12 اپریل کو کوئٹہ کے نواح میں واقع ایک نجی ہوٹل میں پاکستان تحریک انصاف، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین پر مشتمل 6 جماعتی اتحاد کا اجلاس ہوا۔ اختر مینگل نے عشائیہ دیا تھا۔ اجلاس اور اعلان کردہ جلسوں میں شریک ہونے کے لیے تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب، جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ، مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجا ناصر عباس جعفری، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا 12 اپریل کو کوئٹہ پہنچے تھے۔ اجلاس میں ’’تحریک تحفظِ آئینِ پاکستان‘‘ کے نام سے اتحاد کا فیصلہ ہوا۔ محمود خان اچکزئی اس تحریک کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اتحاد میں شامل جماعتوں نے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کا عہدکرتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ چناں چہ جلسوں کا آغاز بلوچستان سے کرتے ہوئے 13اپریل کو دو بھرپور جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔ پہلا جلسہ کوئٹہ سے متصل ضلع پشین میں ہوا۔ دوسرے جلسے کا انعقاد چمن میں افغان سرحد کے قریب ہوا۔ یہ دراصل پاکستان اور افغانستان کے درمیان پاسپورٹ کی شرط کے خلاف دھرنا تھا جو تقریباً 6 ماہ سے جاری ہے۔ تحریک تحفظِ آئینِ پاکستان نے اُن سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر لیاقت بلوچ مقامی ہوٹل کے اجلاس میں شریک تھے، تاہم ان دو جلسوں میں نہیں گئے۔ اُن کی جگہ جماعت اسلامی کے صوبائی رہنما نے تقریر کی۔ اتحاد کی تشکیل کے اعلان کے وقت پریس کانفرنس میں لیاقت بلوچ نے کہا کہ اجلاس کے اعلامیے سے اتفاق ہے لیکن اپنی شوریٰ کے اجلاس کے بعد حتمی مؤقف سامنے رکھیں گے۔
حزبِ اختلاف یا حکومت مخالف جماعتیں منتشر ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے جس کا پہلا جلسہ بھی پشین میں ہوگا، تاہم جمعیت علماء اسلام یکسو دکھائی نہیں دیتی، یہ دونوں طرف کھیل رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان نے حکومت اور حزبِ اختلاف کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کردیا ہے، وہ قرار دے چکے ہیں کہ ’’ملک میں عملاً عسکری پارلیمنٹ اور عسکری حکومت ہے اور بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں 110فیصد مارشل لا ہے۔ کور کمانڈر کے حکم پر سارے تقرر و تبادلے کیے جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں علی امین گنڈا پور کی نہیں بلکہ کور کمانڈر اور سیکٹر کمانڈر کی حکومت ہے۔‘‘(13اپریل2024ء)
دیکھا جائے تو ایمل ولی خود بھی کور کمانڈر اور سیکٹر کمانڈر کے تعاون سے ہی بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں، وگرنہ بلوچستان اسمبلی میں وقتِ انتخاب اے این پی کے محض 2 ارکان تھے جبکہ سینیٹر بننے کے لیے کم از کم 8 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ بلامقابلہ بندوبست کے تحت ایمل ولی خان بھی نوازے گئے۔
نیشنل پارٹی کی پالیسی میں بھی ربط و یکسوئی نہیں ہے۔ صوبے کے اندر حزبِ اختلاف میں ہے اور ناراض حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں کرنا چاہتی۔ یہ جماعت 8فروری2024ء کے انتخابات میں چار جماعتی اتحاد میں شامل تھی، ساتھ صوبے اور وفاق میں حکمران اتحاد کی جانب دستِ تعاون بھی بڑھا رکھا تھا۔ چناں چہ اب نیشنل پارٹی کا مؤقف کھل کر سامنے آگیا ہے جو پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان بلیدی نے بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق نیشنل پارٹی اسمبلیوں میں اپوزیشن جماعت کے طور پر کردار ادا کرے گی اور ساتھ ہی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ سے روابط کو فروغ دیا جائے گا۔ چار جماعتی اتحاد کے حوالے سے یہ کہا کہ اتحاد کے ساتھی بتائے بغیر دوسرے اتحاد (تحریک تحفظِ آئینِ پاکستان) میں چلے گئے ہیں۔ اشارہ محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کی طرف ہے (14اپریل2024ء)۔ نیشنل پارٹی نے صدارتی انتخاب میں محمود خان اچکزئی کے بجائے آصف علی زرداری کو ووٹ دیا تھا، البتہ ان کے دو سینیٹرز طاہر بزنجو اور کہدہ اکرم دشتی نے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دیا۔ سینیٹ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ دے رکھا تھا۔ گویا چار جماعتی اتحاد تو صدارتی انتخاب کے ساتھ ہی فنا ہوا جب نیشنل پارٹی نے آصف علی زرداری کو ووٹ دینے کا اعلان کیا۔
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اس چار جماعتی اتحاد میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی شریک تھی۔ اس جماعت کی دو جیتی ہوئی نشستیں چھین لی گئی ہیں۔ ایک نون لیگ کو جبکہ دوسری نشست پیپلز پارٹی کو دی گئی۔ پتا نہیں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی تحفظِ آئینِ پاکستان میں شامل کیوں نہیں ہے! بلوچستان میں عام انتخابات ڈھونگ تھے۔ اصل نتائج میں نقب زنی ہوئی۔ اس لحاظ سے موجودہ اسمبلی جعلی، اور عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔ اختیارات کا مرکز اور منبع کہیں اور ہے۔ تحریک تحفظِ آئینِ پاکستان مقصد میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ملک کے اندر آئین، پارلیمنٹ پابند و مقید ہیں۔ جمہور کی حکمرانی کا نعرہ و خاکہ محض فریب ہے۔
تحریک تحفظِ آئین ِپاکستان کا پشین کا جلسہ سرفراز بگٹی کی حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے اپنے تئیں خراب کرنے کی کوشش کی، مگر لوگ خراب موسم کے باوجود شریک ہوئے۔ جلسہ گاہ میں بارش کے باعث پانی جمع ہوگیا تھا، اس کے باوجود لوگ ٹھیرے رہے اور کھڑے ہوکر تقاریر سنیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا:
’’جہاں دفعہ 144کی خلاف ورزی پر آپ پنجابیوں، سندھیوں، پشتونوں اور بلوچوں کے وطن کے سیاسی لوگوں پر چلّاتے ہیں وہاں جرنیلوں کو یہ عیاشی دی گئی ہے کہ وہ آئین کو روند ڈالیں۔ غریب پاکستانی کا قتل 144کی خلاف ورزی پر جائز، اور جرنیل صاحبان کا جب جی چاہے پاکستان کے متفقہ آئین کو روندیں اور ہمیں غدار ٹھیرائیں۔ پاکستان کے آئین میں غداری کی تعریف لکھی ہوئی ہے اور آئین اُسے غدار کہتا ہے جو آئین معطل کرتا ہے، آئین کو درخورِ اعتناد نہیں سمجھتا، جو آئین کو توڑتا ہے‘‘۔ محمود خان اچکزئی نے یہ بھی کہاکہ ’’جو لوگ بھی آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں انہیں ہماری تحریک کا ساتھ دینا چاہیے۔ عمران خان کو، مجھے، سردار اخترمینگل اور ہمارے الائنس میں شامل ہر جماعت کے قائدین کو یہ وعدہ دینا ہوگا کہ ان کی جماعت میں فصلی بٹیروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔ اُن کے مطابق یہی بات انہوں نے میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان سے بھی کہی تھی کہ ان سدا بہار درختوں کو سیاست سے عمر بھر کے لیے فارغ کردو، ان پر پابندی لگادو اگر پاکستان کو بچانا ہے۔ اچکزئی نے لندن کا تذکرہ یوں کیاکہ ’’عجب تیری قدرت، عجب تیرے کھیل چھچھوندر لگائے چنبیلی کا تیل، ایک جرنیل نے لندن میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو آفر دی کہ آپ اس اتحاد میں شامل نہ ہوں، آپ جو چاہتے ہیں ہم دیں گے۔ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کے اردگرد ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے ان کو مجبور کردیا۔ بے نظیر بھٹو ایک شاطر سیاسی خاتون تھیں، انہوں نے جرنیل صاحب سے کہا کہ آپ ہمارے پچیس سال کے کیسز ختم کردیں۔ ایک ڈکٹیٹر نے بادشاہوں کی طرح پچیس سال کے تمام مقدمات ختم کردیے۔ 9ہزار کرمنل کیسز جن میں اغوا کاری، بینک لوٹنا، قتل کرنا، ڈکیتی کرنا، لوگوں کو بے عزت کرنا و دیگر شامل تھے، جرنیل صاحب کے حکم پر سب ختم ہوئے۔ 9مئی کو کیا آسمان گرا؟ جب 9ہزار کیسز ختم کردیے تو 9مئی کے مقدمات بھی ختم کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد لائیں اور مقدمات ختم کیے جائیں۔‘‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’’اس وقت پاکستان میں عوام کی منتخب حکومت نہیں ہے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ اور فارم 47 کی حکومت ہے۔ پاکستان کے تمام ادارے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں‘‘۔
تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری عمر ایوب خان نے کہا کہ ’’دھاندلی زدہ مینڈیٹ سے قائم ہونے والی حکومت کو عوام کا سمندر بہا کر لے جائے گا۔ راتوں رات فارم تبدیل کرکے عوام پر جعلی حکومت مسلط کی گئی، اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملک میں تحریک انصاف کی حکومت بنتی۔ 9 مئی کو تحریک انصاف کے خلاف ایک سازش تیار کی گئی۔‘‘
پشین جلسے میں قراردادیں منظور کی گئیں جن میں کہا گیا کہ ’’آئینِ پاکستان کے دفاع کی یہ مقدس جدوجہد جو دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے بائیس کروڑ انسانوں کی امنگوں کی ترجمان اور ایک صحیح جمہوری پارلیمانی پاکستان کی تشکیلِ نو کی جدوجہد ہے، ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا‘‘۔ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے فراڈ، دھوکہ دہی اور خصوصاً 8فروری 2024ء کے عام انتخابات کے نتائج زر اور زور سے تبدیل کرنے کی مذمت کی گئی اور اسے مسترد کیا گیا۔ملک میں آزاد، شفاف، غیر جانب دار اور ہر قسم کی مداخلت سے پاک نئے انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔نیزقرار دیا گیا کہ ’’تمام ملک میں فارم نمبر 45کے مطابق نتائج کا از سر نو اعلان ملک کے سیاسی استحکام کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ملک کے تمام بحرانوں کی اصل وجہ آئینِ پاکستان سے انحراف ہے، اور پاکستان کے بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے آئین میں دی گئی اپنی اپنی حدود میں رہ کر پاکستان کے عوام کے ووٹ سے صحیح جمہوری انتخاب میںبننے والی پارلیمان کے ماتحت کام کریں، منتخب پارلیمان پاکستان کی تمام داخلی اورخارجی پالیسیاں بنانے کا منبع ومرکز ہو جو آئین کی صحیح روح کے مطابق حقِ حکمرانی ادا کرے۔ ملک کے تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں مکمل طور پر آزاد وخود مختار ہوں لیکن سب منتخب پارلیمان کے تابع ہوں۔ ریاست کے ستون اوّل پارلیمنٹ (مقننہ) کے انتخابات کو ہر قسم کی مداخلت سے پاک اور شفاف بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ قراردادوں میں کہا گیا کہ ’’عدلیہ کی آزادی (ججوں کو ڈرانے، دھمکانے اور دیگر تمام ناجائز ذرائع) اور وقار واحترام کو مجروح کرنے کی مذمت کر تے ہیں‘‘۔ عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو ہر صورت اور ہر حالت میں برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور دیگر تمام سیاسی، جمہوری کارکنوں کی فوری رہائی اور ان کے خلاف بے بنیاد، غیر آئینی وغیر قانونی مقدمات ختم کرنے، اور ملک بھر میں سیاسی کارکنوں کو لاپتا کرنے، ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی مذمت اور اس غیر آئینی عمل کے فوری تدارک کا مطالبہ کیا گیا۔ چمن میں جاری دھرنے (پرلت) کے تمام مطالبات کی حمایت کی گئی اور ان کے مطالبات فوری تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ کہا گیا کہ ’’ڈیورنڈ لائن پر پشتونوں کی جائز تجارت کو ختم کرنے کی سازشوں کی مذمت کرتے ہوئے جلسے کے شرکا تمام تجارتی پوائنٹس پر صدیوں سے جاری آمد و رفت اور تجارت کو جاری رکھنے اور تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔کہا گیا کہ ’’ملک کے مائنز ومنرل جو کہ صوبائی سبجیکٹ ہے، کے ہوتے ہوئے اس میں مرکز کی جانب سے مداخلت دراصل آئینِ پاکستان کی پامالی ہے،وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل(Special Investment Facilitation Council) غیر آئینی ہے اسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔‘‘