حالیہ چند برسوں سے ہدف بناکر قتل ہونے والے 20 افراد کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوگیا۔ یہ عامر سرفراز کا نام ہے جو ’تانبا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ عامر سرفرازکو لاہور میں دوموٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے زخمی کیا، جس کے بعد وہ زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوئے۔ عامر سرفراز تانبا کے قتل کی خبر حسبِ روایت بھارتی میڈیا میں بہت دھوم دھام سے بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی گئی۔ اس طرح ساڑھے تین عشروں سے بھارت کے جاسوس سربجیت سنگھ کے گرد گھومنے والی کہانی آخری موڑ لے کر ختم ہوگئی۔ اس عرصے میں سربجیت سنگھ کا نام وقفے وقفے سے حالات کے منظر پر ڈوبتا اور اُبھرتا رہا، یہاں تک کہ وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں چند قیدیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا، اور یوں تابوت میں بند ہوکر ہی بھارت واپس پہنچ سکا۔
سربجیت سنگھ کی کہانی کا آغاز اُس وقت ہوا جب وہ اپنا مشن مکمل کرکے پاکستان سے واپس بھارت کی حدود میں داخل ہورہا تھا۔ اسے لاہور اور فیصل آباد میں دو ھماکوں کے الزام میں دھر لیا گیا، یوں اس پر پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ چلا۔ سربجیت سنگھ نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور عدالت نے اسے سزائے موت سنادی۔ 1990ء کی پوری دہائی اسی مقدمے کی سماعت اور فیصلے میں گزر گئی۔
ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پورے عروج پر تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنرل پرویزمشرف اور من موہن سنگھ کا پیس پروسس رول بیک ہوچکا تھا کہ اچانک پاکستان کی جیلوں میں بھارت کے کچھ اہم قیدیوں کی رہائی کی مہم چلنا شروع ہوگئی۔ پہلے مرحلے میں ایسے ہی ایک مقدمے میں سزایافتہ کشمیر سنگھ کو رہا کیا گیا۔ اس کے بعد اس مہم کا مرکزی نکتہ سربجیت سنگھ کی رہائی بن کر رہ گئی۔کینیڈا اور برطانیہ میں سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے تنظیمیں قائم ہونے لگیں، اور ان تنظیموں پر دھن برسنا شروع ہوگیا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے صدر آصف علی زرداری کو خط لکھ کر جذبۂ خیرسگالی کے تحت سربجیت سنگھ کو رہا کرنے کی اپیل کی ۔’فری سربجیت سنگھ‘ کے نام سے ایک ویب سائٹ بن گئی جس پر دستخطی مہم شروع ہوئی ۔جسٹس کاٹجو نے کہا کہ بھارت کے ایک ارب انسان صدرِ پاکستان کو ای میل کرکے سربجیت سنگھ کی رہائی کی اپیل کریں۔اسی دوران بھارت کی جیل میں قید خلیل الرحمان چشتی کو اس امید کے ساتھ رہا کیا گیا کہ اس کے بدلے پاکستان سربجیت سنگھ کو رہا کر نے پر مجبور ہوگا ۔حکومتِ پاکستان بھی اس دبائو کے آگے جھکتی چلی جا رہی تھی۔جسٹس مارکنڈے کاٹجویہ اعلان کررہے تھے کہ پاکستان میں بھی چند دلیر لوگوں نے سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے مہم شروع کرنے کا یقین دلایا ہے۔جس کے بعد نظریں بے ساختہ انصاربرنی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ انصار برنی کی طرف اُٹھ رہی تھیں، کیونکہ کشمیر سنگھ کی رہائی میں انصار برنی پاکستان کی جانب سے سرگرم کردار ادا کرچکے تھے اور اس کردار کی بنا پر انہیں پاکستان میں سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔کشمیر سنگھ اور گوپال داس کی رہائی میں کردار ادا کرکے انصار برنی چونکہ خاصی تنقید کا سامنا کر چکے تھے اس لیے سربجیت سنگھ کی رہائی کے معاملے میں وہ زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دے رہے تھے۔بعد میں سربجیت سنگھ کی بہن دلبر کور نے الزام عائد کیا تھا کہ ان سے سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے دو کروڑ روپے مانگے گئے تھے۔دلبر کو ر نے اس مہم کے دوران دوبار پاکستان کا دورہ بھی کیا ۔جسٹس کاٹجو کے علاوہ بھارت کے ایک معروف فلم ساز مہیش بھٹ بھی سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے اچانک سرگرم ہوگئے ۔بالی وڈ میں سربجیت سنگھ پر ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں ہیروئن کا کردار بھارت کی مس ورلڈ ایشوریا رائے نے ادا کیا تھا۔ بھارت میں چلنے والی اس مہم سے کسی طور اندازہ نہیں ہور ہا تھا کہ لاہور کی جیل میں قید سربجیت سنگھ راستہ بھول کر سرحد پار کرنے والا ناخواندہ کسان ہے، کیونکہ راستہ بھٹکنے والے نجانے کتنے ہی قیدی جیلوں میں پڑے پڑے اِس جہانِ فانی سے یوں کوچ کر جاتے ہیں کہ کوئی اُن کی لاش وصول کرنے بھی نہیں آتا ۔اسی دوران سربجیت سنگھ کے مقدمے اور عدالت کے فیصلے پر بھی مین میخ نکالنے کا عمل شروع ہوچکا تھا ۔دلبر کور نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ سربجیت سنگھ پر لگائے گئے الزامات کا فرانزک نہیں ہوا،ان کاپاکستانی وکیل محض فیسیں لیتا رہا اور اُسے مقدمہ جیتنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اور یہ کہ پاکستانی ایجنسیوں نے تشدد کرکے سربجیت سنگھ سے اعترافِ جرم کروایا،اس لیے اُس پر قائم ہونے والا مقدمہ اور اس کا فیصلہ بوگس ہیں۔ سوال یہ پیدا ہورہا تھا کہ آخر بھارت کو پاکستان کی جیلوں میں اپنے ہائی پروفائل قیدیوں کو رہا کرانے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
اس کا جواب ایک اور عدالتی مقدمے اور فیصلے میں تھا۔ یہ مقدمہ تھا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں قید افضل گورو کا، جو تہاڑ جیل میں سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر تھے۔ بھارت اس حملے کو اپنی جمہوریت، عزت اور اَنا پر حملہ قرار دے کر اس میں کسی نہ کسی کردار کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کا ذہن بنائے بیٹھا تھا، اور اس کے لیے قرعۂ فال افضل گورو کے نام نکل چکا تھا۔ بھارت افضل گورو کی سزائے موت پر عمل درآمد کا تہیہ کیے بیٹھا تھا، مگر اسے اندیشہ تھا کہ اس کے ردعمل میں پاکستان بھارتی شہریوں کی سزائوں پر عمل درآمد کرسکتا ہے۔ ایک مرحلہ آیا جب حکومتِ پاکستان کشمیر سنگھ اور گوپال داس کی طرح سربجیت سنگھ کو بھی رہا کرنے پر تیار نظر آرہی تھی، مگر پھر پاکستانی میڈیا اور رائے عامہ میں ایک دبائو بن گیا جس پر صدر زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے وضاحت کی کہ حکومت سربجیت سنگھ نہیں بلکہ سرجیت سنگھ نامی قیدی کی رہائی پر غور کررہی ہے۔ سر بجیت اور سرجیت میں فرق تو محض ایک نقطے کا تھا مگر حقیقت میں یہ معاملے سے دامن بچانے کی کامیاب کوشش تھی۔ یوں افضل گورو کی پھانسی سے پہلے بھارت سربجیت سنگھ کو رہائی نہ دلوا سکا اور حالات سے مایوس ہوکر بھارت نے 9 فروری 2013ء کو افضل گورو کو پھانسی دے دی۔ اس کے کم وبیش تین ماہ بعد 2 مئی 2013ء کو دو قیدیوں نے سربجیت سنگھ پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ ان میں ایک کی شناخت عامر تانبا اور دوسرے کی مدثر منیر کے طور پر ہوئی۔ دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور کئی سال مقدمہ چلتا رہا۔ 2018ء میں عدالت نے عامر تانبا کو مقدمے سے بری کردیا۔ اب یہی عامر تانبا لاہور میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ یہ واقعہ برطانوی اخبار ’گارڈین‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے ڈیڑھ دو ہفتے بعد ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی اب تک پاکستان میں 20 افراد کو ماورائے عدالت قتل کرچکی ہے۔ اس رپورٹ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ بھارت کو یہ حق حاصل ہے کہ کوئی شخص جو اسے مطلوب ہو اور وہ کسی دوسرے ملک میں پناہ لے، اسے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، بھارت نے پہلے بھی ایسا کیا ہے اور آگے بھی کسی نے ایسی کوشش کی تو بھارت گھس کر مارنے کا حق استعمال کرے گا۔ گویا کہ بھارتی وزیر دفاع نے گارڈین اخبار کی اسٹوری کی تردید کرنے کے بجائے اس الزام کو قبول کیا تھا۔ اب اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوگیا مگر حکومتِ پاکستان کی پراسرار خاموشی کئی نئے سوالات اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔ پاکستان میں گھس کر مارنے کا بھارتی حق تسلیم کرلیا گیا تو ہزاروں افراد جن میں کشمیری اور پاکستانی شامل ہیں، شدید خطرات کی زد میں آجائیں گے، اور یہ سلسلہ اگر رک نہ سکا تو پاکستان کی حیثیت نیپال اور بھوٹان جیسی ہوکر رہ جائے گی۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گارڈین کی رپورٹ پر محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت نے بالاکوٹ جیسی کارروائی کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا، مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایک اور پاکستانی کو گھس کر مارا تو پاکستان کا ردعمل کیا ہوگا؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان مشرف من موہن دور کا ایک معاہدہ موجود ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکنزم اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے عہد وپیماں کاغذوں میں دفن ہیں۔ قتل کا یہ سلسلہ رک نہ سکا تو عوام کے ذہنوں میں اس مشترکہ میکنزم کے حوالے سے کئی سوالات اور شبہات پیدا ہوں گے اور پاکستانی حکام کے لیے اس صورتِ حال سے دامن بچانا ممکن نہیں رہے گا۔