کیا تحریک تحفظِ آئین پاکستان پی این اے پارٹ ٹو ہے؟
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں استحکام کم اور انتشار اور غیر یقینی کی کیفیت زیادہ نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کو ابتدا ہی میں اپنے داخلی محاذ سمیت حکومت مخالف قوتوں کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا بحران اپنی سیاسی ساکھ کا ہے، کیونکہ کوئی بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ موجودہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہے۔ اس حکومت کو عوام کے بجائے ایک خاص طاقت ور طبقے کی حکومت سمجھا جارہا ہے، اور یہ حکومت اصولی طور پر 8فروری کے انتخابات کا نتیجہ نہیں بلکہ رات گئے9 فروری کی تشکیل دی گئی حکومت ہے اور اس کی بنیاد جعلی مینڈیٹ پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ الزام اس حکومت کو محض اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ہی نہیں سننا پڑرہا بلکہ خود مسلم لیگ (ن) کے سینئر راہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت ہمارے مینڈیٹ کی بنیاد پر نہیں بنی بلکہ جان بوجھ کر ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ جب حکمران جماعت کے اپنے اندر اعترافِ شکست کی کہانی چل رہی ہو تو پھر حکومت مخالف قوتوں کے سیاسی بیانیے کو مزید پذیرائی ملنا فطری امر ہے۔ اِس بار ہم دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سیاسی میدان میں تنہا نہیں بلکہ دیگر جماعتیں بھی اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان تمام جماعتوں کا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اس وقت ملک سیاسی، معاشی اور ریاستی بحران سے دوچار ہے، اور اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ آئین وقانون کی حکمرانی ہے۔ لیکن یہاں سیاست اور جمہوریت کا المیہ یہی ہے کہ معاملات کو آئین اور قانون کی بنیاد پر نہیں چلایا جارہا، بلکہ چند بڑی قوتیں اس کھیل کو یا نظام کو اپنی مرضی اور خواہش کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کررہی ہیں۔ لیکن جو سیاسی نظام یا جو نئی سیاسی حکومت ایک بڑی سیاسی سہولت کاری یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے لائی گئی ہے اس کی نہ صرف ساکھ بلکہ کارکردگی پر بھی بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف خود کو ایک بے بس وزیراعظم کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور اختیارات اُن کے بجائے وزیر داخلہ محسن نقوی کے پاس ہیں۔ سیاست، جمہوریت، آئین، قانون، معیشت اور سیکورٹی سمیت تمام معاملات پر وزیراعظم کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت خود وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھی اس بات پر پریشان نظر آتے ہیں کہ ہم حکومت میں تو آگئے ہیں مگر حکومت ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت یا وزیراعظم اس مسئلے کو بنیاد بناکر آواز اٹھاتے ہیں تو ان کے سامنے فارم 47پیش کردیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ آپ کی حکومت فارم 47 کی ہے اور اگر آپ نے کسی بھی سطح پر بلاوجہ کی مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس مینڈیٹ کی اصل کہانی سب کے سامنے پیش کردی جائے گی۔ اس لیے یہ حکومت نہ صرف جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر قائم ہے بلکہ ایک ڈری ہوئی، سہمی ہوئی اور خوف زدہ حکومت ہے جس کے پاس اپنی رٹ کو قائم کرنے کے لیے کوئی بھی سیاسی آپشن مضبوط بنیادوں پر موجود نہیں ہے۔
اسی تناظر میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک نئے سیاسی اتحاد ’’تحریک تحفظ آئینِ پاکستان ‘‘ کی بنیاد پر سامنے آنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے اور حکمران طبقے کے مقابلے میں ایک بڑی اپوزیشن کا درجہ بھی رکھتی ہے، مگر اِس بار اس تحریک کی سربراہی ابتدا میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کے پاس ہے جو بلوچستان کی سیاست میں بہت اہم ہیں۔ ابتدا میں اس اتحاد میں پی ٹی آئی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین اور سردار اختر مینگل کی جماعت شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی حکومت مخالف تحریک کا اعلان کرچکے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی تحریک کو تن تنہا چلاتے ہیں یا وہ بھی اس بڑے سیاسی اتحاد کا حصہ بن کر حکمران طبقے کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اگرچہ اس نئی تحریک کی بنیاد ابتدائی طور پر آئین پاکستان کا تحفظ ہے اور ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ بڑا مسئلہ آئینِ پاکستان سے انحراف کی پالیسی ہے جس نے بڑے سیاسی بحران کو جنم دیا ہے۔ اس بار ایک طرف اس تحریک میں عمران خان نظر آتے ہیں تو دوسری طرف محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، علامہ ناصر نقوی اور جماعت اسلامی بھی خاصے سرگرم نظر آتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ اس نئی تحریک کا ڈھانچہ کیا ہوتا ہے اور تحریک تحفظِ آئین پاکستان کے علاوہ کن نکات کو بنیاد بناکر اپنی اس جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہے۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے فی الوقت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے اور اس پر سیاسی سطح پر جو پابندیاں ہیں وہ بھی بدستور قائم ہیں۔ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت بشمول عمران خان جیلوں میں ہے اور ان کی سیاسی قیادت وکلا کی سطح پر موجود ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کی ضرورت یہی بنتی تھی کہ وہ اس سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرے، کیونکہ جیسے جیسے تحریک آگے بڑھے گی اور سرگرمیاں ہوں گی تو اس کا فائدہ یقینی طور پی ٹی آئی کو بھی ہوگا۔ بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ یہ نئی تحریک ’پی این اے پارٹ ٹو‘ ہوگی جو ایک بڑے سیاسی اتحاد کی شکل اختیار کرسکتی ہے اور سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی اور وکلا یا میڈیا کی تنظیمیں بھی اس کا حصہ بن سکتی ہی ۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ موجودہ ریاست اور حکومت کا نظام مصنوعی اور کنٹرولڈ طریقے سے چلایا جارہا ہے جس میں سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے، ان حالات میں تحریک کا چلنا یا اٹھنا فطری امر لگتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی تحریکوں کا ماضی کوئی زیادہ اچھا نہیں، اور ہم نے مسائل کو بنیاد بنانے کے بجائے ہمیشہ سے شخصیات کو ٹارگٹ کرکے تحریک کو چلایا ہے۔ اسی طرح بڑے سیاسی مقاصد کے حصول کے بجائے کسی کی حکومت کو گرانا اور کسی کی حکومت کو سامنے لانا، یا اسٹیبلشمنٹ کے سہولت کار کے طور پر خود کو پیش کرنا، یا لوگوں کو جذباتی نعروں کی بنیاد پر تحریک کا حصہ بناکر ان کا سیاسی استحصال کرنا ہماری ماضی کی تحریکوں کا خاصہ رہا ہے۔ اس وقت بھی اگرچہ منطق یہی پیش کی جارہی ہے کہ ہم کو مل کر تحفظِ آئین کو یقینی بنانا ہے۔ مگر کیا یہ تحریک بھی ماضی کی تحریکوں کی طرح موجودہ حکومت کو گرانے اور خود کو اقتدار کے کھیل کا حصہ بنانے تک محدود ہے؟ اس وقت پاکستان کو داخلی اور خارجی یا علاقائی محاذ پر جو بھی سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی، سیکورٹی، آئینی یا معاشی مسائل درپیش ہیں کیا یہ نئی سیاسی تحریک ان ایشوز کو بنیاد بناکر بڑی سیاسی تحریک کی بنیاد بن سکتی ہے؟ کیا ہماری حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس عمل میں واقعی سنجیدہ ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا اس کھیل کا مقصد بھی خود کو بالادستی دلاکر اپنے لیے اقتدار کے کھیل کے راستے کو ہموار کرنا ہے؟ ایک عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ پاکستان میں جو بھی سیاسی تحریکیں اٹھتی ہیں اُن کی کامیابی کا بڑا دارومدار اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر ہوتا ہے۔ یعنی یا تو آپ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کی بنیاد پر نئی سیاسی تحریکوں کی تشکیل کرتے ہیں، یا خود ایسی تحریکوں کی بنیاد رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے سیاسی کارڈ کھیلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام تر تحریکوں کی بنیاد پر ہم ایک مضبوط سیاسی اور جمہوری نظام کو یقینی نہیں بناسکے ہیں۔ اس نئی تحریک میں خاصا دم خم ہے۔ اگر دیانت داری سے دیکھیں تو ایک طرف پی ٹی آئی کی پاپولر سیاست، اور دوسری طرف بلوچستان سے محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کی سیاسی شخصیات ہیں۔ آگے جاکر عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی بھی اس اتحاد کا حصہ بن سکتی ہیں، اور اگر ان میں اتحاد نہیں ہوتا تو بھی یہ دونوں جماعتیں مشترکہ اپوزیشن کے حق میں ہی ہوں گی۔ لیکن اہم سوال یہی ہے کہ کیا یہ نیا سیاسی اتحاد خود کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے باہر نکال سکے گا اورکیا اپنے فیصلے آزادانہ بنیادوں پر کرنے کی صلاحیت رکھ سکے گا؟ یا یہ بھی تبدیلی کے لیے ’’اشاروں‘‘ کی سیاست کو ہی بنیاد بنائے گا؟کیونکہ جب بھی کوئی تحریک اپنے لیے راستہ تلاش کرلیتی ہے تو اسے اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے ایجنڈے کے تحت ہی جوڑتی ہے۔کیونکہ اس وقت ہماری قومی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آنکھ مچولی کا جو کھیل ہے اس نے جمہوری عمل کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کوئی بھی سیاسی تحریک جب تک خود کو اور دوسرے فریقین کو آئینی اور قانونی دائرہ کار میں نہیں لائے گی اور سب خود کو اپنے اپنے سیاسی اور قانونی یا آئینی دائرہ کار تک محدود نہیں رکھیں گے اُس وقت تک ملک کے معاملات میں درستی آسان نہیں ہوگی، بلکہ یہ مسائل مزید گمبھیر ہوجائیں گے۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ جہاں آئین و قانون کو تحفظ دینا ہے وہیں سیاست اور جمہوریت کو بچانا بھی ہے۔ جعلی انتخابات اور محض انتخابات کے نام پر جعلی حکومتیں بنانے کا کھیل، یا اسٹیبلشمنٹ سمیت دیگر اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت یا سیاسی جماعتوں کی سطح سے اسٹیبلشمنٹ کے لیے سہولت کاری کا کھیل، حکومتیں بنانے اور گرانے کا کھیل، احتساب کو سیاسی انتقام یا سیاسی جوڑتوڑ کے لیے استعمال کرنا، کنٹرولڈ سیاسی نظام یا ہائبرڈ نظام، جہاں سیاسی قوتیں کمزور اور غیر سیاسی قوتیں طاقت ور ہوں وہاں ایک مضبوط جمہوریت پر مبنی نظام اور اس کا استحکام ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پہلے ہی ان کا سیاسی مقدمہ عوامی عدالت میں بہت کمزور ہے اور اگر انہوںنے اس طرح کی تحریکیں چلا کر عوامی مسائل کے حل کے بجائے محض طاقت کی سیاست تک خود کو محدود کیا تو اس سے عام آدمی کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ اگر واقعی ہماری آج کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں ’’تحفظِ آئینِ پاکستان‘‘ پر مبنی تحریک چلانا چاہتی ہیں تو ان کو کم سے کم ایجنڈے کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہوگا جس میں آئین کو جس برے انداز سے کچلا جارہا ہے یا جس انداز سے سیاست کو مکمل کنٹرول کرلیا گیا ہے اس کو کیسے آزاد کروایا جائے، اور سیاسی خودمختاری ہو، یا ہم کو آئینی، قانونی اور معاشی خودمختاری سے جڑے مسائل کا سامنا ہے، سب پر ہمیں ایک نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔ سیاست کو جب تک ہم روایتی حکمرانی یا روایتی ریاستی نظام سے باہر نہیں نکالیں گے ہمارے مسائل میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا اور اس کی بڑی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں بہتری کے لیے ریاستی نظام اور حکومت پر دبائو ڈالنا اور ایک بڑی تحریک کو آگے بڑھانا اچھی بات ہے۔کیونکہ پاکستان کو اگر واقعی بہتری کی طرف جانا ہے تو ہمیں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہماری سیاسی قیادتیں زیادہ تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ذمہ دارانہ سیاست کی طرف پیش رفت کریں۔ قوم میں جو ناامیدی ہے، یا مایوسی اور سیاسی تقسیم بہت گہری ہوگئی ہے اس کو کم کرکے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ہم حالات کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بہت ضروری امر ہے۔کیونکہ جس طریقے سے ہمارا ریاستی و حکومتی نظام حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہے اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے اور نہ ہی حل ہوسکیں گے۔ ہمارا ہدف محض موجودہ حکومت گرانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اپنی اس تحریک کے نتیجے میں جہاں اقتدار کی عملی سیاست کرنی ہے وہیں پہلے سے موجود نظام کو تبدیل بھی کرنا ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم معاملات کو درست کرنے کے لیے کچھ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے جو لوگوں کے مسائل کے حل میںکلیدی کردار ادا کرسکے۔ اس لیے حکومت کے خلاف تحریک ضرور چلائی جائے لیکن ا س کے لیے ہم سب کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا تاکہ مثبت سمت میں آگے بڑھ سکیں۔