صوبہ سندھ، حکومت کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ طویل عرصے سے بدامنی کی شدید ترین لپیٹ میں ہے اور ایک طرح سے بدامنی کی ایسی بدترین آماج گاہ بن چکا ہے جہاں پر کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ لکھنے والے اس حوالے سے لکھ لکھ کر صفحات کے صفحات سیاہ کرچکے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر بولنے والوں کے، بدامنی سے متعلق مسلسل پروگرامات کرکے گلے تک خشک ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے کہ گزشتہ16 برس سے سندھ پر حکمرانی کرنے والی پی پی پی کی حکومت کے ذمہ داران پر اس کا ذرہ برابر بھی کوئی اثر محسوس ہوتا دکھائی دے رہا ہو۔ سوشل میڈیا پر بھی سندھ میں جاری شدید ترین بدامنی کی لہر کے خلاف مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے، لیکن اس کا نتیجہ بھی وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کے مصداق ہی برآمد ہورہا ہے۔ جب حکمران بے حس اور ڈھیٹ بن جائیں، بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی کے بدعنوانی اُن کا اوڑھنا بچھونا بن جائے تو پھر ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں ویسی ہی بدامنی اور افراتفری کی صورتِ حال جنم لیتی ہے جو آج وطنِ عزیز کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں سوائے حکمران طبقے کے ہر ایک کو دکھائی دے رہی ہے، بلکہ اس کی وجہ سے تمام اہلِ سندھ بری طرح سے متاثر ہیں۔ پہلے تو بڑی عمر کے افراد سماج دشمن عناصر کی بے رحمانہ کارروائیوں جن میں قتل اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی شامل ہیں‘کا نشانہ بنا کرتے تھے، لیکن اب معصوم پھول جیسے کم سن بچے اور بچیاں بھی مجرمانہ ذہنیت کے حامل عناصر کے نشانے پر ہیں۔ اس نوع کے بہ کثرت سانحات کی رپورٹیں آئے دن سندھی اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آتی رہتی ہیں جو ہر صاحبِ دل انسان کا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے اغوا برائے تاوان، قتل اور ان پر کیے گئے ظلم اور زیادتی کے واقعات سندھ کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی مانند ہیں۔ بچے تو معصوم اور فرشتہ صفت ہوا کرتے ہیں اور انہیں قتل کرنے والے بلاشبہ وحشی اور جانور صفت ہوتے ہیں جن کا کوئی دین، ایمان یا عقیدہ نہیں ہوتا۔
المیہ یہ ہے کہ عیدالفطر کے دن بھی ٹھارو شاہ کے علاقے میں ایک 8 برس کی معصوم بچی دعا سولنگی کو زیادتی کے بعد بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ جیکب آباد سے تقریباً 5 ماہ قبل دس سالہ معصوم بچی حسینہ کھوسو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کردی گئی جس کے قاتل تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ ماہ مارچ میں گاجی کھاوڑ ضلع قنبر شہدادکوٹ سے اغوا کے بعد زیادتی اور قتل کا نشانہ بننے والی 12 سالہ معصوم شبیراں کھوسو کے نامعلوم قاتل بھی ابھی تک کیفر کردار کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو میڈیا کی زینت بننے کی وجہ سے منظرعام پر آجاتے ہیں، ورنہ نامعلوم ہر دن رونما ہونے والے کتنے ہی اس نوع کے سانحات سامنے آنے سے رہ جاتے ہیں۔
رانی پور ضلع خیرپور میرس میں پیروں کی حویلی میں بڑی بے رحمی کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی معصوم 12 سالہ فاطمہ کے بااثر قاتل بھی تاحال اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکے ہیں اور اہلِ سندھ اس سانحے سے متعلق بھی شدید خدشات سے دوچار ہیں کہ کہیں فاطمہ نامی مقتولہ بچی کا بے رحمانہ قتل بھی ناظم جوکھیو کے قتل کی مانند رائیگاں نہ چلا جائے اور بااثر قاتل مقتولہ کے اہلِ خانہ کو دبائو اور ترغیب و تحریص جیسے ہتھکنڈوں سے رام کرکے مذکورہ کیس سے دست بردار ہی نہ کرا دیں۔
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر 11 بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی جس میں جنسی استحصال، اغوا، مارپیٹ وغیرہ شامل ہیں، اور ان واقعات میں سندھ کا تناسب 13 فیصد بنتا ہے۔
سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل کے گوٹھ گڑھی حسن سرکی سے 17 برس قبل ایک معصوم دس سالہ بچی فضیلہ سرکی اغوا کرلی گئی تھی جس کے اغوا کا الزام اُس کے والدین نے بدنام زمانہ ڈاکو بڈھو سرکی پر عائد کیا تھا۔ افسوس کہ مذکورہ بچی اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال بازیاب نہیں کروائی جاسکی ہے، اور اس کی بازیابی کے لیے آئے دن اس کے غم زدہ والدین کبھی جیکب آباد، کبھی سکھر میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک طرح سے اپنی مغوی بیٹی کی جدائی میں اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھے ہیں۔اسی طرح سے جیکب آباد شہر سے 8 ماہ قبل اغوا ہونے والے 8 برس کے معصوم بچے نوید لاشاری کو بھی پولیس تاحال بازیاب نہیں کروا سکی ہے، جس کی بازیابی کے لیے بچے کے ورثا اکثر مقامی پریس کلب پر احتجاج اور بھوک ہڑتال میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
یہ تمام واقعات اپنی جگہ پر بلاشبہ المناک ہیں، لیکن اس وقت سندھ بھر میں سب سے زیادہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہائی پروفائل کیس 10 سالہ معصوم بچی پریا کماری کا بنا ہوا ہے جو 19 اگست 2021ء کو سنگرار روہڑی ضلع سکھر سے 10 محرم الحرام کے دن عزا داران کو پانی پلاتے ہوئے لاپتا ہوگئی تھی جس کا آج تک سراغ نہیں مل سکا ہے کہ معصوم بچی آخر کہاں چلی گئی ہے؟ اسے زمین کھا گئی ہے یا پھر آسمان نگل گیا ہے؟ معصوم بچی کی جدائی کے غم میں اُس کے دل گرفتہ والد راج کمار اور والدہ یکسر نڈھال ہوچکے ہیں۔سندھ بھر میں سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مسلسل پُرزور احتجاج کے بعد حکومتِ سندھ کو بھی بالآخر ہوش آ ہی گیا اور ماہ ِاپریل 2024ء کے اوائل میں مجبور ہو کر صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن نے لاپتا بچی پریا کماری کی بازیابی اور تلاش کے لیے ڈی آئی جی میرپورخاص جاوید جسکانی کی سربرابی میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے جو تین ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی، لیکن اس کے فوراً بعد گم شدہ بچی کے والد راج کمار نے ہندو پنچایت کے مُکھی ایشور لعل اور دیگر کے ساتھ منعقدہ ایک پریس کانفرنس میںیہ مطالبہ کرڈالا کہ انہیں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی پر شدید تحفظات ہیں لہٰذا مذکورہ کمیٹی میں عدلیہ کو بھی شامل کیا جائے۔ دریں اثنا سندھ بھر میں اس حوالے سے پی پی پی کے رہنما اور سکھر سے منتخب شدہ ایم این اے خورشید شاہ کے اس بیان کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں انہوں نے بے رحمی سے کہا ہے کہ اس ایشو کو بلاوجہ ہی اچھالا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ پولیس نے اس کیس کو ایک بلائنڈ کیس قرار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بھی بچی کی بازیابی کا حکم دے چکے ہیں۔ امریکن رکن کانگریس براڈ شرمین کی جانب سے اقوام متحدہ میں بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے۔