف علامہ ابن حزم کی ’’جمہرۃ انساب العرب‘‘ ہی میں ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں مسلمان خلفا و سلاطین، ان کی اولاد اور اربابِ اختیار و اقتدار کے مقرر کردہ اور ان کے ماتحت اہم عہدوں اور مناصب پر کام کرنے والے افراد کی جو تفصیلات علامہ ابن حزم کی اس کتاب میں ہیں وہ کہیں اور دستیاب نہیں۔

علامہ ابن حزم ؒ کو انساب، رجال، تاریخ اور تراجم جیسے موضوعات پر ماقبل لکھی گئی کتابوں سے استفادے کا بھرپور موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ان تمام کتابوں کا عطر کشید کرکے جملہ انساب کو ایک مکمل اور مربوط صورت میں پیش کیا ہے، جس کے باعث ابن حزم کی یہ کتاب تاریخی شخصیات، صحابہ کرام، خاندانِ نبوی کے معززین اور اولاد، خلفا، خلفا کی اولاد، شاہان اوروالیان کے مقربین اور ان کی نسلوں کے تذکرے کے حوالے سے ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی یہ کتاب کئی امتیازات کی حامل ہے، جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔

کتاب کے ناشر اور مہذب محمد فہد حارث کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جو اسلامی تاریخ کی کئی ’’خالی جگہوں کو نہ صرف پُر کرتی ہے‘‘ بلکہ مصادر ِ تاریخ میں درج نہ ہونے والی بہت سی معلومات بھی بہم پہنچاتی ہے۔ انساب پر اس سے زیادہ مفصل، مکمل اور جامع کوئی دوسری کتاب نہیں‘‘۔

اس اہم ترین کتاب کا اب تک اردو ترجمہ نہیں ہوا تھا، لیکن مقامِ شکر ہے کہ اب اس کتاب کا ایک عمدہ، رواں اور سلیس ترجمہ شائع ہوگیا ہے۔یہ اردو ترجمہ ڈاکٹر مفتی محمد بلال ابراہیم بربری کی محنتِ شاقہ کا ثمر ہے۔فاضل مترجم نے نہ صرف کتاب کا ترجمہ کیا ہے بلکہ عربی متن کے محقق عبدالسلام ہارون کے ذکر کردہ تقریباً تمام ہی حواشی کا ترجمہ بھی کیا ہے اور مفید حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے۔

یہ ایک ایسی اہم کتاب ہے کہ اسلامی تاریخ کا کوئی طالب علم یا استاد اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اسلامی تاریخ کی اس اہم علمی خدمت کی انجام دہی پر فاضل مترجم اور ناشر ہر دو لائقِ صد تحسین و قابلِ مبارک باد اور ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔ فجزاھما اللہ احسن الجزاء۔