مولوی صاحب مل گئے!

پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ ’’مولوی‘‘ ایک تعلیمی سند ہوتی تھی۔ کالم کی آخری سطور میں ہم نے اپنے اس عجز کا اظہار کیا تھا کہ

’’ایک ہندو ادیب بھی تھے جو مولوی تھے۔ اس وقت نام ذہن سے نکل گیا ہے۔ یاد کرنے پر بھی یاد نہیں آرہا ہے اور کھوجنے پر بھی نہیں مل رہا ہے۔ ’نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو‘۔ شاید کسی قاری کو یاد آجائے، قارئین کا حافظہ، سنا ہے، اچھا ہوتا ہے‘‘۔

دیکھیے! آخری فقرہ کیسا سچا ثابت ہوا۔ مالیگاؤں، مہاراشٹر (بھارت) میں بیٹھے بیٹھے محترم شکیل جمیل حسن مومن نے ہمارے گم کردہ مولوی کو کھوج نکالا۔ یہ مولوی صاحب ’’مولوی مہیش پرشاد‘‘ سؤرگ باشی تھے۔ آپ ضلع الٰہ آباد کے موضع فتح پور کائستھان میں 19اپریل 1891ء کو پیدا ہوئے اور 30 اگست 1951ء کو (غالباًبنارس پہنچ کر) اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ یوں آپ نے کُل ساٹھ سال عمر پائی۔ مولوی مہیش پرشاد کے محترم پِتاجی اور قابلِ احترام دادا جی پولیس میں ملازم تھے۔ پِتا نے پوت سے بھی چاہا کہ وہ پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوجائے۔ مگر وہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں‘‘ تو مہیش پرشاد جی کو پُوت کہیے یا پوتا، دونوں حیثیتوں میں حضرت پولیس کی نوکری کرنے کے خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ پڑھنے لکھنے میں جو عزت ہے وہ پولیس میں نہیں۔ سو دنیاوی دولت کو لات مارکر وہ دولتِ علم و فضل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دولت مل گئی، مگر بقول مظفر وارثیؔ ایک نصیحت بھی ہاتھ آگئی:

لو مظفرؔ متاعِ شعر و سخن
اب نہ تم آرزوئے زر رکھنا

پس وہ لکھتے ہیں کہ ’’خدا کے فضل سے آج جس حالت میں ہوں وہ قابلِ اطمینان ہے۔ جو لوگ پہلے کہتے تھے کہ میں پولیس میں نہیں گیا، وہ بھی آج کہتے ہیں کہ پولیس کی نوکری سے آپ بدرجہا اچھی حالت میں ہیں‘‘۔ (’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر صفحہ 760)

مولوی مہیش پرشاد کا سب سے اہم کارنامہ ’’خطوطِ غالبؔ‘‘ کی جمع و تدوین ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے گاؤں گاؤں گھوم کر غالبؔ کے 452 خطوط جمع کیے اور نہایت باریک بینی کے ساتھ ان پر تحقیق کی۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اپنے مضمون ’’خطوطِ غالبؔ، غالبؔ کی اُردو نثر نگاری کی شہرت کا تاج محل‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’مولوی مہیش پرشاد وہ محقق تھے جنھوں نے پہلی بار یہ سوچا کہ غالبؔ کے تمام خطوط، خواہ وہ مطبوعہ ہوں یا غیر مطبوعہ، جمع کرکے اُن کا ایک مستند تنقیدی ایڈیشن شائع کیا جائے۔ اس کی پہلی جلد اُنیس سو اکتا لیس (1941ء) میں الٰہ آباد سے شائع ہوئی، لیکن اس کے بعد مہیش پرشاد چل بسے اور دوسری جلد کا مسودہ بھی گم ہوگیا۔اس طرح اس کی ایک ہی جلد شائع ہوسکی‘‘۔

مولوی مہیش پرشاد نے اپنا سفرنامۂ ایران بھی’’میری ایران یاترا‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جو آج کل تاریخی حیثیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’مشاہیرِ ادبِ اُردو‘‘، ’’مشاہیر اردو کے خطوط‘‘ اور متعدد مضامین اسلام اور ہندومت کے تقابلی جائزے پر مشتمل تحریر کیے۔ ’’غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی‘‘ نے اُن کے یہ مضامین بھی کتابی صورت میں ’’مضامینِ مولوی مہیش پرشاد‘‘ کے عنوان سے شائع کردیے ہیں۔ مولوی صاحب نے ہندی میں بھی کئی کتب تصنیف کیں، جن میں بقول غوث سیوانی ’’عربی کاویہ درشن‘‘ کو خاص اہمیت ملی۔ اس کتاب میں انھوں نے عربی شاعری کی تاریخ، عرب شعرا کا تذکرہ اور اُن کا منتخب کلام ہندی بھاشا کے قارئین کے لیے پیش کیا ہے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد زیادہ نہیں ہے، مگر جتنی تصانیف ہیں سب کی سب وقیع ہیں۔ جناب غوث سیوانی (نئی دہلی) اپنے مضمون ’’مصنف و محقق مولوی مہیش پرشاد، جنھیں اُردو والوں نے بھلا دیا‘‘ میں اُن کے متعلق بتاتے ہیں:

’’اُنھوں [مولوی مہیش پرشاد] نے ابتدائی تعلیم وطن [الٰہ آباد] ہی میں پائی۔ پھر آگرہ چلے گئے، جہاں ایک آریہ سماجی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد پھر لاہور کے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا اور مولوی، عالم و فاضل کی تعلیم مکمل کی۔ کالج کے پرنسپل مولوی محمد شفیع نے اپنے دستخط کے ساتھ سند لکھ کر دی تھی جس کے مطابق اُنھوں نے مولوی فاضل (عربی آنرز) کا امتحان بھی پاس کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ڈگری کے طور پر مولوی، عالم اور فاضل لکھا کرتے تھے‘‘۔

’’نقوش‘‘ کے ’’آپ بیتی نمبر‘‘ میں شائع ہونے والی، مولوی مہیش پرشاد کی آپ بیتی بھی جناب شکیل جمیل حسن مومن ہی نے ڈھونڈ نکالی ہے، جو رسالے کے تین (میگزین سائز) صفحات پر شائع ہوئی تھی۔ یہ آپ بیتی اول تا آخر پڑھنے کے لائق ہے۔ یہاں اس آپ بیتی سے چند اقتباسات قارئین کی دلچسپی کے لیے نقل کیے جاتے ہیں۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں:

’’الٰہ آباد سے پنجاب یونیورسٹی کی عمر زیادہ ہے اور اس کا اورینٹل کالج پنجاب میں سب سے پرانا ہے۔ مولوی عالم و فاضل کے امتحانات میں سے کسی ایک یا دونوں کو آج تک کسی نے اس کالج سے پاس نہیں کیا۔ 1916ء میں جب اس کالج میں داخل ہوا تو 1915ء کے امتحانِ فاضل میں یونیورسٹی بھر میں 36 میں سے صرف 3پاس ہوئے تھے۔کچھ لوگ میرے بارے میں کہتے تھے کہ یہ کیسا ہندو ہے جو عربی پڑھنے آیا ہے، جب کہ مسلمان لڑکے بھی بُری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ خدا کا کرنا کہ 1917ء کے امتحانِ عالِم میں یونیورسٹی بھر میں کوئی کامیاب نہ ہوا۔‘‘

’’مجھے 1918ء میں عالم کے امتحان میں بیٹھنا تھا۔ مسئلہ بہت مشکل تھا۔ میں گھبرایا نہیں۔کسی کسی وقت یہ خیال ضرور آتا تھا کہ اگر میں فیل ہوگیا تو یہ شخصی طور پر میرے ہی لیے نہ ہوگا بلکہ جاتی کی سُبکی بھی ہوگی۔ لیکن میرے یہ آخر کے الفاظ مجھے ڈھارس دیتے تھے کہ ایشور مالک ہے، جو کچھ ہوگا، اچھا ہی ہوگا۔ آخر میں نے جی توڑ محنت کی۔ یہاں تک کہ میرے چال چلن اور محنت سے میرے استاد بھی متاثر ہوئے۔ لاہور کی شاہی مسجد، نیلاگنبد وغیرہ کی مسجدوں میں بھی جانے اور وہاں کے استادوں اور طالب علموں سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا۔ آخر میں نتیجہ یہ ہوا کہ عالم و فاضل کے امتحانوں کے چھے چھے سو نمبروں سے بالترتیب 326اور 323نمبر مجھے ملے اور مجھے جتنی خوشی ان دونوں امتحانوں میں پاس ہونے سے ہوئی اتنی عمر بھر میں کسی بات سے نہیں ہوئی۔‘‘

’’مولوی، عالم، فاضل ہونے کے بعد کچھ روزی کمانے کا مسئلہ میرے لیے کئی وجوہ سے اہم تھا۔ اس سلسلے میں میری دلی خواہش تو یہ تھی اور آج بھی یہی ہے کہ اگر اپنی زندگی کے مطابق معمولی طور سے روزی ملتی رہے تو اپنا سارا وقت ہندی میں مسلمانوں کے ادب، تاریخ اور مذہب وغیرہ موضوعات کی کتابیں لکھنے لکھانے ہی میں بسر کردوں۔ مگر میرے کئی دوستوں نے کہا کہ ابھی ہندی میں اتنا میدان نہیں۔ آپ کو قابلِ اطمینان طور پر اپنی روزی کا بندوبست کرنے کے بعد لکھنے لکھانے کا جھنجھٹ اپنے سر لینا چاہیے ورنہ ناشروں کے بھروسے رہ کر بڑا دُکھ اُٹھانا پڑے گا‘‘۔ (’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر صفحات: 761-760)

ناشروں کے بھروسے رہ کر تو آج بھی بڑا دُکھ اُٹھانا پڑتا ہے۔ صورتِ حال ابھی تک ذرا نہیں بدلی۔ ہم تو شاید اپنے اِن کالموں کی کتاب کا مسودہ ہاتھ میں تھامے ہر آئے گئے سے معصومیت کے ساتھ پوچھتے ہی رہ جائیں گے کہ ’’کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟‘‘
(آج کے کالم میں مولوی صاحب کا مفصل تذکرہ محض اس مقصد سے کیا ہے کہ آں جہانی مولوی مہیش پرشاد کی اُن خدمات کی طرف قارئین کو بھی متوجہ کیا جائے جو انھوں نے اُردو کی بے لوث خدمت اور اُردو زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے انجام دیں۔)