خیبر پختون خوا:امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال

خیبر پختون خوا کے گزشتہ کئی ماہ سے دہشت گردی کے واقعات سے دوچار جنوبی ضلع لکی مروت میں دہشت گردی کے حالیہ دو الگ واقعات میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) سمیت تین پولیس اہلکار شہید اور ایک کانسٹیبل شدید زخمی ہوگیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس کے عیدالفطر سے قبل شاہراہوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے پشاور کراچی شاہراہ پر عارضی ناکہ بندی پوائنٹ کے قریب کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز گل محمد مع گن مین مذکورہ ناکہ بندی پوائنٹ سے واپس آرہے تھے کہ میجی والا چوک کے قریب مسلح افراد نے اُن کی گاڑی پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی گل محمد اور کانسٹیبل نیم گل شہید ہوگئے، جبکہ کانسٹیبل فاروق خان شدید زخمی ہوئے۔ شہید اور زخمی پولیس اہلکاروں کو سرائے نورنگ کے تحصیل ہیڈکوارٹرز اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے فاروق کو شدید زخموں کی وجہ سے پشاور کے اسپتال ریفر کردیا گیا۔ میجی والا چوک کے قریب آدھی رات کو ہونے والے اس حملے سے قبل مذکورہ شہید ڈی ایس پی نے تراویح کے وقت شہر میں بنوں میانوالی روڈ کے لکی در ونگ سیکشن پر گشت کیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہے جس میں ڈی ایس پی گل محمد، ایس ایچ او سید ایاز اور دیگر پولیس اہلکاروں کو مشتبہ کار و موٹر سائیکل سواروں کو چیک کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مقتول پولیس افسر کا تعلق ضلع بنوں سے تھا اور انہیں تین ہفتے قبل ہی لکی مروت میں تعینات کیا گیا تھا۔ اسی رات ایک الگ حملے میں کانسٹیبل صنامت خان ضلع لکی مروت کے علاقے سرہ درگہ میں گھر کے قریب نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ وہ شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں تعینات تھے اور چھٹی پر گائوں آئے تھے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان دونوں واقعات میں حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، تاہم پولیس نے ان کی تلاش شروع کردی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ڈی ایس پی گل محمد پر دریائے کرم کے قریب علاقے میں حملہ کیا گیا جس کے ساتھ گھنے جنگل درگہ واقع ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں سیکورٹی فورسز اور پولیس نے جنگل کو محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیا تھا جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 12 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ تازہ ترین حملے سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گردوں نے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے جنگل اور بنوں ڈویژن کے دیگر حصوں میں دوبارہ اپنے قدم مضبوط کرلیے ہیں۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ملحقہ سابقہ بندوبستی اضلاع ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور لکی مروت میں پچھلے ڈیڑھ دو سال سے بدامنی کی جو نئی لہر آئی ہوئی ہے اس نے پوری سول و عسکری انتظامیہ کو پریشان کررکھا ہے۔ اس حوالے سے ایک پریشان کن امر یہ بھی ہے کہ پچھلے دنوں صوبے کے شمالی ضم شدہ قبائلی ضلع باجوڑ میں بھی ایک آئی ڈی بم دھماکے میں ایک اے ایس آئی شہید اور ایک سپاہی شدید زخمی ہوگیا ہے۔ شہید ہونے والے اے ایس آئی بخت زادہ کی نماز جنازہ پولیس لائن باجوڑ میں پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ میں کمانڈنٹ باجوڑ اسکاؤٹس بریگیڈئیر محسن جاوید، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر باجوڑ سجاد احمد، سول انتظامیہ و پولیس افسروں اور دیگر مختلف مکاتیبِ فکر کے افراد نے شرکت کی۔ شہید کی میت کو پولیس کے سلیش اسکواڈ کے ہمراہ آبائی علاقے روانہ کیا گیا جہاں پر ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی۔

دریں اثناء بشام ضلع شانگلہ میں ایک ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز پر حملے کے کیس میں ڈائریکٹر سیکورٹی داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور کمانڈنٹ اسپیشل سیکورٹی یونٹ خیبر پختون خوا کے خلاف بھی وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے بشام حملے پر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے، چینی باشندوں کی سیکورٹی کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ ایک بیان میں عطا تارڑ نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں وزیراعظم نے آر پی او ہزارہ ڈویژن سمیت چند افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی پی او اپر کوہستان ڈسٹرکٹ اور ڈی پی او لوئر کوہستان ڈسٹرکٹ کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر سیکورٹی داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور کمانڈنٹ اسپیشل سیکورٹی یونٹ خیبر پختون خوا کے خلاف کارروائی کا پہلے ہی حکم دیا جاچکا ہے۔ انکوائری میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض میں غفلت برتی، ان کو الرٹ ہونا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے، ہم خطے میں امن چاہتے ہیں، اس خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہمارے حوصلے بلند ہیں، کسی کو امن تباہ نہیں کرنے دیں گے۔

واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں جاری بدامنی کی تازہ لہر میں گزشتہ دنوں اُس وقت مزید شدت دیکھنے میں آئی جب16 سے 26 مارچ کے درمیان دس دنوں میں پاکستان کے پانچ مختلف علاقوں میں پانچ مختلف حملے کیے گئے جن میں سے تین صوبہ خیبر پختون خوا اور دو صوبہ بلوچستان میں ہوئے، جن کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور دو درجن کے قریب زخمی ہوئے۔ ان پانچوں حملوں میں سب سے خطرناک اور اندوہناک واقعہ بشام میں پیش آیا جو کہ ایک مبینہ خودکش بم دھماکہ تھا، جس میں پانچ چینی انجینئر اور ایک پاکستانی شہری جاں بحق ہوا۔ تجزیہ کار اس تازہ ترین حملے کو مسلح گروپوں کی جانب سے سیکورٹی اداروں اور غیر ملکیوں کے خلاف جاری جنگ میں ایک نئے موڑ کا اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ پے درپے انتہائی تیز اور منظم انداز میں ہونے والے آخری تینوں حملوں میں چینی مفادات کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں کی پہلی کڑی کے طور پر سب سے پہلے مسلح جنگجوؤں نے بلوچستان میں چین کی مدد سے زیر تعمیر گوادر بندرگاہ پر حملہ کیا، اس کے بعد ایک مسلح گروپ نے بلوچستان کے ساحل پر واقع پاکستان کے سب سے بڑے بحری اڈوں میں سے ایک پر حملہ کیا، جب کہ اس سلسلے میں تیسرے حملے میں جنگجوؤں نے بشام کے قریب چینی فنڈ سے چلنے والے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے پانچ چینی انجینئرز اور ایک پاکستانی کو نشانہ بنایا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرز کے حملوں نے پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ پاکستان میں چینیوں پر حملے ملک کے اقتصادی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے ایک ”بڑے منصوبے“ کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ چین پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک ہے اور اُس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں 62 بلین ڈالر کی کثیر سرمایہ کاری کی ہے۔

چینی کارکنوں پر بشام میں ہونے والے حالیہ حملے پر ماضی کے اسی طرح کے حملوں کے برعکس چین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے علاوہ چینی دفتر خارجہ نے بھی پاکستان سے اس واقعے کی جلد از جلد مکمل تحقیقات اور مجرموں کو پکڑکر انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

چین کے اس مطالبے کے جواب میں پاکستانی حکومت نے جہاں ان حملوں کی مزید جانچ کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا اعلان کیا ہے وہاں چینی اعلیٰ حکام کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اس حملے میں ملوث دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور معاونت کرنے والوں کو ہر حال میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں چینی مفادات پر ماضی میں بھی بارہا حملے ہوتے رہے ہیں۔ دو مسلح افراد نے گزشتہ سال اگست میں بھی گوادر میں 23 چینی انجینئرز کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا، تاہم اس حملے کو سیکورٹی حکام نے ناکام بنادیا تھا۔ جولائی 2021ء میں ایک ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے کم از کم 9 چینی انجینئر اُس وقت مارے گئے تھے جب ایک خودکش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل اُن کی بس سے ٹکرا دی تھی۔

چینیوں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے حوالے سے یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے اکثر واقعات کی ذمہ داری باغی علیحدگی پسند گروپ قبول کرتے رہے ہیں، جب کہ خیبرپختون خوا میں ہونے والے حالیہ حملے سمیت کسی بھی حملے کی ذمہ داری کسی بھی دہشت گرد گروپ نے قبول نہیں کی، البتہ سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے مختلف گروپ قبول کرتے رہے ہیں جن میں حالیہ حملے بھی شامل ہیں جنہیں پاکستان کی جانب سے شمالی وزیرستان کے ساتھ افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں کی جانے والی فضائی بمباری کا ردعمل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ نظریاتی طور پر افغان طالبان کے ساتھ منسلک ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے اور اس خطے میں اسلامی قوانین کی اپنی تشریح کو سختی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف یک طرفہ طور پر نومبر 2022ء میں اپنی خودساختہ جنگ بندی ختم کرتے ہوئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر اپنے حملوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے اس نے صوبے کے جنوبی اضلاع میں سیکورٹی فورسز کو متعدد حملوں میں نشانہ بنایا ہے۔ پاکستانی سیکورٹی ذرائع کا خیال ہے کہ پاکستان مخالف عسکریت پسند گروپوں کو دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں، بالخصوص بھارت استعمال کرتا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بشام حملہ ٹی ٹی پی سے وابستہ کسی عسکری دھڑے کی کارروائی ہوسکتی ہے جسے واضح طور پر پاک چین تعلقات کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ البتہ یہ بات حیران کن ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن دوسری جانب یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ہوسکتا ہے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے یہ تردید جاری کرنی پڑی ہو، کیونکہ ٹی ٹی پی کے لیے افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ عندیہ جانا ضروری تھا کہ وہ چینیوں کو نشانہ بنانے کی مخالف ہے۔ اس تمام بحث سے قطع نظر یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان مخالف تمام قوتیں جہاں پاکستان اور اس کی سیکورٹی فورسز کے خلاف ففتھ جنریشن وار کا آغاز کرچکی ہیں، وہیں یہ قوتیں عملاً بھی پاکستان میں بدامنی کو فروغ دے کر اس کے اقتصادی اور سیاسی استحکام کو ہرممکن طور پر غیر مستحکم کرنے کے درپے ہیں۔