چھٹا باب
سارتر
تصور کا ’’وجودی‘‘ فلسفہ جو بیسویں صدی میں پروان چڑھا، کئی حوالوں سے نٹشے کے فلسفہ تصور کی تنقید کا تسلسل تھا۔ یہ آدمی کو مزید’یاسیت‘ میں دھکیل دیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انیسویں صدی کے وجودی فلسفے میں ’رومانوی‘ تصور کی جڑوں کو کھوکھلا ظاہر کیا گیا تھا، تو سارتر نے اسے مزید بے معنویت سے دوچار کیا۔ اس میں ہمیں مزید ’’مظہریاتی‘‘(phenomenological) شدت نظر آتی ہے۔ سارتر نے تصور کے جدید فلسفے کو انسان پرست نتائج کی انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ کیئرکیگارڈ کے ایمان کی طرف لپکنے کا مخمصہ مسترد کرتا ہے اور اس کی جگہ انقلابی لادینیت کو دیتا ہے۔ وہ نٹشے کی Amor fati یعنی ’مقدر سے محبت‘ کا معمّا بھی رد کردیتا ہے اور تصور کی موضوعیت کو ’ازلی انکار‘ کا عمل قرار دیتا ہے۔ سارتر کا تصور پر وجودی نکتہ نظر ایک غیر مشروط انسان پرستی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی آخری قسم ہے۔ وجودیت بّرے وقتوں کا ایک فلسفہ ہے۔ اگر یہ کیئر کیگارڈ اور نٹشےکے لیے درست بات ہے تو وجودیوں کی دوسری نسل کے لیے زیادہ درست بات ہے۔ سارتر اور اس کے ہم عصر اپنے وقتوں میں وجود کے معنوں میں بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ سنہرے خواب اور مثالیت پسندوں کی روشن خیالی عالمی جنگ وجدل میں ڈراؤنا خواب بن کر رہ گئی تھی، جنگ نے یورپی تہذیب کو اپنی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ہولوکاسٹ کے بعد تاریخی ترقی پر یقین اور انسانی ضمیر جدید استبدادی سفاکی کے نتائج سے ریزہ ریزہ ہوچکے تھے۔ بیسویں صدی کی وجودیت بُرے حالات کا ردعمل تھی۔ موت اور مصائب کے مطلب بدل کر رہ گئے تھے۔ وجودیت تجریدی نظریات کے کھیل سے کچھ بڑھ کر تھی۔ یہ ٹھوس اظہار تھا اس بات کا کہ حالات انتہائی ہولناک صورت اختیار کرگئے تھے۔ سارتر نے انتقال سے پہلے آخری انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اُسے تیس کی دہائی میں پیرس کے کیفوں میں ٹھوس ’متلی‘ جیسے ’کراہت انگیز‘ تجربات سے گزرنا پڑا، اور یہی تجربات اُس کی تحریروں میں بعدازاں در آئے تھے۔ یہ اعتراف کسی علمی غیر ذمہ داری کی علامت نہ تھا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اُس کی تحریریں ٹھوس زندہ صورتِ حال کی عکاس تھیں۔ سارتر کا فلسفہ تصور اس بات کا جان دار اظہار تھا کہ دورِ جدید کے حالات مایوس کن تھے۔ اس باب میں ہم سارتر کے فلسفہ تصور کا جائزہ لیں گے جو خالصتاً ’حالتِ انکار‘ میں ہے۔ مگر بیسویں صدی کا وہ واحد مفکر نہیں ہے کہ جس نے اس موضوع پرقلم اٹھایا۔ اس عہد کے دیگر دو مفکرین مارٹن ہائیڈگر اور البرٹ کامیو نے اس سلسلے میں گراں قدر کام کیا ہے، جس کا ذکرضروری ہوگا۔
البرٹ کامیو
بیسویں صدی کے وجودیوں میں کامیو غالباً نٹشے کا سب سے بڑا جانشین ہے۔ اس نے وجود کی بے معنویت کا سامنا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مگر اس کا ’یہ سامنا کرنا‘ کسی بھی صورت تخلیقی تصور کے انسان پرست کردار کی اہمیت گھٹانا نہ تھا۔ اپنے مضمون Man in rebellion میں کامیو اس بات پر زوردیتا ہے کہ دنیا کو ’ہاں میں باغی ہوں‘ کہنا اور پھر اسے ازسرنو خلق کرنا ضروری ہے، یہ ایک عظیم فنکار بن جانے جیسا ہے۔ کامیو رومانیت پسندوں سے اختلاف کرتا ہے مگر نٹشے کی طرح انسان کی فطرت میں تخلیقی عمل کو دھوکا نہیں سمجھتا۔ اس کے بہت سے ادبی کام جیسے ’اسٹرینجر‘، ’دی فال‘، ’کیلیگولا‘، اور’پلیگ‘ وغیرہ اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ وہ جدید مغربی تہذیب کی بے معنویت کا واضح شعور رکھتا تھا۔ مگر اس کا ایک فلسفیانہ مضمون The Myth of Sisyphus، جو انیس سو چالیس میں لکھا گیا، اس مضمون کو اُس نے فرانسیسی اور یورپی تباہی کا منظرنامہ قرار دیا۔ کامیو نے براہِ راست عصر حاضر کی بے معنویت کے بحران پر بات کی۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد ’مسئلہ خودکشی کا سامنا‘ کرنا تھا۔
کامیو کے نزدیک بے معنویت سے لڑنے کا واحد صحیح طریقہ آدمی کے ’تخلیقی تصور‘ کی قوت پھر سے بیدار کرنا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ خوش دلی سے یہ تسلیم کرنا بھی ہے کہ تخلیقی عمل اپنی فطرت میں ’خرافات‘ ہے۔ کیونکہ ’تصور کی قوت سے دنیا بدل دینے کی خواہش اور خود کو دنیا کے لیے بدل دینے سے انکار کرنے‘ کا باہم فاصلہ ناقابلِ عبور ہے۔ اس کی تعریف اس طرح کی گئی کہ معنی کے لیے آدمی کی تلاش اور کائنات کی بے معنویت بالکل بے جوڑ باتیں ہیں۔
اس ’فضول‘ وجود کے دو عظیم وکیل دوستووسکی اور یقیناً نٹشے ہیں، کہ جن کا حوالہ کامیو نے متواتر استعمال کیا۔ کامیو نے دوستووسکی کی تحریروں، بالخصوص ’برادرز کرامازوف‘ اور ’دی پوزیسڈ‘ سے یہ سبق سیکھا کہ رومانوی انسانیت پرستی کا مقدر مایوسی ہے۔ دوستووسکی کے واہیات کردار خرافات کی اس دنیا میں ایک عجیب ’حُسنِ سیرت‘ کے ساتھ کمزوری دکھائے بغیر مستقبل کی جانب بڑھتے ہیں۔ ان کا ’حُسنِ سیرت‘ اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ سوچ واضح ہے اور توقع رکھنا ترک کردیا گیا ہے۔ دوستووسکی کا کردار بے مصرف ہستی کی صورت میں سامنے آتا ہے اور نٹشے خالق کا مہمل تصور پیش کرتا ہے۔ کامیو اپنے اس مضمون کے ایک حصے ’تخلیق عبث‘ میں لکھتا ہے:
”دنیا کی بے معنویت کا خاتمہ مابعدالطبعیاتی کارنامہ ہے۔ فتوحات، محبتیں، حماقتیں، بغاوتیں کہ جن پر آدمی خود کو خوب خوب داد دیتا ہے حالانکہ وہ پیشگی شکست خوردہ حالت میں ہوتا ہے۔ جنگ کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ یا تو آدمی اس میں جیتتا ہے یا مرجاتا ہے۔ یہ مکمل حماقت کے ساتھ ہے: یہ اس جنگ وجدل کے ساتھ ساتھ سانس لینے کا، ان سے سبق سیکھنے کا، اور ان میں سے اپنا گوشت پوست بچا لے جانے کا سوال ہے۔ اس معاملے میں جو بہترین حماقت ہوسکتی ہے وہ عملِ تخلیق ہے۔ یہ آرٹ ہے اور آرٹ کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ نٹشے نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ایسا آرٹ ہے کہ سچ کے ہاتھوں مرنے سے بچ جائیں۔“
’وجودی تصور‘ جانتا ہے کہ وجود ایک بے معنویت ہے۔ کامیو لکھتا ہے کہ فنا کی حدوں کے اندر بھی یہ پُرعزم ہے کہ فنا سے ماورا معنی پالے گا۔ اور اس وجودی تصور کو اپنے پیشرو رومانی تصور سے جو بات ممیز کرتی ہے وہ اس کا اس بات پر یقین ہے کہ افسانے محض افسانے ہی ہیں۔ یہ درحقیقت تسلیم کرتا ہے کہ ہر کوشش بے کار ہے، ہر جذبہ بے ثبات ہے، کسی شے کے کوئی حقیقی معنی نہیں۔ یہیں ہے اس کی آزادی۔ ایک منفی آزادی، یقیناً، مگر ہے یہی آزادی۔ وجودیت پرست، جن کی کامیو تحسین کرتا ہے، فرد کی زندگی کو مکمل طور پر فضول قرار دیتے ہیں۔ لایعنیت کے خالق کی عظمت اس حقیقت میں ہے کہ وہ کسی کائناتی سچائی تخلیق کرنے کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں۔ یہ وجودی دیومالائی کہانیاں گھڑنے پر بھی مطمئن رہتا ہے۔ کامیو نے اپنی یہ بات سمجھانے کے لیے ایک دیومالائی قصہ چنا، اور ’تصور کی خرافات‘ واضح کرنے کے لیے مشہور یونانی کردارSisyphus پیش کیا، کہ جس کی دیوتاؤں نے بڑی مذمت کی تھی۔ دیوتاؤں نے سسیفس کو اس لیے بُرا بھلا کہا تھا کیونکہ وہ ایک چٹان کا گولا چوٹی تک دھکیلتا چلا جاتا اور یہ جاننے کے باوجود کہ یہ چٹان لڑھک کر پھر نیچے جاگرے گی وہ یہ حماقت دہرائے جاتا۔ اس کہانی میں ایک ایسے آدمی کی مثال پیش کی گئی ہے جو جان بوجھ کر ایک حماقت دہرائے چلا جاتا ہے، اور ایسا وہ کسی کامیابی کی اُمید پر نہیں کرتا۔ کامیو اس بے معنویت میں خودکشی سے بچنے کی کئی تدبیریں پیش کرتا ہے۔
یہاں اس بے معنویت کے قلب میں کامیو زیادہ عرصہ زندہ رہ جانے کی امید دلاتا ہے۔ سسیفس جانتا ہے کہ اُس کی تقدیر یہی ہے اور اُسے اس سے نباہ کرنا ہے۔ اُس کی لادینیت خداؤں کا مسلسل انکار اور چٹانوں کا مسلسل بوجھ اٹھانا ہے۔ مابعدالطبعیاتی خام خیالیوں ’علتِ اولیٰ‘ اور ’مطلق حقیقت‘ پر تاسف ترک کرنا، اور بہادری سے تقدیر کو سینے سے لگانا ہے۔ کامیو نتیجہ یہ نکالتا ہے:
’’کہیں کوئی تقدیر نہیں کہ جسے حقارت سے سر نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس طرح وہ اس بات کا قائل ہے کہ انسان اپنی اصل میں ایک انسان ہی ہے، ایک اندھا جسے دیکھنے کا شوق ہے، وہ جو جانتا ہے کہ اس رات کی کوئی صبح نہیں، بس چلا جارہا ہے، پتھرلڑھکائے جارہا ہے۔ اونچائیاں سرکرنے کی جدوجہد اپنے اندر آدمی کے دل کی تسکین کے لیے کافی ہے۔“
کامیوکہتا ہے کہ اگرچہ یہ حقیقت میں حماقت ہے، ہمیں لازماً سسیفس کی خوشی کا تصورکرنا چاہیے۔ تصوراور حقیقت کے درمیان یہ اختلاف ہی سارترکی فکر کا مرکز ہے۔ مگرجہاں کامیوتخیلاتی خرافات کی کہانی ادبی پیرائے میں سناتا ہے اوربیشترمثالیں دوستووسکی اورکافکا سے حاصل کرتا ہے وہاں سارتراپنی فلسفیانہ دلیل مظہریاتی اسلوبِ تحقیق سے پیش کرتا ہے۔ یقیناً چوٹی کے ان دو فرانسیسی وجودیوں کے طریقہ تحقیق میں یہ فرق اُن کے انسان پرست پروجیکٹ کی توثیق میں مانع نہیں ہوتا۔ ایک ایسا پروجیکٹ کہ جو ان دونوں دانشوروں کی بحث پر مشتمل ہے، جسے بعد از جنگ ایک مشہور رسالے Temps Modernes میں شائع کیا گیا، ان کے خیالات جو کہ ہمیشہ ہم آہنگ نہ تھے مگردونوں مزاحمتی انقلابی سیاست کے حامی تھے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بے معنی دنیا میں جدوجہد کے تصورپرایک نکتہ نظرکے پابند تھے۔
ہائیڈگر
سارتر کا فلسفہ تصور بڑی حد تک جرمن مظہریاتی وجودیت کے بانی مارٹن ہائیڈگر سے متاثر ہے۔ یہ واضح طور پر سارتر کے ابتدائی کام The Psychology of Imagination (1940) میں نظرآتا ہے، اورBeing and Nothingness میں بھی پایا جاتا ہے۔ سارتر نے ہائیڈگر کو متواتر نقل کیا ہے، اُس کی کتاب Being and Time سے بہت مدد لی ہے، کہ جس میں گوکہ فلسفہ تصور نمایاں موضوع نہیں ہے۔ تاہم یہ معمّا اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے کہ بینگ اینڈ ٹائم کے تصورDasein پر پلٹ کر گہری نظرڈالی جائے۔ یہاں ہائیڈگر نے اعتراف کیا ہے کہ کانٹ کے ’ماورائی تصور‘ کی ’وجودی‘ تشریح کی گئی ہے۔ یہ اعتراف ہائیڈگر نے کتاب کے آخری حصے Kant and the Problem of Metaphysics میں کیا ہے، جہاں وہ یہ نکتہ اٹھاتا ہے کہ کانٹ کا تصور پر تجزیہ سمجھنا اس بات پر منحصر ہے کہ یہ جانا جائے کہ کانٹ کہنا کیا چاہتا ہے، بجائے اس کے کہ جو کچھ اس نے واقعی کہا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی شرح پیش کرتا ہے۔ ہائیڈگر کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ کار ضروری تھا تاکہ کانٹ کے مثالیت پسند تجزیے کو مناسب طور پر ’وجودی‘بنا دیا جائے۔ ہائیڈگر لکھتا ہے:
’’کانٹ کی مابعدالطبعیات کی بنیاد ہمیں ماورائی تصور کی جانب لے جاتی ہے۔ یہ حس اور فہم کی جڑسے پھوٹتی ہے۔ اس طرح یہ الٰہیاتی مرکب تجزیہ ممکن بناتی ہے۔ ہائیڈگر کہتا ہے کہ اس ’جڑ‘ کا بیج زمانہ قدیم میں بویا گیا تھا جسے کانٹ نے ’زماں‘ کی بنیاد بنایا ہے۔ جہاں تک وجود کا سوال ہے یہ مابعدالطبعیات میں بنیادی ہے، یہ سوال ’وجود‘اور ’وقت‘کا ہے۔“
ہائیڈگر تصور کے عارضی پن کی دریافت کا ربط وجود کے مابعدالطبعیاتی اندھے کنویں کی دریافت سے جوڑتا ہے۔ وجود کی بے معنویت جو وجودیت کا قلب ہے ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے کانٹ کو چوٹ تو پہنچی ہے مگر وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔ کانٹ اُس حقیقت سے گریز کرگیا جس کا انکشاف اس نے خود کیا تھا، جسے ماورائی تصور کہتے ہیں۔ بقول ہائیڈگر یہ وہ فلسفیانہ فکر تھی جس نے مابعد الطبعیات کی بنیاد کا کھوکھلا پن نمایاں کیا تھا اور ہمیں میٹا فزکس کی اتھاہ کھائی کے منہ پر لا کھڑا کیا تھا۔
Dasein کی بنیادی الٰہیات بینگ اینڈ ٹائم میں ایک ایسی کوشش کے طور پر پیش کی گئی ہے جو پاتال کی گہرائیوں میں اترجاتی ہے۔ تاہم ہائیڈگر سمجھتا ہے کہ تصور کا ماورائی سے وجودی تناظر میں چلے جانا اصطلاح میں تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے تصور کی اصطلاح بدل دی کہ جس کے بارے میں اس کا گمان تھا ضرورت سے زیادہ مابعدالطبعیاتی باور کرلی گئی تھی۔ اِس کی جگہ اُس نے Dasein کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب تصور کی عارضی حالت کا بیان ہے۔ ہائیڈگر نے اس کے لیے مثالیت پسند اور رومانوی خاصیتوں کے استعمال سے گریز کیا، کہ جن کا کانٹ اور اس کے بعد آنے والوں نے استعمال کیا ہے۔ اس تبدیلی کے بعد ہائیڈگر اس قابل ہوا کہ آدمی کے وجود کی عارضی سرگرمی کی وضاحت کرے جو موت کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کا پروجیکٹ بے معنویت سے عدمیت کی جانب سفر ہے۔ وہ اس قابل ہوا کہ تخلیقی تصور رکھنے والے آدمی کی ’انسانی‘ بے وقعتی واضح کرے اور اُسے آسمان سے زمین پر لے آئے۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ ہائیڈگر کا ایک اہم ہدف یہ تھا کہ حقیقت کو زمینی حقیقت بنادے، یہ کہ آدمی کی کوئی زمینی حقیقت نہیں۔ ہائیڈگر آدمی کی قوتِ تصور کے خاتمے کی پیش بینی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: آدمی ختم تصور ختم۔ یہاں سے ہائیڈگر تصور کے ’جدید‘ نظریے سے ’تصور‘ کے مابعد جدید نظریے ’ساختیت‘ (Deconstruction) کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ تاہم سارتر نے ہائیڈگر کے بعد بھی ’انسان پرستی‘ کو ایک انتخاب کے طور پر باقی رکھا ہے۔ اس کا ’مظہریاتی‘ تصور ایک آخری کوشش تھی اس بات کی کہ جدید فلسفے میں بشریاتی بنیادوں پر تخلیقی تصور کو زندہ رکھ سکے۔ وہ ہائیڈگر سے اتفاق کرتا ہے کہ تصور ’بے معنی‘ ہے، اور یہ بے معنویت ’کچھ نہیں‘ ہے۔ سارتر انسان پرستی کے اس بنیادی خیال میں اپنے استاد کے ساتھ کھڑا ہے کہ آدمی اپنے آغاز اور انجام میں بس ’آدمی‘ ہی ہے۔ اختلاف بھی جہاں ہے واضح ہے کہ سارتر اپنی کتاب Existentialism میں ’انسان‘ کی مکمل بالادستی کا دفاع کرتا ہے، جب کہ ہائیڈگرLetter on Humanism میں اس کے خلاف دلیل دیتا ہے۔ (جاری ہے)