ہر عبادت کا ایک ’ظاہر‘ ہوتا ہے اور ایک ’باطن‘۔ظاہر سے مراد وہ عملی شکل ہے، جو کسی عبادت کو ادا کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے، اور باطن سے مراد وہ معنی ہیں، جو اس عملی شکل میں مضمر ہوتے ہیں اور جن کے اظہار کی خاطر عمل کی وہ خاص شکل مقرر کی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر نماز کا ظاہر یہ ہے کہ آدمی قبلہ رُخ کھڑا ہو، رکوع کرے، سجدہ کرے، بیٹھے۔ اور اِن ظاہری افعال سے نماز کی جو شکل قائم کی جاتی ہے، اُس سے مقصود دراصل اس معنی کا اظہار ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے حضور بندگی کا اعتراف کرنے کے لیے حاضر ہوا ہے، اس کے مقابلے میں اپنی انانیت سے دست بردار ہورہا ہے، اس کی بڑائی اور اپنی عاجزی تسلیم کررہا ہے، اور اس کے آگے اپنے وہ معروضات پیش کررہا ہے، جو اس کی زبان سے ادا ہورہے ہیں۔
اب دیکھیے جو شخص نماز کی ظاہری شکل کو ٹھیک ٹھیک احکام و ہدایات کے مطابق قائم کردے، وہ بلاشبہ ادائے نماز کی قانونی شرائط پوری کردیتا ہے۔ اس کے متعلق آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی، یا اس کے ذمے فرض باقی رہ گیا۔ لیکن آپ غور کریں گے تو خود محسوس کریں گے کہ نماز کا پورا پورا فائدہ وہی شخص اُٹھا سکتا ہے، جو نماز کے اعمال میں سے ہر عمل کرتے وقت اُس کی روح کو بھی نگاہ میں رکھے، اور نماز کے اذکار میں سے ہر ذکر کو زبان سے ادا کرتے ہوئے اس کے معنی کی طرف بھی متوجہ رہے۔
(”خطباتِ حرم“، سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد61، عدد1، اکتوبر1963ء، ص 34)