اسلامی فلاحی ریاست…؟

وزیراعظم محترم میاں محمد شہبازشریف نے قوم کو نصیحت فرمائی ہے کہ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کے ویژن کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عہد کریں اور اُن لوگوں کا خیال رکھنے کا اعادہ کریں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے، اور ہم مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کریں جن کا خون آج بھی بہایا جارہا ہے۔ ان زریں خیالات کا اظہار وزیراعظم نے لاہور میں عیدالفطر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ محترم محمد شہبازشریف کی اس گفتگو کا ایک ایک لفظ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے، مگر اس کا کیا کیجیے کہ میاں صاحب کی اس ساری گفتگو کی حیثیت ’’دیگراں را نصیحت، خود میاں فضیحت‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا قرآن حکیم میں بڑا واضح اور دوٹوک اعلان ہے کہ: ’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ شدید ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو، جو کرتے نہیں۔‘‘

جناب وزیراعظم اکثر مواقع پر اس طرح کے ارشادات فرماتے رہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ کس کو کہہ رہے ہیں؟ جب کہ وہ خود دوسری مرتبہ ملک کے سب سے اہم اور بااختیار منصب وزارتِ عظمیٰ پر تشریف فرما ہیں، ان سے قبل تین بار ان کے برادرِ بزرگ بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں، جب کہ وہ خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ اتنا طویل عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں گزارنے کے بعد بھی اگر وہ محض نصیحتوں پر گزارا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک روز خالق و مالکِ کائنات کے حضور پیش ہوکر جواب دہی بھی کرنا ہے، اگر اس نے پوچھ لیا کہ وہ بات کیوں کہتے رہے جس پر ملک کا سب سے بااختیار فرد ہونے کے باوجود عمل نہیں کرتے تھے؟ تو وہ اپنے رب کو کیا جواب دیں گے! وزیراعظم نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی تلقین فرمائی ہے، جب کہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ سود جیسی لعنت، جسے قرآن میں اللہ اور رسولؐ سے جنگ قرار دیا گیا ہے، اسے جاری رکھنے پر وہ بضد ہیں۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں دستورِ پاکستان کی روشنی میں بار بار فیصلہ سنا چکی ہیں کہ سودی نظامِ معیشت قرآن و سنت اور آئینِ پاکستان کے منافی ہے، اس لیے اسے ختم کرکے اسلامی نظامِ معیشت رائج کیا جائے۔ مگر شریف خاندان مسلسل قرآن و سنت، آئینِ پاکستان اور اعلیٰ ترین عدالتوں کے احکام سے روگردانی کرتے ہوئے سودی معاشی نظام قوم پر مسلط رکھنے پر بضد ہے۔ اسی ضد کے باعث ملک کی معیشت دیوالیہ ہوچکی ہے مگر ہمارے حکمران اب بھی راہِ راست اختیار کرنے اور کتابِ ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے سود کے عالمی ساہوکاروں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے اداروں کے سامنے کشکولِ گدائی لیے سجدہ ریز ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ جاری رہے اور اسلامی فلاحی ریاست بھی قائم ہوجائے بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟

وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کے اقتدار کے زیر سایہ سود ہی نہیں، فحاشی و عریانی اور بے حیائی کا کاروبار بھی زور شور سے جاری ہے، ذرائع ابلاغ حکومتی سرپرستی میں لغویات اور بے ہودگی کے فروغ میں تمام حدود پھلانگ چکے ہیں، کسی فرد یا ادارے کے متعلق ذرا سی منفی بات کہنے پر تو ان اداروں کو ایسی ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی مثال ماضی میں تلاش کرنا مشکل ہے مگر اللہ اور رسولِ رحمتؐ کے احکام کی کھلے بندوں خلاف ورزیوں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا ہے، ملّی اقدار اور قومی روایات کو مسلسل پامال کیا جارہا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ پھر بھی خواہش یہ ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست قائم ہوجائے! ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘۔ مگر فیصلہ تو اعمال ہی پر ہوگا۔

عدل کسی بھی ریاست کے وجود کی اساس قرار دیا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں بھی جگہ جگہ اس کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور ہر حال میں عدل کو سربلند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ اس کی زد خود اپنی ذات یا نہایت قریبی رشتوں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ مگر وطنِ عزیز میں عدل کا جو حشر کیا جا چکا ہے، اس کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ سرکاری محکموں میں بدعنوانی، رشوت، اقربا پروری، معاشرے میں بدامنی، بدمعاشی، چوری، ڈاکے اور لاقانونیت کا راج ہے، کسی بھی سطح پر اس ناگفتہ بہ صورتِ حال کی اصلاح کی کوشش بلکہ خواہش تک دکھائی نہیں دیتی، اس کے باوجود دعویٰ ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کے قیام کا ہے، ایسے دعوے پر بھلا کوئی یقین کیسے کرے گا؟

جناب شہبازشریف نے اپنے ارشاداتِ عید میں ضرورت مندوںکی مدد کرنے کی نصیحت بھی اہلِ وطن کو فرمائی ہے۔ کوئی ذی ہوش اُن کی اِس نیک نصیحت سے اختلاف کی جرأت نہیں کر سکتا، البتہ یہ ضرور عرض کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم اس نہایت مستحسن اقدام کا آغاز اگر اپنی ذات اور اپنے خاندان سے کریں تو نہ صرف یہ نصیحت بہت زیادہ نتیجہ خیز رہے گی بلکہ اس کے دوررس اور خاصے پائیدار نتائج سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وزیراعظم کے شریف خاندان کا شمار ملک کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے، پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اس خاندان کے کاروبار اور جائدادیں پھیلی ہوئی ہیں، جب کہ خود وزیراعظم کے بقول وہ ایک محنت کش مزدور باپ کے فرزندِ ارجمند ہیں، چنانچہ اگر ان کا خاندان اپنی اس اَن گنت دولت میں سے اپنے گزارے کے لیے معقول حصہ رکھ کر باقی ماندہ، اپنی عید کی نصیحت کے مطابق، ضرورت مندوں کے لیے وقف کردے تو بلاشبہ پاکستان سے غربت بڑی حد تک ختم ہوجائے گی، اور اگر وہ اس نیک کام میں اپنے شریکِ اقتدار زرداری و بھٹو جیسے بڑے خاندانوں کو بھی حصہ دار بننے پر آمادہ کر لیں تو یقین جانیں ملک کے تمام دلدر دور ہوجائیں گے، نہ صرف ملکی معیشت ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتے ہوئے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے گی اور ہمیں کسی کے سامنے کشکول بدست حاضری کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ یہ دعویٰ بھی بلاخوف ِتردید کیا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی غریب کے بھوک، بیماری، لاچاری اور بے روز گاری جیسی پریشانیوں کے سبب بچوں سمیت خود کشی کی خبریں آنا بھی بند ہوجائیں گی۔ کیا توقع رکھی جائے کہ وزیراعظم اس نیک کام کا آغاز اپنے گھر سے کریں گے؟

وزیراعظم کے اس مختصر خطبہ ٔ عید کا آخری نکتہ بھی نہایت اہم ہے کہ ’’مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کی جائے جن کا خون آج بھی بہایا جارہا ہے۔‘‘ طولِ کلام کے بجائے یہاں بھی جناب وزیراعظم سے یہی گزارش مناسب ہوگی کہ وہ براہِ کرم قوم کو ان اعداد و شمار سے آگاہ فرمادیں کہ ان کی حکومت نے اس ضمن میں مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کا خون بہانے والوں اور اُن کے سرپرستوں کے خلاف کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور ان کی جماعت نواز لیگ نے جس کے میاں شہبازشریف خود صدر بھی ہیں، آج تک ان مظلومین کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے کتنے مظاہرے، جلسے، جلوس، ریلیاں یا سیمینار منعقد کیے ہیں، یا ان کی مدد کے لیے کتنے ارب روپے کا اسلحہ اگر نہیں تو کم از کم امدادی سامان ارسال کیا ہے؟ اگر وہ جواب سے مطمئن ہیں تو الحمدللہ! ورنہ سوچ لیں کہ فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں اور کل اگر مالکِ یوم الدین نے پوچھا کہ ’’وہ باتیں کیوں کہتے رہے جو کرتے نہیں تھے…‘‘ تو کیا اُسے مطمئن کرپائیں گے (حامد ریاض ڈوگر)