قرض کے نئے پروگرام کے لیے وزیرخزانہ واشنگٹن میں
ملک بے شمار مسائل کا شکار ہے، تاہم اِس وقت ہمیں قومی سیاست میں عدم برداشت کا بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ واقعۂ نوشکی اور ان جیسے دہشت گردی کے دیگر واقعات اسی رویّے اور قومی بحران کا شاخسانہ ہیں۔ ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل اسی سبب سے مزید گمبھیر ہوئے ہیں اور حکومتیں ان مسائل سے بے نیاز نظر آتی ہیں بلکہ تضحیک آمیز لہجے میں یہ بھی باور کراتی ہیں کہ عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ حکمرانوں کے اللے تللوں کی وجہ سے قومی معیشت اور عوام کو آئی ایم ایف کی نئی اور ناروا کڑی شرائط کے شکنجے میں آنا پڑا۔ آج آئی ایم ایف ہی نہیں، عالمی بینک بھی ڈکٹیشن دینے کے لیے ہمارے سروں پر سوار نظر آرہا ہے۔ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے حاصل کیا تھا کہ معیشت کے فیصلے عالمی بینک اور آئی ایم ایف کریں؟ معاملہ تو یہی ہے کہ جب ہم کچھ نہیں کریں گے تو وہ ہمیں ڈکٹیٹ کریں گے۔
عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے اور تعلیم و صحت کی خدمات کی فراہمی میں کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے 43 اضلاع میں شدید غذائی عدم تحفظ 29سے بڑھ کر 32 فیصد پر پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2022ء سے اب تک شدید بارشوں اور سیلابوں کے باعث متاثرہ علاقوں میں معمولاتِ زندگی تاحال بحال نہیں ہوسکے، مہنگائی کی نہ رکنے والی لہر غریب اور عام آدمی کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی بینک کی یہ رپورٹ ایوانِ اقتدار اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
ملکی آبادی جو 25 کروڑ نفوس تک پہنچ رہی ہے اور جس کا 65 فیصد سے زیادہ حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے، اس کے ہاتھوں میں کل ملک کی باگ ڈور ہوگی، فی الحال اس کی اکثریت بے کاری کا چلتا پھرتا نمونہ بنی ہوئی ہے، تاہم قابلِ عمل منصوبہ بندی سے اسے فعال بنانا عین ممکن ہے۔ ملک میں قدرتی وسائل کی کمی نہیں، اور یہ ایک محنتی قوم ہے، اور مناسب توجہ دیتے ہوئے اسے ترقی یافتہ ملکوں کے برابر لانے میں کوئی امر مانع نہیں۔ یہ ذمہ داریاں ہمیشہ حکومتِ وقت پر عائد ہوا کرتی ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور کلیدی طبقوں کو بھی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے حالات سنوارنے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے اور سیاسی کشیدگی کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ سب کو قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عالمی بینک اس سے قبل اپنی رپورٹ میں پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دے چکا ہے جن کے تحت عوام کو مختلف مدات میں دی گئی سبسڈیز ختم کرنے اور بعض نئے ٹیکس روشناس کرانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یقیناً اسی پس منظر میں اتحادیوں کے اقتدار کا ڈیڑھ سال کا دور، پھر نگران سیٹ اَپ کا چھے ماہ کا عرصہ بھی عوام کے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل حل کرنے میں قطعی ناکام رہا، جبکہ آئی ایم ایف کا کوڑا آج بھی بے بس و مجبور عوام پر ہی برس رہا ہے اور حکمران اشرافیہ طبقات آج بھی غربت اور مہنگائی کا سارا بوجھ نحیف عوام کی جانب منتقل کرنے کی عادت نہیں چھوڑ رہے۔ اگرچہ شہباز حکومت معیشت کی بہتری اور عوام کے حالات سنورنے کی دل خوش کن کہانیاں سنارہی ہے جن میں اسٹاک مارکیٹ کی نفسیاتی حد بھی عبور کرنے کے ریکارڈ ٹوٹنے کی رپورٹیں شامل ہیں اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے بقول وزیراعظم شہبازشریف کے دورۂ سعودی عرب کے تناظر میں مہنگائی کے بتدریج کم ہونے کے امکانات بھی قوی ہوچکے ہیں، مگر زمینی حقائق تو ان سارے دل خوش کن مناظر کی نفی کرتے ہی نظر آتے ہیں، کیونکہ جب حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہوکر ہر پندرہ روز بعد پیٹرولیم نرخوں اور اسی طرح آئے روز بجلی، گیس، پانی کے نرخوں میں بے محابا اضافہ کرتی رہے گی تو عوام کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل سے نجات کیسے مل سکتی ہے!
اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی بحران بھی سر اٹھا رہا ہے۔ حکومت مخالف ساری جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نئے اپوزیشن اتحاد کی شکل میں اپنی صف بندی کرچکی ہیں۔ اس فضا میں ملک مزید انتشار اور عدم استحکام کی جانب بڑھے گا تو اس سے سسٹم کی گاڑی ٹریک پر رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ ملک میں قومی مفاہمت کی فضا پروان چڑھانا اور مضبوط بنانا اشد ضروری ہے، بصورتِ دیگر ملک اور اس کی معیشت کی سلامتی ہمیشہ خطرات میں گھری رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ غیر یقینی بڑھنے لگی ہے، یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ حکومت عدلیہ میں جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنے والی ہے، اس کے لیے آئینی ترمیم لازمی ہے اور حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں عددی قوت بھی موجود ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات سے عوام مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں، حکومت نے بجلی کے یونٹ کے نرخ بڑھاکر انہیں مزید پریشان کردیا ہے کہ وہ گرمیاں کس طرح گزاریں گے! جبکہ حکومت بتا چکی ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرض سے قبل نہ صرف بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ ضروری ہے بلکہ آنے والے بجٹ میں مزید ٹیکسوں کا نفاذ بھی ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ماضی کی طرح حسبِ روایت عوام کی اشک شوئی کے لیے جھوٹی تسلیاں بھی دی جارہی ہیں کہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ غریبوں پر نہیں ڈالا جائے گا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ صنعت کار ہوں، ہول سیلر ہوں یا ریٹیلر… یہ سب حکومت کی طرف سے نافذ کیے جانے والے ہرطرح کے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ابھی بجٹ کی تیاریاں شروع نہیں ہوئیں اس کے باوجود زندگی بچانے والی ادویہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ نومنتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے وقت ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور من مانی قیمتیں وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کے تمام تردعوے ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں۔
جمہوریت کے سفر کی گزشتہ پانچ سال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ملک کی ترقی، عوام کی خوشحالی، ریاستی انتظامی اتھارٹی کی مضبوطی اور سسٹم کے استحکام کی کوئی جھلک ڈھونڈے سے ہی مل پائے گی، جبکہ مجموعی طور پر یہ سارا عرصہ ابتلا کا نظر آتا ہے جس کے دوران سیاسی انتشار، باہمی الزام تراشی اور اودھم مچانے والی سیاست کو عروج حاصل رہا۔ ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، اگر ملک میں سیاسی کشیدگی اسی طرح جاری رہی تو اس کے معیشت پر تو برے اثرات مرتب ہوں گے ہی، لیکن عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان کا مزید بھرکس نکل جائے گا۔
ملک میں اس سیاسی پس منظر میں آئی ایم ایف سے قرض کے لیے وفد کے ہمراہ واشنگٹن پہنچ گئےہیں معاہدے کے لیے درخواست تیار کرلی گئی ہے۔ ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات کے دوران وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نئے قرض پروگرام کے لیے 2 درخواستیں کریں گے۔ آئی ایم ایف سے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی اور کلائمیٹ چینج کے لیے اضافی فنڈ کی درخواستیں کی جائیں گی۔ ذرائع وزارتِ خزانہ نے بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات اور مختص بجٹ پر آئی ایم ایف حکام کے لیے بریفنگ تیار کی گئی ہے۔ گورنراسٹیٹ بینک اور سیکریٹری وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کے دوران معاشی اشاریوں سے آگاہ کریں گے۔ ذرائع وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ ایم ڈی آئی ایم ایف سے مثبت بات چیت کے نتیجے میں آئی ایم ایف مشن مذاکرات کے لیے آئندہ ماہ پاکستان پہنچ جائے گا۔ مشن نئے قرض پروگرام اور آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں معاشی ٹیم کے ساتھ کام کرے گا۔ عالمی بینک کے حکام سے بھی ملاقات کے دوران فنانسنگ بڑھانے کے لیے معاشی ٹیم بات چیت کرے گی۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس واشنگٹن میں شروع ہوچکے ہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستانی وفد ان اجلاسوں میں شرکت کرے گا۔ وزارتی اور اہم اجلاس 17 اپریل سے 19 اپریل کے دوران شیڈول ہیں۔ اس دوران وزیرخزانہ کی ایم ڈی آئی ایم ایف اور صدر عالمی بینک سے ملاقاتیں ہوں گی۔ حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پاکستان کی معیشت صرف آئی ایم ایف ہی بچا سکتا ہے، جب کہ اصل بات یہ ہے کہ یہاں سماجی عدل کا نظام قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل ہیں، 60فیصد سے زائدنوجوانوں کی آبادی ہے، یہ اثاثہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے، لیکن وہاں اس کے باوجود قومی ترقی کو ذاتی مفادات اور کاروبار پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کاش یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ہوجائے۔
اس وقت حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کے علاوہ بجٹ بھی تیار کر رہی ہے جس میں صوبوں اور مرکز کے لیے وسائل کی فراہمی کا تعین ہوگا، یہ کام این ایف سی کے ذریعے ہوتا ہے۔نیشنل فنانس کمیشن کا بنیادی مقصد ملک کے ریونیو اور آمدنی کی وفاق اور صوبوں میں طے شدہ فارمولے کے تحت منصفانہ تقسیم اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی حالت کو مستحکم رکھنا ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نمائندگی کرتے ہیں اور کمیشن کا چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں وفاق کا حصہ 20فیصد اور صوبوں کا 80 فیصد حصہ رکھا گیا تھا، اس کے بعد بڑی تبدیلی 1997ء میں آئی جب نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد نے ایوارڈ میں وفاق کا حصہ بڑھاکر 63فیصد اور صوبوں کا کم کرکے 37 فیصد کردیا۔ 2010ء میں ساتویں NFC ایوارڈ کے موقع پر صوبائی خود مختاری کے حوالے سے وفاق کا حصہ 42.5 فیصد اور صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد کردیا گیا اور ملک میں پہلی بار آبادی کے علاوہ چھوٹے صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے غربت، ترقی، آبادی اور ریونیو وصولی کے عوامل کو تسلیم کیا گیا۔ 2010ء کے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے فنڈز کی تقسیم کے لیے چار عوامل کو مدنظر رکھا گیا جس میں 82فیصد فنڈز کی تقسیم صوبے کی آبادی، 10.3فیصد صوبے کی غربت اور پسماندگی، 5 فیصد صوبے کی ریونیو وصولی اور 2.7فیصد صوبے میں آبادی کا تناسب شامل تھا۔2021-22 ء کے این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد(1135 ارب روپے)، سندھ کو 24.55 فیصد (592 ارب روپے)، کے پی کے کو 14.62 فیصد (379 ارب روپے) اور بلوچستان کو 9.09 فیصد (295 ارب روپے) ملے۔ سابقہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایف بی آر ریونیو کی وصولی پر 5 فیصد چارجز وصول کرتا تھا اور 95 فیصد ریونیو وفاقی حکومت کو منتقل کرتا تھا، جسے موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں کم کرکے ایک فیصد کردیا گیا ہے جس سے صوبوں کو فنڈز کی تقسیم 47.5 فیصد سے بڑھ کر 57.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ اب وفاق کو 42.6 فیصد فنڈز ملتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے صوبائی خودمختاری کے ساتھ صوبوں کو اختیارات اور اضافی وسائل منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اٹھارہویں ترمیم میں وفاق سے صوبوں کو وسائل کے ساتھ اختیارات بھی دیے گئے تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوسکے۔ اس سلسلے میں میری این ایف سی کے سابق ممبر ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی سے گفتگو ہوئی جو این ایف سی ایوارڈ میں کسی طرح ترامیم اور صوبوں کے فنڈز میں کٹوتی کے حق میں نہیں۔ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت فیڈرل ڈویژنل پول(FDP) میں صوبوں سے شیئرز کی کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر کم ہوکر وفاق کا شیئر بڑھ جائے گا۔ وفاق نے دسویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو اضافی ریونیو کی تقسیم کو غیر متوازن قرار دیا ہے جس کی وجہ سے وفاق کو دفاعی اخراجات، قرضوں اور آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے میں مشکلات ہورہی ہیں۔ صوبوں کا مؤقف ہے کہ ان کے شیئرز میں کٹوتی کے بجائے وفاق اپنے اخراجات اور قرضوں میں کمی لائے اور ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر ریونیو کی وصولی میں اضافہ کرے۔ 2013-14ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 271 ارب روپے تھے جو 2022-23ء میں 104 فیصد اضافے سے بڑھ کر 553 ارب روپے ہوگئے۔وفاقی حکومت کو جاری معاشی بدحالی کا طویل المیعاد حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے مالی شیئرز میں کمی کرے۔ 17 ایسی وزارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں 18 ویں ترمیم کے بعد بند کرکے 300 ارب روپے سالانہ بچائے جاسکتے ہیں۔
وسائل بڑھانے اور اخراجات میں کمی کے لیے وفاقی حکومت پی آئی اے کی نج کاری کرنے جارہی ہے، یہ اگلے ماہ مئی میں ہوجائے گی۔ پی آئی اے کے ذمہ تمام قرض ہولڈنگ کمپنی کے ذمہ کردیے گئے ہیں جسے نج کاری سے ملنے والی رقم دی جائے گی۔ مئی میں نج کاری ہوگی اور جون میں پی آئی اے نئی انتظامیہ کے حوالے کردی جائے گی۔ نئی انتظامیہ پابند ہوگی کہ وہ پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کے بعد اس میں70 جہاز شامل کرے، اور پی آئی اے کے تمام منظور شدہ غیر ملکی روٹس بحال کرے۔ پی آئی اے کے بعد ریلوے، اس کے بعد اسٹیل ملز، اور اس کے بعد بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں ڈسکوز کی نج کاری ہونے جارہی ہے جس سے قومی خزانے کو 500 ارب روپے کے سالانہ بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ پی آئی اے سمیت ان تمام اداروں کی نج کاری آئی ایم ایف کے دبائو میں ہورہی ہے۔