اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ

ـ7 اکتوبر کے بعد یہ غزہ کی انتہائی پُرسکون شب تھی

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایران نے اسرائیل پر 185 شاہد ڈرون، 110 میزائیل، 36 کروز اور متعدد منجنیقی (ballistic)میزائیل داغ دیے۔ پانچ گھنٹے جاری رہنے والی اس مہم کا آغاز عراقی صوبے دیالہ کے قریب ایرانی سرحد سے ہوا۔ یمن کے حوثیوں، لبنانی حزب اللہ اور عراقی ایران نواز عناصر نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔ ایران کا حملہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع نہیں تھا بلکہ اس حملے کی سب سے منفرد بات ہی یہ تھی کہ اس میں رازداری کا تکلفاً بھی خیال نہیں رکھا گیا اور ایران نے سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کے میزائیل حملے کا تہران نے بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ یکم اپریل کو ہونے والی میزائیل باری میں 16 افراد جاں بحق ہوئے جن میں پاسدارانِ انقلابِ ایران کے سینئر کمانڈر بریگیڈیر جنرل محمد رضا بھی شامل تھے۔

ایران نے حملے کے لیے اپنی تیاریوں کو خفیہ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور 12 اپریل کو امریکی صدر جوبائیڈن نے بہت اعتماد سے کہا کہ ایرانی حملہ 24 گھنٹے میں متوقع ہے، اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی دفاع کی بنفسِ نفیس نگرانی کے لیے امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا تل ابیب پہنچ گئے۔

ہفتے کی رات ایرانی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا کہ ’قابض صہیونیوں‘ پر میزائیل اور ڈرون داغ دیے گئے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت اسرائیلی فوج کے ترجمان نائب امیر البحر ڈینیل ہگاری قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور کہا کہ ہم غافل نہیں، اسرائیل کا دفاعی نطام مستعد و چوکس ہے۔ انھوں نے اسرائیلی شہریوں کو حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ Killer Drone نصف شب (پاکستانی معیاری وقت کے مطابق اتوار کی صبح ساڑھے تین بجے) تک اسرائیلی حدود میں داخل ہوں گے اور ان کے استقبال کو ہم تیار ہیں۔

اسی کے ساتھ امریکہ نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے اردن، عراق و شام کی فضائوں پر حفاظتی چھتری (Aerial umbrella)تان دی۔ امریکہ، برطانیہ اور اردنی فضائیہ کے طیارے فضا میں بلند ہوئے اور ایرانی ڈرونوں کو روکنے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ اسرائیلیوں کے اعتماد کا یہ عالم کہ چینل 12 نے ایرانی ڈرون، راکٹ اور میزائیلوں کے اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے کی تفصیل اسکرین پر لگادی جسے ہر پانچ منٹ بعد updateکیا جارہا تھا۔

امریکہ کے دفاعی نظام نے اکثر ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیلی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ناکارہ کردیا۔ اسرائیل کی فضا نصف شب کے بعد میزائیل شکن مزاحمتی گولوں (Interceptor)کے دھماکوں سے گونج اٹھی۔ ڈرون اور مزاحمتی گولوں کے تصادم سے آسمان پر پھلجڑی کا سمان بندھ گیا۔ مسجد اقصیٰ اور گنبدِ صخرا کے اوپر بھی یہی منظرتھا۔

ڈرون اور میزائیل داغے جانے کے فوراً بعد پاسدارانِ انقلابِ اسلامی ایران کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’تہران نے اقوام متحدہ کے چارٹر 51کے تحت کارروائی کی ہے جو تمام اقوام کو دفاع کا حق دیتا ہے، ہمارا مشن مکمل ہوگیا۔ ایران کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتا۔‘ُ ساتھ ہی کہا کہ ’’اس معاملے میں امریکہ ٹانگ نہ اڑائے۔‘‘

صبح پانچ بجے اسرائیل میں خطرہ ٹلنے کے سائرن کے ساتھ اعلان ہوا کہ ’’میزائیلوں کی بارش تھم چکی ہے، اور شہری اب معمول کی مصروفیات شروع کرسکتے ہیں‘‘۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے ایران کا خوفناک حملہ ناکام بنادیا، ان کے 99 فیصد ڈرون اور میزائیلوں کو اسرائیل نے اپنے ’اتحادیوں‘ کی مدد سے فضا میں ناکارہ کردیا ہے۔ ترجمان کے مطابق ایک میزائیل گرنے سے صحرائے نقب (Negev Desert)کے شہر ارد میں ایک سات سالہ بچی شدید زخمی ہوئی اور جنوبی اسرائیل میں ایک فوجی اڈے کی عمارت کو معمول نقصان پہنچا۔

اس مشن کے نتیجے میں ایران نے یہ ثابت کردیا کہ اُس کے ڈرون اور میزائیلوں کی پہنچ اسرائیل تک ہے۔ کم ازکم 3 ایرانی میزائیل اسرائیلی اڈوں تک پہنچے اور F-35 طیاروں کے ایک اڈے کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، تاہم اس سے صرف عمارت کی بیرونی دیوار کو نقصان پہنچا۔ یعنی رت جگے اور اعصاب شکن اضطراب کے سوا اسرائیلیوں کو کوئی خاص زِک نہ پہنچی۔ آئرن ڈوم اور اس سے متعلقہ اخراجات چچا سام کے سر ہیں اس لیے مالی بوجھ بھی کوئی خاص نہیں۔

اس قسم کی کارروائی میں رازداری کوکلیدی حیثیت حاصل ہے، یعنی دشمن کو بے خبری میں دبوچ کر ہی کاری ضرب لگائی جاتی ہے، لیکن ایران کا ہر عمل انتہائی شفاف تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب عسکری ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔

7 اکتوبر کے بعد یہ غزہ کی انتہائی پُرسکون شب تھی کہ وہاں تعینات تمام بمبار طیارے اور خونی ڈرون ایرانی ڈرونوں اور میزائیلوں کا تعاقب کررہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ اس دوستانہ میچ کا سب سے مثبت پہلو تھا۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔