ہمارے انگریزی اخبارات میں اسلام، مسلمانوں کی تاریخ اور مسلمانوں اور مغرب کے باہمی تعلقات کے بارے میں شائع ہونے والی اکثر تحریروں میں دو خامیاں ضرور ہوتی ہیں: (1) صحیح تناظر کا فقدان، اور (2) سطحیت۔ اور یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی جہاں صحیح تناظر نہیں ہوگا وہاں سطحیت ضرور ہوگی۔ لیکن انگریزی کا معاملہ تجریدی آرٹ والا ہے، یعنی تجریدی آرٹ کے نمونے میں خواہ کچھ بھی نہ ہو لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہے، اور جو کچھ ہے وہ بہت اہم اور کسی نہ کسی قسم کی عظمت سے ہم کنار ہے۔ اس کے برعکس اردو کا معاملہ یہ ہے کہ خواہ آپ آسمان سے تارے توڑ لائیں لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ کہنے والے نے کچھ نہیں کہا ہے۔ آخر اردو میں کہا ہی کیا جاسکتا ہے؟ تہذیب کا غلبہ اسی کو کہتے ہیں۔
پروفیسر شریف المجاہد مطالعہ پاکستان کے ممتاز اسکالر تھے، ان کا شمار اُن چند لوگوں میں ہوتا تھا جو حقیقی معنوں میں قائداعظم پر اتھارٹی قرار دیے جائیں۔ اگرچہ پروفیسر صاحب مطالعہ پاکستان کے آدمی تھے لیکن وہ گاہے گاہے بعض اہم موضوعات پر بھی اظہارِ خیال کرتے رہتے تھے۔ کراچی کے ایک انگریزی روزنامے میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا۔ مضمون کا نہ صرف یہ کہ موضوع اہم ہے بلکہ وہ ان دونوں خامیوں سے بھی کسی حد تک پاک ہے جن کا ذکر ہم نے مذکورہ سطور میں کیا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’مسلم فکر کو درپیش چیلنج‘‘۔ مضمون خاصا طویل ہے، اس لیے اس پر بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔
شریف المجاہد صاحب کے خیال میں اِس وقت مسلم فکر کو سب سے اہم چیلنج ’’جدیدیت‘‘ کا درپیش ہے، جس کا اہم ترین مظہر جدید ذرائع ابلاغ کی وہ صورتیں ہیں جو عالمی صورت اختیار کرکے ہم پر حملہ آور ہوچکی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے جدیدیت کے مظاہر کی ایک چھوٹی سی فہرست بھی مرتب کی جس میں بیوٹی پارلروں سے لے کر میکڈونلڈ اور کے ایف سی ریستوران تک کئی چیزیں شامل ہیں۔ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ ابھی ان چیزوں کا اثر محدود ہے، لیکن آنے والے وقت میں یہ معاشرے کے نچلے طبقات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیں گی۔ شریف المجاہد صاحب نے دو اور چیلنجوں کی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ آنے والے وقت میں انسانی حقوق اور خواتین سے متعلق معاملات زیادہ اہم ہوجائیں گے کیوں کہ مغربی دنیا کے ایجنڈے میں ان امور کو بنیادی اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا یہ تبصرہ نقل کیا تھا کہ مغرب 1970ء کی دہائی میں اس سلسلے میں اخلاقی دبائو استعمال کررہا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں بات اقتصادی دبائو تک جا پہنچی، اور 1990ء کی دہائی میں نوبت یہ آگئی کہ مغرب اس ضمن میں فوجی کارروائیاں شروع کرچکا ہے۔ چنانچہ پروفیسر صاحب کا خیال تھا کہ ہمیں اس سلسلے میں اپنے معاملات کو یقینا بہتر بنانا ہوگا۔ پروفیسر صاحب نے اس امر کی مناسب انداز میں نشاندہی کی کہ مغرب انسانی حقوق اور خواتین کے معاملات کے سلسلے میں دہرے معیارات کا حامل ہے، لیکن ان کا خیال تھا کہ ہمیں مغرب سے معاملات کرنے ہیں، اور یقینا کرنے ہیں تو ہمیں اس پر توجہ دینی ہوگی۔ ان کا خیال تھا کہ خود اسلام میں انسانی حقوق کا جامع تصور موجود ہے اور ہمیں جدید محاورے استعمال کرتے ہوئے اس تصور کو اجاگر کرکے مغرب کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ شریف المجاہد صاحب کے خیال میں مسلمانوں نے آخرت، جنت، دوزخ اور جزا و سزا پر بہت زور دے لیا، اب انہیں حاضر، موجود اور حال کو اہمیت دینی چاہیے اور یہ بات اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہوگی، کیوں کہ اسلام میں اگر روزِ محشر سوال جواب کا تصور موجود ہے تو اس میں دنیا میں مکافاتِ عمل کا تصور بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اللہ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بناکر بھیجا اور اسلام ایک متوازن معاشرے کے قیام پر بہت زور دیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول اس تناظر میں مسلمانوں کو مادّی ترقی، پیشہ ورانہ مہارت اور سماجی مرتبے میں بلندی کو ہدف بنانا چاہیے۔ ان کے بقول اسی طرح اسلام کا انسانی چہرہ (Human Face) سامنے آسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے خیال ظاہر کیا کہ مسلمانوں نے ہر دور میں درپیش چیلنجوں کا جواب دیا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے امام غزالی، سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کو ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول غزالی نے یونانی فلسفے کے چیلنج کا جواب دیا۔ سرسید نے ثابت کیا کہ اسلام جدید سائنس سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ اقبال نے خطبات میں مغربی فکر کے چیلنجوں کا جواب پیش کیا۔ شریف المجاہد صاحب کے بقول مسلمانوں نے ہمیشہ چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے چیلنج کی نوعیت پر عبور حاصل کیا۔ غزالی نے یونانی فکر کا جواب دینے کے لیے یونانی فلسفے پر قدرت حاصل کی۔ مسلمانوں کو آج بھی یہی کرنا ہوگا۔ انہیں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت پیدا کرنی ہوگی۔ جدید محاوروں کو سمجھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر وہ عہدِ حاضر کے چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا مسلمان جدید چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں گے؟ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب کے امکانات سے مایوس تھے، اور اس سلسلے میں انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کی یہ رائے نقل کی کہ مسلمانوں میں مذہبی اور جدید فکر کے ماہرین ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے بارے میں تو بات کرسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے۔
اس تفصیلی خلاصے کو دیکھیے تو اس میں معلومات بہت ہیں، نکات اور زاویوں کی بھی کمی نہیں، اس پر سطحیت کا الزام لگانا بھی دشوار ہے۔ البتہ تناظر کی صحت اچھی نہیں۔ اسی لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ مضمون زیر بحث موضوع پر انگریزی میں لکھے جانے والے اکثر مضامین کی دو خامیوں سے ’’کسی حد تک‘‘ پاک ہے۔ لیکن اس ’’رعایت‘‘ کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی سانس اکھڑتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ شریف المجاہد صاحب کا انفرادی یا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ ایک ذہنی سانچے (Mind Set) کا مسئلہ ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے؟ دیکھیے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو صاحب غزالی اور سرسید کو ایک صف میں کھڑا کردیں اُن کے تناظر کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مغرب میں بعض اہم لوگوں نے غزالی کو اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت قرار دیا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اگر اسلامی تاریخ کی تین عظیم ترین شخصیتوں کی فہرست مرتب کی جائے تو غزالی بھی ان میں سے ایک ہوں گے، لیکن اصل بات یہ نہیں ہے کہ غزالی کی فکری عظمت بہت بلند ہے اور اس کے مقابلے میں سرسید کی فکری عظمت بہت چھوٹی سی چیز ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ غزالی نے یونانی فلسفے کے چیلنج کا جواب یونانی فلسفے کی خامیوں، کوتاہیوں اور نارسائیوں کو نمایاں کرکے دیا۔ لیکن سرسید کی تو ساری کدو کاوش یہ تھی کہ وہ کسی طرح ثابت کردیں کہ اسلام مغرب کی فکر کے عین مطابق ہے۔ گویا سرسیدکے نزدیک اصل چیز مغربی فکر اور اس کے اصول ہیں۔ یہی اصول ان کے لیے پیمانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزالی چیلنج کا جواب دینے کے لیے اپنی فکر اور اپنے اصولوں سے ایک انچ نہیں ہلتے‘ لیکن سرسید تو اپنی ہر چیز مغرب کے حوالے کردیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غزالی اور سرسید میں کوئی قدر مشترک ہی نہیں۔ یہ بات کہ غزالی نے بھی ایک چیلنج کا جواب دیا اور سرسید نے بھی ایک چیلنج سے نبرد آزمائی کی‘ دونوں کو ایک سطح پر کھڑا نہیں کرسکتی۔ ان میں تناظر کے اعتبار سے بُعد قطبین ہے۔ تناظر کے اس فرق کو ہم غزالی اور سرسید کی فکری کاوش کے نتائج میں بھی صاف دیکھ سکتے ہیں۔ غزالی کی ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے سارٹن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک طرح کی رجعت پسندی اور فلسفے کے خلاف شدید ترین تخریبی کارروائی تھی اور اس سے مسلمانوں میں ’’فکری ارتقا‘‘ کے داعیے کا بیج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مارا گیا۔ اس کے برعکس مسلم مدبرین اور مغرب کے اہلِ نظر اس امر پر متفق ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں میں مغرب پرستی اور مغرب زدگی کے ہر رجحان کی جڑیں سرسید کی فکر میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید کو غزالی کے ساتھ کھڑا کرنا غزالی اور سرسید دونوں کے ساتھ زیادتی ہے، اور اس زیادتی کا ارتکاب کرنے والے کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا اسے اس مسئلے کی نوعیت کا فہم ہے؟
شریف المجاہد نے یہ بالکل ٹھیک کہا کہ ’’جدیدیت‘‘ کا چیلنج ہی آج کا چیلنج ہے۔ انہوں نے اس چیلنج کے مظاہر کی نشاندہی بھی بالکل ٹھیک ٹھیک کی اور ان کا یہ خیال بھی درست ہے کہ ان مظاہر کا اثر ابھی محدود ہے لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا یہ مظاہر معاشرے کی نچلی سطحوں تک نفوذکرتے چلے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جدیدیت خالی خولی مظاہر ہی پرمشتمل ہے؟ اس کے پیچھے کوئی فکر بھی تو ہوگی۔ شریف المجاہد صاحب نے اس فکر کی نشاندہی نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جدیدیت کی پشت پر کارفرما فکر اور اس کے ایجنڈے کو سمجھے بغیر، یا اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کیے بغیر مختلف مظاہر کو رد یا قبول کرنے سے کیا ہوگا؟ کیا یہ کوئی معقول بات ہوگی اور کیا اس طرح چیلنج کا جواب دیا جاسکے گا؟ اس طرح تو نہ چیلنج باقی رہے گا اور نہ چیلنج کا جواب دینے کی کوئی خاص ضرورت محسوس ہوگی۔
جدیدیت کی پشت پر اگر کوئی فکر موجود ہے تو ہمیں بتانا ہوگا کہ یہ فکر مذہبی ہے یا غیر مذہبی؟ اور ہم اسے رد کرتے ہیں یا قبول کرتے ہیں؟ فرض کیجیے کہ ہم اس فکر ہی کو رد کردیتے ہیں اور اس بنیاد پر رد کرتے ہیں کہ وہ مذہب دشمن فکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اس فکر کے مظاہر کے بارے میں ہمارا کیا رویہ ہوگا؟ شریف المجاہد صاحب کو اس امر پر بہت تشویش تھی کہ جگہ جگہ بیوٹی پارلر کھل رہے ہیں، میکڈونلڈ اور کے ایف سی کی ’’دکانیں‘‘ کھل رہی ہیں، پاپ میوزک اور پاپ اسٹارز مقبول ہورہے ہیں۔ پروفیسر صاحب ان کی راہ تو روکنا چاہتے تھے لیکن انہیں مادّی ترقی بہت عزیز تھی۔ وہ مغرب سے آنے والی سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی رد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اب ہم اپنے بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ہیں۔ اس عہد کا اہم ترین چیلنج جدیدیت ہے اور اس کی پشت پر ایک غیر مذہبی فکر کام کررہی ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہم اس فکر کے بعض مظاہر کو سطحی اور اتھلا قرار دے کر رد کرتے ہیں لیکن اس کے بعض دیگر مظاہر کو عین اسلام سمجھتے ہوئے سینے سے لگانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ ہم ایک فکر کے بعض مظاہر کو تو قبول کرلیں اور بعض کو رد کردیں! کیا کسی مربوط فکر سے ایسے مظاہر کا صدور ممکن ہے جن میں سے بعض مظاہر تو درست ہوں اور بعض غلط؟ کیا کسی ایک فکری سرچشمے میں زہرِ ہلال اور امرت دھارا یکجا ہوسکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے شاید ان باتوں پر غور نہیں کیا، اور یہ ڈاکٹر صاحب ہی پر موقوف نہیں، وہ جس ذہنی سانچے کی نمائندگی کرتے ہیں اس کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ اصولوں اور مبادیات کو نظرانداز کرکے ثانوی باتوں پر غور کرتا ہے۔ کلیات کو نظرانداز کرکے جزیات کو اہمیت دیتا ہے۔
مسلمانوں کے بارے میں نہ جانے کیوں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ وہ دنیا کو اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ مسلمانوں کی اکثریت عرصے سے دنیا پرستی کے سوا کچھ کر ہی نہیں رہی۔ البتہ ان پر یہ اعتراض ضرور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اچھے دنیا پرست نہیں ہیں، وہ دنیا پرستی کی اتھلی سطح پر زندہ ہیں۔ اس بات کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان Producer نہیں ہیں‘ صرف Consumer ہیں۔ یہ واقعی افسوس ناک بات ہے اور مسلمانوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اور اگر مسلمان ایسا کرنے پر مُصر ہیں تو انہیں ایسا کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ مسلمان جب تک مادّی ترقی کو اپنا ہدف نہیں بنائیں گے وہ عہدِ حاضر کے چیلنجوں کا جواب نہیں دے سکیں گے؟
بلاشبہ اسلام دنیا کو نظرانداز نہیں کرتا، ایسا ہوتا تو یہ دنیا خلق ہی نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِس دنیا اور اِس دنیا کی زندگی کا اصلِ اصول آخرت کی دنیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کا سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ جو آخرت میں کامیاب ہوا وہی دنیا میں بھی کامیاب ہوا، جو آخرت میں ناکام ہوا وہ دنیا میں یقینا ناکام ہوا خواہ دنیا کے معیارات کے اعتبار سے وہ کتنا ہی کامیاب کیوں نہ گردانا گیا ہو۔ یعنی خواہ وہ دنیا میں دولت کے معاملے میں قارون بن گیا ہو اور سائنس کے میدان میں وہ آئن اسٹائن ہوگیا ہو، آخرت کے تناظر میں اس کی رتی برابر اہمیت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں مسلمان آخرت کو کیسے کم اور دنیا کو کیسے زیادہ اہمیت دیں؟ کیا اللہ روزِ محشر مسلمانوں سے یہ پوچھے گا کہ تم نے دنیا کو کتنے فلسفیانہ نظریات دیے؟ کتنی ایجادات و اختراعات دیں؟ تم نے فی کس آمدنی کو کہاں تک پہنچایا؟ تمہارے معیارِ زندگی کی کیفیت کیا تھی؟ ممکن ہے شریف المجاہد صاحب اسلام کے کسی پہلو سے ثابت کردیں کہ ایسا بھی ہوگا، لیکن ہم نے تو یہی پڑھا اور سنا ہے کہ وہاں تو فیصلہ صرف ایک چیز پر ہوگا‘ ایمان پر۔ لیکن یہ وہ مرحلہ ہے جہاں اچھے اچھوں کے پَر جلتے ہیں، کیوں کہ یہ باتیں بڑی رجعت پسندانہ اور ترقی کی مخالفت پر مبنی دکھائی دیتی ہیں اور لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ صاحب کیا ہم چار ہزار سال پہلے کے زمانے میں لوٹ جائیں؟ کیا اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی کو حرام قرار دیتا ہے؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جب اسلام ہر چیز کے بارے میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اس کا اصل اصول کیا ہے تو پھر وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں بھی یقینا یہ سوال اٹھاتا ہوگا، لیکن فی زمانہ مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ کیا، علما تک یہ چاہتے ہیں کہ اسلام ہر چیز کے بارے میں سوال اٹھائے، لیکن ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں کوئی سوال نہ اٹھائے، کیوں کہ یہ تو عین اسلام ہیں یا اسلام کے بہت قریب ہیں۔
شریف المجاہد صاحب نے یہ بات بالکل درست کہی کہ غزالی نے یونانی فلسفے کے چیلنج کا جواب یونانی فلسفے پر عبور حاصل کرکے دیا تھا اور آج بھی مسلمانوں کو یہی کرنا ہوگا۔ شریف المجاہد صاحب کی یہ بات اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ مسلمانوں میں مغرب کو سمجھے بغیر اسے رد کرنے کا رجحان ایک وبائی صورت اختیار کر گیا ہے، اور مسلمانوں پر بسا اوقات ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہ صورتِ حال اسلام کی روح، مسلمانوں کی تاریخ اور ہمارے اسلاف کی شاندار روایات کے منافی ہے اور مسلمانوں کو اس پر شرم آنی چاہیے۔ لیکن شریف المجاہد صاحب نے یہاں غزالی کی مثال بالکل ہی غلط دے دی۔ غزالی نے یونانی فلسفے کو جان کر اسے رد کردیا، جب کہ شریف المجاہد اور ان کے ذہنی سانچے کے حامل دیگر افراد کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ مسلمان مغرب کو اس لیے جانیں تاکہ وہ اسلام میں مغربی فکر کی پیوند کاری کے لیے دلائل فراہم کرسکیں۔ وہ مسلمانوں کو بتا سکیں کہ احمقو! تمہیں تو معلوم ہی نہیں کہ مغرب کی فلاں فلاں بات اسلام کے عین مطابق ہے، تو بس اسے اختیار کرو اور مزے اڑائو۔ صاحب! اگر چیلنج کا جواب اس چیز کا نام ہے تو مسلمان ایسا جواب نہ دیں تو بہتر ہے، لیکن اس سے اس بات کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کہ مسلمانوں کو مغرب سے آگاہ ہونا چاہیے اور بہ خوبی آگاہ ہونا چاہیے۔ ہم مغرب کو رد کرسکتے ہیں لیکن اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ مغرب سے مکالمہ مسلمانوں کی نہیں اسلام کی ضرورت ہے، اور اسلام نے صاف صاف ہدایت کی ہے کہ اپنی بات بہترین انداز میں کہو اور اس کے لیے مناسب ترین دلائل دو۔
تجزیہ کیا جائے تو پروفیسر شریف المجاہد نے مسلم فکر کو درپیش چیلنج کے بارے میں بہت کچھ کہنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کہا، اس لیے کہ وہ گفتگو کی ابتدا میں جہاں سے چلے تھے، گفتگو کے اختتام پر پھر وہیں پہنچ گئے۔ بلاشبہ انہوں نے کئی چیلنجوں کی نشاندہی کی، لیکن ان چیلنجوں کی اہمیت ثانوی ہے، اور اس لیے ثانوی ہے کہ وہ حتمی تجزیے میں مغرب ہی کو ماڈل بناتے ہیں، مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں انسانی حقوق کا مسئلہ زیادہ اہم ہوجائے گا اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کی روشنی میں اس پر توجہ دیں تاکہ مغرب کے سامنے اسلام یا مسلمانوں کا انسانی چہرہ (Human Face) نمایاں ہوکر سامنے آسکے تو وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اصل حقیقت مغرب میں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ مسلم فکر کو درپیش اہم ترین چیلنج کیا ہے؟ اس کا جواب خود شریف المجاہد صاحب کے مضمون میں مضمر ہے کہ ممکن ہے شریف المجاہد صاحب کو بھی اس کا احساس نہ ہو۔ یہ چیلنج کیا ہے؟ اس بات کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ مغرب کے تناظر میں مسلم فکر کو درپیش اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ مسلمان مغرب کے ساتھ اپنے تعلق کو دو اور دو چار کی طرح واضح یا Define کریں۔
بظاہر یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ عام خیال یہی ہے کہ مغرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت واضح ہے، لیکن ایسا نہیں… اس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ خود مسلم دنیا میں مغرب کے حوالے سے تین ردعمل پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو مغرب کو آئیڈیل سمجھتا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ خود کو مغرب سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو مغرب کو بڑی حد تک رد کرتا ہے، لیکن مغربی فکر کے بعض مظاہر کو قبول بھی کرتا ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو مغرب کو جانے بغیر اُس کی ہر چیز کو رد کررہا ہے۔
مغرب کے حوالے سے مسلمانوں میں ردعمل کی جو صورتیں پیدا ہوئی ہیں ان کی تشکیل کے سلسلے میں تاریخی تجربے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سرسید کا مسئلہ یہ تھا کہ ایک طرف وہ سلطنتِ برطانیہ کو دیکھتے تھے جس میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ اب حالات یہی رہیں گے۔ دوسری جانب وہ مسلمانوں کی حالت دیکھتے تھے، جن کے پاس نہ سائنس تھی، نہ ٹیکنالوجی تھی، نہ فلسفہ تھا، نہ نفسیات اور نہ عمرانیات۔ چنانچہ مغرب کے سلسلے میں ان کا ردعمل مغرب سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش اور جدوجہد میں تبدیل ہوگیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کا دفاع بھی کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کا بڑے خلوص سے جواب دیا ہے۔ اسلام کے دفاع کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کے پُرخلوص جواب کی بات… تو سرسید غیر مسلم نہ تھے لیکن بہرحال انہوں نے جو فکر پیش کی وہ ہولناک حد تک معذرت خواہانہ ہے۔ اتنی معذرت خواہانہ کہ اگر اس کے تمام اجزا آج لوگوں کے سامنے پیش کردیے جائیں تو وہ حیرت زدہ رہ جائیں گے اور سوچیں گے کہ کیا کبھی ایسی بات بھی کہی جاسکتی تھی! اقبال سرسید کی اگلی منزل ہیں۔ اقبال کے زمانے تک مغربی فکر کی بہت سی کمزوریاں عیاں ہوچکی تھیں اور جدید مغرب پر خود مغرب میں بنیادی تنقید ایک دبستان کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ اسپنگلر کی ’’زوالِ مغرب‘‘ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائی میں شائع ہوئی تھی اور اقبال کی فکر پر اس کے گہرے اثر کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ اقبال نہ صرف یہ کہ مغرب کی فکر سے براہِ راست واقف تھے بلکہ مغرب کا تجزیہ بھی اقبال کے پاس تھا۔ ان عوامل کے بغیر اقبال کی فکر میں اپنے تہذیبی و علمی ورثے پر شاید وہ اعتماد پیدا نہیں ہوسکتا تھا جو اقبال کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ لیکن اقبال کے خطبات کا قصہ کچھ اور ہے۔ خطبات میں اقبال ایک جدید آدمی نظر آتے ہیں۔ اقبال ہماری تاریخ کے بڑے لوگوں میں سے ایک ہیں، لیکن انہوں نے صاف کہا ہے کہ صاحب! یہ جو مغرب کی سائنس ہے تو یہ ہماری سائنس ہے، کیوں کہ سائنس مسلمانوں نے ہی مغرب کو دی ہے۔ اقبال کی یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں نے مغرب کو سائنس دی تھی، لیکن کیا مغرب کی سائنس وہی سائنس ہے جو مغرب نے مسلمانوں سے لی تھی؟ اس سوال کا جواب مدلل نہیں ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں میں ایک عرصے تک غلام احمد پرویز کا بھی بڑا چرچا رہا ہے اور ان کے انکارِ حدیث کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے، لیکن ان کے انکارِ حدیث کی کہانی صرف اتنی ہے کہ احادیث کے اقرار کی صورت میں اسلام کو مغرب کی فکر سے ہم آہنگ بنانے میں بڑی دشواری ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی، اقبال کے بعد کی منزل ہیں۔ مولانا کے زمانے تک نہ صرف یہ کہ مغرب کی فکری گمراہیوں کا چرچا علمی دنیا میں عام ہوچکا تھا بلکہ سلطنتِ برطانیہ کا سیاسی زوال بھی ایک سامنے کی حقیقت تھی، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی فکر میں معذرت خواہانہ انداز کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ مولانا نے اسلامی سائنس، اسلامی نفسیات اور اسلامی عمرانیات کی بات کی ہے لیکن بہرحال انہوں نے جمہوریت کو قبول کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں اقتدارِ اعلیٰ خدا کے پاس ہی رہتا ہے، جب کہ مغربی جمہوریت میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کو منتقل ہوجاتا ہے اور اس اعتبار سے عوام کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ مولانا کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن جمہوریت کے بارے میں یہ بہت جامع اور بہت Convincing بات نہیں ہے۔ تیونس کی تحریکِ اسلامی کے رہنما راشد الغنوشی نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ مسلمانوں میں جمہوریت کے بارے میں تذبذب پایا جاتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جمہوریت کا استراد مسلمانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے، موجودہ حالات میں جمہوریت کا استراد یقینا مسلمانوں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے، لیکن اس بات سے اتنی حقیقت تو عیاں ہو ہی جاتی ہے کہ جمہوریت ایک ’’مجبوری‘‘ ہے، لیکن اصولِ مطلق اور اضطراری صورتِ حال اور مجبوری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پھر یہ مسئلہ اپنی جگہ ہے کہ خود مغرب یا جمہوریت کا حال اچھا نہیں، اور مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے مسائل سے باخبر رہتا ہے اور نظام میں اصلاح کرتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دس، بیس یا پچاس سال بعد اگر مغرب نے جمہوریت کو ناقابلِ عمل قرار دے کر مسترد کردیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟ اصولی اعتراضات ہیں لیکن چونکہ ہم ابھی تک اپنا سیاسی نظام وضع نہیں کرسکے ہیں اس لیے جمہوریت ہماری مجبوری ہے۔
سائنس کے بارے میں تو مولانا مودودیؒ نے صاف کہا ہے کہ یہ ہماری چیز نہیں اور ہمیں اپنی سائنس پیدا کرنی چاہیے یا اپنی سائنس کا احیا کرنا چاہیے۔ لیکن ٹیکنالوجی کے بارے میں مولانا کی رائے اگر ایک فقرے میں بیان کی جائے تو یہ ہے کہ آلہ بجائے خود اچھا برا نہیں ہے، اصل چیز مقصد ہے۔ ایک آلے سے آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی کا گلا بھی کاٹا جاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب خود مغرب کے علمی حلقوں میں چیخ پکار مچی ہوئی ہے کہ صاحب! ٹیکنالوجی تو انسان کے ہاتھ سے نکلی جارہی ہے، اور یہ کہ ٹیکنالوجی غیر جانب دار نہیں بلکہ اس کی اپنی اقدار ہیں اور اس میں ایک ایجنڈا بھی مضمر ہے، اور یہ ٹیکنالوجی جہاں جہاں جائے گی یکساں نتائج مرتب کرے گی۔
صنعتی نظام کو بڑا ’’معصوم‘‘ سمجھا جاتا ہے اور ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم بھی صنعتی طور پر ترقی کریں، اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مغرب کا صنعتی نظام مغربی فکر کے دائرے سے باہر کی چیز نہیں، اس میں مغرب کا تصورِ انسان اور تصورِ زندگی صاف جھلکتا ہے۔ باقی باتوں کو رہنے دیں اور صرف یہی پہلو لے لیں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کا پورا معاشی نظام… صنعتی نظام جس کا ایک حصہ ہے… اشیاء کے زیادہ سے زیادہ استعمال یا زیادہ سے زیادہ صارفیت پر کھڑا ہے۔ اشیاء جتنی زیادہ استعمال ہوں گی پیداوار میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ اس صورتِ حال نے ہولناک اصرافِ بے جا اور تعیش کو معمول، مجبوری اور زندگی کا ناگزیر تقاضا بنادیا ہے۔ اب کوئی ہمیں بتائے کہ اسلام کے تصورِ انسان اور تصورِ زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے؟ شریف المجاہد کہتے ہیں کہ اسلام ’’اچھی‘‘ اور خوش حال زندگی کی ممانعت نہیں کرتا۔ بالکل صحیح۔ لیکن اس کا کوئی پیمانہ اور کوئی تو حد ہوگی۔ لیکن کیا مغرب یا مغرب کا ماڈل مستعار لینے والا کوئی معاشرہ آج تک اس سلسلے میں کوئی معیار اور کوئی حد مقرر کرسکا ہے؟ دراصل یہ معیار اور حد مقرر ہی نہیں کی جاسکتی، تو پھر کیا کیا جائے؟
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم فکر کو درپیش اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ مغرب سے اپنے تعلق کی نوعیت کو Defineکرے۔ یہ ایک تضاد آلود بات ہے کہ ہم جدیدیت کو تو مسترد کردیں لیکن اس کے بعض مظاہر کو حقیر قرار دے کر اور اس کے کچھ دوسرے مظاہر کو بلا سوچے سمجھے یا یہ سوچ کر گلے لگا لیں کہ ان میں تو کوئی قباحت نہیں۔ اس سلسلے میں جو امکانات ہمارے سامنے ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں:
ایک یہ کہ ہم مغرب کو مکمل طور پر قبول کرلیں، دوسرا امکان یہ ہے کہ ہم اسے مکمل طور پر رد کردیں۔ لیکن چونکہ ایسا عملی طور پر ممکن نہیں تو پھر ایک صورت یہ ہے کہ ہم مغرب کے جن مظاہر کو قبول کریں، ان کے بارے میں ہمارے ذہن بالکل واضح ہوں، یعنی ہمیں شعوری طور پر معلوم ہو کہ ہم جو چیز لے رہے ہیں وہ ہماری فکر سے فلاں فلاں مقامات پر متصادم ہوتی ہے یا ہوگی، اور اس کے فلاں فلاں نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ہوگا یہ کہ ہم بعض چیزوں پر اسلام کی مہر لگا کر انہیں قبول تو کرلیں گے لیکن پھر رفتہ رفتہ ہم اندر سے بدلتے چلے جائیں گے اور ہمارے معاشروں میں ہر سطح پر اور ہر قسم کی آویزش جاری رہے گی جو ہماری تخلیقی توانائی کو زائل کرتی رہے گی۔
مسلمانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ مغرب کے اثرات کے تحت اُن کے معاشروں میں ردعمل کی جو صورتیں سامنے آئی ہیں انہوں نے معاشرے کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ مغرب نے جو ترقی کی ہے اس کا ایک ’’راز‘‘ یہ ہے کہ وہاں معاشرے میں فکری سطح پر بنیادی نوعیت کی آویزش باقی نہیں رہی تھی۔ انہوں نے مذہب کو مسترد کردیا اور اپنی مادی فکر سے ’’مطمئن‘‘ ہوگئے۔ اس ’’اطمینان‘‘ کے بغیر ترقی کی وہ چھلانگ لگائی ہی نہیں جاسکتی جو آج مادّی دنیا میں معیار بنی ہوئی ہے۔
شریف المجاہد صاحب نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے حوالے سے یہ اچھی بات کہی کہ مسلم معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف جدید علوم سے آگاہ لوگ ہیں اور دوسری طرف مذہبی فکر کے ماہرین… اور یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کی جانب پیٹھ کیے کھڑے ہیں، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں تو بات کرسکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے۔ یہ صورتِ حل مغربی فکر کے اثرات میں سے ایک ہے اور برصغیر کے حوالے سے دیکھا جائے تو سرسید اس ’’کارنامے‘‘ کے ذمے دار ہیں، لیکن علما کا قصور بھی کم نہیں۔ جو لوگ خود کو مذہبی فکر کا علَم بردار کہتے ہیں انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ معاشرے کے کسی بھی طبقے کی جانب پیٹھ کرکے کھڑے ہوجائیں اور کہہ دیں کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ چونکہ جدید تعلیم یافتہ طبقات مذہبی فکر کے حامل افراد کا مسئلہ نہیں اس لیے فاصلے کو کم کرنے کی صورت بھی انہی کو نکالنی ہوگی، اور اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں سے اُن کی ’’لغت‘‘ میں بات کرنے کا ہنر سیکھیں۔ اگر اس کام کی راہ میں زبان رکاوٹ ہے تو ہمیں زبان سیکھنی چاہیے، اگر اس کام کی راہ میں جدید علوم کا مطالعہ حائل ہے تو ہمیں جدید علوم سے واقفیت بڑھانی چاہیے۔ اگر یہ فریکوئنسی کا مسئلہ ہے تو ہمیں اپنی فریکوئنسی میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ لیکن جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ایک اور طبقہ بھی ہے، اسے آپ حکمران طبقہ کہہ سکتے ہیں، اس طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف طاقت اور اقتدار کی زبان سمجھتا ہے اور غالباً یہ اب اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے اور زوال سے دوچار ہے، جس دن اقتدار کے مرکز میں جوہری تبدیلی آئی یہ طبقہ اپنے زوال کا دائرہ مکمل کرلے گا۔
شریف المجاہد نے اس چیلنج کی نشاندہی نہیں کی لیکن یہ اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعی تقدیر اور اجتماعی مستقبل کا احساس اجاگر کیا جائے، انہیں بتایا جائے کہ آئندہ کے عالمی منظرنامے میں جزیروں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی۔ مسلمانوں کو وقار کے ساتھ زندہ رہتے ہوئے اپنی دنیا پیدا کرنی ہے تو امت کے تصور کو اپنائے بغیر چارہ نہیں۔