اپنے خون میں غسل کرتے اہلِ غزہ کی عید بھی لہو رنگ رہی۔ آخری روزے کے افطار کے وقت سے شروع ہونے والا بمباری کا سلسلہ عید کے دن مغرب تک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران 120 مقامات پر بمباری کی گئی۔ بچی کھچی مساجد اور کھلے مقامات پر عید کے اجتماعات ان بمباروں کے خاص ہدف تھے۔
شمالی غزہ کے پناہ گزینوں کے کیمپ مخیم الشاطی پر ٹھیک اُس وقت حملہ کیا گیا جب وہاں لوگ عید مل رہے تھے۔ قائدِ غزہ اسماعیل ہنیہ کا خاندان ہدف تھا اور اُن کے تین صاحب زادے حازم، عامر اور محمد، ہانیہ صاحب کی تین پوتیاں اور ایک پوتے سمیت درجنوں افراد اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ایک دہشت گرد کارروائی کا منصوبہ بنارہے تھے۔ اسماعیل ہنیہ نے 62 برس پہلے اسی کیمپ میں جنم لیا اور یہاں آباد ان کا خاندان حملے کے آغاز سے ہی اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ پہلے روز ایک حملے میں اُن کے بھائی اور بھتیجے سمیت خاندان کے 14 افراد مارے گئے۔ نومبر کے آغاز پر اُن کی جواں سال نواسی نشانہ بنی، جس کے کچھ دن بعد ایک ڈرون اُن کے کم عمر نواسے کو چاٹ گیا۔ 7 اکتوبر سے اب تک ہنیہ خاندن کے 60 افراد قتل کیے جاچکے ہیں۔
عید کے دن ہونے والی کارروائی کی اطلاع جناب ہنیہ کو اُس وقت ملی جب وہ قطر کے ایک اسپتال میں اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے خبر سنتے ہی اللہ کی حمد بیان کی اور کہا ’’اللہ کا شکر کہ جس نے میرے خاندان کو شہادت کا افتخار عطا کیا۔ میرے بچوں کا لہو غزہ میں قتل کیے جانے والے ہزاروں بچوں کے لہو سے زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ ہمارے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کو قتل کرکے اگر دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ہتھیار ڈال دیں گے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ غزہ کے بچوں کے پاک لہو نے فتحِ بیت المقدس کی تحریک کو مزید مقدس کردیا ہے۔‘‘ دعائیہ کلمات کے بعد ہنیہ صاحب نے عیادت جاری رکھی اور وہ مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دعائے شفا پڑھتے ہوئے مریضوں کی پیشانیاں سہلاتے رہے۔ اپنی اہلیہ کو تین بیٹوں اور پوتے پوتیوں کی شہادت کی اطلاع انھوں نے خود دی۔ خبر سنتے ہی بیگم اسماعیل ہنیہ نے ہاتھ بلند کرکے اپنے بیٹوں کی بلندیِ درجات کی دعا کی اور انگلیوں سے فتح کا نشان بنایا۔
یہ تو ایک واقعہ تھا۔ غزہ سے اسرائیلی فوج کی وحشت و سفاکی کی ہولناک خبریں روز ہی آرہی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے قتل عام کے ساتھ طبی سہولیات کو ہدف بناکر تباہ کیا جارہاہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO)کے مطابق اپریل کے آغاز سے اب تک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 489 افراد جاں بحق ہوئے، 600 سے زیادہ زخمی اور310 افراد گرفتار کرکے عقوبت کدوں کو بھیج دیے گئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ اسپتال اور شفاخانے تباہ ہوچکے ہیں، جبکہ غیر مؤثر کردیے جانے والے طبی مراکز کی تعداد 32 ہے۔ مشہور الشفا اسپتال کے بڑے حصے کو سرنگ تلاش کرنے کے نام پر نذرِآتش کردیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق ایمبولینسوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے اور کم ازکم 126 ایمبولینسوں کو اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب اُن میں مریض سوار تھے۔
بچوں اور خواتین کے قتلِ عام، گھروں میں گھس کر سامان کی توڑ پھوڑ اور وہاں موجود نہتی خواتین سے نازیبا حرکتوں کی خبریں بھی عام ہیں اور بے شرمی کی انتہا کہ ناشائستہ سمعی و بصری تراشے اسرائیلی سپاہی سوشل میڈیا پر خود پیش کررہے ہیں۔ ان خبروں اور تراشوں سے دنیا بھر کے سلیم الفطرت انسان تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس تشویش کا ’دف‘ مارنے کے لیے اب اسلامی انتہا پسندی کا کارڈ کھیلا اور اسلامو فوبیا کو ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے۔ 23 مارچ کو ماسکو کی رقص گاہ میں ہونے والی کارروائی سے اس نئی مہم کا آغاز ہوا ہے جس میں 145 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ماسکو واردات کے ملزمان تو مسلمان اور مبینہ طور پر داعش سے وابستہ ہیں لیکن چاروں ملزمان فرار ہوتے ہوئے یوکرین کی سرحد کے قریب سے گرفتار ہوئے، اور روسی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ پورا ٹولہ یوکرین سے آیا تھا۔ یورپ میں کئی جگہ دہشت گردی کے خطرات کا بہانہ بناکر فلسطین کے حق میں مظاہروں پر پابندی لگادی گئی ہے۔ جگہ جگہ معبدوں اور گرجا گھروں کے قریب ’مشتبہ سرگرمی‘ کے شوشے عام ہیں۔
جمعرات 11 اپریل کو کانگریس کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض (Appropriation)کے روبرو وفاقی ادارۂ تحقیقات (FBI)کے سربراہ کرسٹوفر رے نے امریکہ میں ماسکوکی طرز کی ایک خوفناک اور بہت ہی منظم دہشت گرد کارروائی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے ضروری قانون سازی پر زور دیا۔ اس سے موصوف کی مراد 9/11 کے بعد منظور کیا جانے والا غیر ملک سراغ رسانی و نگرانی ایکٹ یا FISA تھا، جس کی صدر بائیڈن تجدید چاہتے ہیں۔ اس قانون کے تحت امریکی اہلکار امریکہ اور امریکہ سے باہر بلا وارنٹ کسی بھی غیر امریکی کی نقل و حرکت کی نگرانی کرسکتے ہیں جس میں فون ریکارڈنگ اور برقی خط اور سوشل میڈیا کی جاسوسی شامل ہے۔
اہلِ غزہ کی منظم نسل کُشی کے ساتھ اسرائیل کے طول و عرض میں قیدیوں کی واپسی کے لیے مظاہرے جاری ہیں، 6 ماہ مکمل ہونے پر تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے مظاہرہ کیا۔ جلوس میں شامل لواحقین فریاد کررہے تھے کہ ’’بی بی جی! جنگ بند کرو، ہتھیار رکھو، ہتھیار ڈالو، غزہ سے واپس آجائو، سارے فلسطینی قیدی رہا کردو، یا اور جو کچھ ممکن ہے کرو لیکن ہمارے پیاروں کو دوبارہ ہم سے ملادو‘‘۔ ایک بڑے بینر پر لکھا تھا ’’بائیڈن! ہمارے قیدیوں کو نیتن یاہو (کی انا) سے بچائو‘‘۔
بی بی کے لیے دلدل سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔ اُن کے قدامت پسند اتحادی ’فتح مبین‘ یعنی رفح کی پامالی اور مستضعفین کے مکمل خاتمے سے کم پر راضی نہیں۔ دودن پہلے اُن کے اہم شراکت دار اتامر بن گوئر نے کہا کہ ’’اگر وزیراعظم رفح پر حملے اور دشمن کو فنا کیے بغیر جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُن کا حقِ حکمرانی(مینڈیٹ) ختم ہوجائے گا۔‘‘ 120 رکنی پارلیمان میں جنگجو انتہاپسندوں کی 14نشستیں، نیتن یاہو کی حکومت گرانے کے لیے کافی ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی حزبِ اختلاف اور قیدیوں کے لواحقین ابتدا ہی سے شاکی ہیں کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی کو اپنے قیدیوں کی بحفاظت واپسی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ بی بی اپنے جرنیلوں پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ قیدیوں کو طاقت کے بل پر رہا کرایا جائے، اور اس کوشش میں کم از کم پانچ قیدی خود اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
ان کی خودغرض طبیعت کا بھانڈا 11 اپریل کو اُس وقت پھوٹ گیا جب مشہور اینکر محترمہ الانا دایان (Ilana Daan)نے چینل 12 پر اپنے پروگرام ’حقیقت‘ (عبرانی حفضہ یا Uvda) پر اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے دو سینئر ارکان کی گفتگو نشر کی، جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے Aاور D کے فرضی نام استعمال کیے۔ ان کی تصاویر دھندلی اور آواز بدل دی گئی تھی۔
دونوں نے انکشاف کیا کہ ’’نیتن یاہو اسرائیلی قیدیوں کی قسمت کے بارے میں لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور اُن کے اس رویّے کی وجہ سے رہائی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’بی بی عوام کے سامنے جو بیانیہ رکھ رہے پیں وہ اُن کے عملی اقدامات سے بالکل مختلف ہے۔ دسمبر کے بعد سے ہمیں اشارے ملنے لگے تھے کہ وزیراعظم مذاکرات نہیں چاہتے اور جنوری کے اختتام پر ہمیں یقین ہوگیا کہ وزیراعظم مذاکرات کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ قیدیوں کی حالتِ زار کے بارے میں بی بی کے رویّے کو ’سرد بے حسی‘ کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سفارتی حکمتِ عملی کے باب میں نیتن یاہو نئے خیالات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
الانا کے ایک سوال کے جواب میں D کھل کر بولے ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ نیتن یاہو کے بغیر (اب تک) کوئی معاہدہ ہوچکا ہوتا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نیتن یاہو کے بغیر معاہدہ کرنے کے امکانات بہتر ہوں گے‘‘۔ D نے مزید کہا ’’ایسا کئی بار ہوا کہ ہمیں دن میں مینڈیٹ ملا اور پھر رات کو وزیراعظم نے فون کرکے کہا ’ایسا مت کہو، یہ شرط نہ مانو، اس کی اجازت نہ دو۔‘‘
D صاحب کا کہنا تھا کہ ’’وزیراعظم کے حکم پر اسرائیلی ٹیم ناممکن مطالبات کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، جیسے مارچ میں زندہ یرغمالیوں کی فہرست کا مطالبہ، جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ راضی نہیں ہوں گے۔ یہ مطالبہ انتہائی مضحکہ خیز تھا، اس لیے کہ ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست موجود ہے۔ معلوم نہیں ہم مستضعفین سے یہ مطالبہ کیوں کررہے ہیں!‘‘
جناب A نے جذباتی انداز میں کہا ’’جب مجھے احساس ہوا کہ ریاست وہ سب کچھ نہیں کررہی جو وہ کرسکتی ہے، تو میں رو پڑا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ معاہدہ ہونے تک کون زندہ ہوگا یا کیا باقی رہ جائے گا۔ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ دوماہ پہلے ہوسکتا تھا، میں قوم کو کیسے بتائوں کہ خاکم بدہن، قیدیوں کی رہائی کا وقت ختم نہیں ہورہا بلکہ ختم ہوچکا۔‘‘
بی بی نے فلسطینیوں سے نفرت کی آگ بھڑکاکر اسرائیلی قوم کو عدم برداشت کی جس کھائی میں گرا دیا ہے اس کی ایک مثال پر گفتگو کا اختتام: اسرائیلی پولیس جامعہ تل ابیب کی سینئر لیکچرر ڈاکٹر اناث مطار (Anat Matar)کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کے الزامات کی تحقیق کررہی ہے۔ ڈاکٹرمطار ایک راسخ العقیدہ یہودی اور 2004 سے یہاں فلسفے کی لیکچرر ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہے کہ انھوں نے ممتاز فلسطینی ادیب و دانشور ولید دقہ کی وفات پر ان کے خاندان سے تعزیت کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا کہ ’’ڈاکٹر دقہ میرے عزیز دوست اور حوصلہ مندی کا استعارہ تھے‘‘۔ دقہ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کاٹ رہے تھے کہ 7 اپریل کو ان کا دورانِ حراست انتقال ہوگیا۔ ولید دقہ نے بی اے اور ایم اے جیل سے کیا۔ پی ایچ ڈی میں ان کی ایڈوائزر ڈاکٹر مطار تھیں لیکن تکمیل سے پہلے ہی دقہ چل بسے۔
فیس بک پوسٹ دیکھ کر جامعہ کے انتہاپسندوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ڈاکٹر اناث مطار کو ولید دقہ کی خالی کوٹھری بھیج دیا جائے۔ خبر ہے کہ جامعہ نے تحقیقات مکمل ہونے تک ڈاکٹر صاحبہ کو بلاتنخواہ جبری تعطیل پر بھیج دیا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ جامعات تحقیق و جستجو کا مرکز ہوتی ہیں اور آزادیِ اظہار کے بغیر محققین کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ستم ظریفی کہ امریکی و یورپی ماہرینِ تعلیم کا اب تک اس حوالے کو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔