قصۂ یک درویش! بچپن کی تلخ و شیریں یادیں

گیارہویں قسط

اس دنیا میں مثبت اور منفی، میٹھے اور کڑوے، قابلِ فخر اور قابلِ مذمت ہر طرح کے عوامل و حوادث ایک دوسرے کے متوازی اور ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے کڑوے کو بھی میٹھا قرار دیتے ہیں اور دوسروں کا میٹھا بھی ان کے نزدیک کڑوا قرار پاتا ہے، حالاں کہ حقیقت تاویلات سے بدلی نہیں جا سکتی۔ میرے بچپن کی حسین و شیریں یادوں کے چمن میں کہیں کہیں انتہائی ناپسندیدہ اور تلخ یادوں کے جھاڑ جھنکار بھی لوحِ حافظہ پر ابھر آتے ہیں۔ بارہا سوچتا ہوں کہ اے کاش یہ نہ ہوتا، وہ نہ ہوتا، مگر جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ ’’اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ ایسے چھوٹے موٹے کئی واقعات اور حماقتیں سرزد ہوتی رہیں۔ کچھ واقعات کا تذکرہ یہاں کررہا ہوں جن کی یادیں اکثر جھنجھوڑتی رہتی ہیں۔ اللہ کریم معاف فرمائے۔

گیارہ بارہ سال کی عمر کا ایک واقعہ ہے۔ ہمارے محلے میں ایک بلّا تھا، بہت موٹا تازہ اور طاقتور۔ دیہات میں لوگوں نے اپنے گھروں میں مرغیاں پال رکھی ہوتی ہیں۔ اس بلّے کا کام ہی یہ تھا کہ وہ جہاں کسی مرغی کو دیکھے، جھپٹ کر اسے شکار کر لے اور پھر بھاگ کر کھیتوں کی طرف نکل جائے۔ اسے کئی دفعہ مار بھی پڑی، مگر اس کی ڈگر قائم رہی۔ مرغیوں کے شکار کے علاوہ وہ لوگوں کے گھروں میں دودھ کے برتنوں سے چوری چھپے دودھ بھی پی جاتا اور گھر والوں کو علم ہونے پر دیواریں پھلانگ کر غائب ہوجاتا۔ بلی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے تو پھر یہ شیر کا خالو یا ماموں ہوگا۔ محلے کے سب لوگ جنگل کے بادشاہ کے اس خالو سے بہت تنگ آچکے تھے۔

ہمارے دروازے پر ہمیشہ ایک دو کتے روٹی کے لیے آتے اور ہم صبح شام ان کے آگے باسی روٹیوں کے ٹکڑے ڈال دیتے۔ وہ عام سے کتے تھے، ہمارے پالتو نہیں تھے، نہ ہی ہم نے کبھی اس بات کو پسند کیا کہ پالتو کتے رکھے جائیں۔ کتے کے بارے میں یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ وہ کبھی احسان فراموشی نہیں کرتا، اس کی وفاداری کی تو مثال دی جاتی ہے۔ کہیں گلی کوچے میں یہ کتے مجھے دیکھتے تو دم ہلاتے ہوئے میری طرف آتے اور زمین پر بیٹھ جاتے۔ میں پائوں زمین پر مارتا تو یہ اپنی راہ لیتے۔ مجھے ایک دن خیال آیا کہ اس ظالم بلّے کو مار دیا جائے، مگر کیسے؟ میرے ساتھ میرے دوستوں کی ایک ٹولی ہر وقت موجود رہتی تھی۔ بڑے بزرگوں کو بتائے بغیر میں نے ان ساتھیوں سے مشورہ کیا تو ان سب کی رائے بنی کہ اس بلے کو کتوں سے مروا دیا جائے۔

گرمیوں کی ایک دوپہر جب لوگ گھروں میں آرام کررہے تھے، ہم نے انہی کتوں کو جو روٹی کے چند ٹکڑوں کی وجہ سے ممنون احسان تھے، ساتھ لیا اور بلے کو تلاش کیا۔ اتفاق سے وہ پیٹ بھر کر گوشت کھانے کے بعد ہمارے ننھیالی عزیزوں کی حویلی میں ایک بلند درخت کے تنے پر آرام کررہا تھا۔ میرے ساتھیوں نے اسے مٹی کے ڈھیلے مارے تو وہ چھلانگ لگاکر نیچے اترا۔ کتے اس کے تعاقب کے لیے پہلے سے تیار کھڑے تھے۔ انھوں نے اسے دبوچ لیا۔ بلّے نے بہت کوشش کی کہ بھاگ نکلے، مگر کتوں کی مضبوط گرفت سے نہ بچ سکا۔ کتوں نے اسے خوب نوچا، بھنبھوڑا اور آخر ہلاک کردیا۔ آج بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ایک جاندار کو کیوں مروایا؟ پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ اس بلّے نے کتنے لوگوں کو دکھی کیا اور کتنی مسکین مرغیوں کی جانیں لیں۔ اس واقعے کے دو ہفتے بعد ہماری ایک بہت قیمتی بھینس مر گئی۔ میں سوچتا رہا کہ شاید یہ اس بلے کی بددعا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ وہ میری اور میرے ساتھیوں کی بچپن کی یہ خطا معاف فرما دے۔

اسکول کی پانچویں جماعت میں میرے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ بن گیا تھا۔ اپنی کلاس کے علاوہ مڈل اسکول کی کلاسوں میں زیر تعلیم طلبہ سے بھی میری بہت بے تکلفی اور دوستی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اساتذہ بھی محبت، شفقت اور اپنائیت کا اظہار کرتے تھے۔ اس دور میں اپنے چند ساتھیوں کے اصرار پر ایک غلطی میں ان کے ساتھ میں بھی شامل ہوگیا۔ ہمارے اسکول کے جنوب میں جوڑا گائوں کا قبرستان تھا۔ اسکول اور قبرستان کے درمیان صرف ایک سڑک تھی۔ ہمارے خاندانی قبرستان کے برعکس اس قبرستان کے ضوابط کچھ مختلف تھے۔ ہمارے قبرستان کے گرد بھی اس قبرستان کی طرح کانٹے دار درختوں کی شاخوں کی مضبوط باڑ ہوا کرتی تھی، مگر جو کوئی بھی بیری کے درختوں کے پھل پکنے کے موسم میں یہاں سے بیر اتارنا چاہتا، آزادی کے ساتھ دروازوں سے داخل ہوکر اتار سکتا تھا۔ نہ کوئی پابندی تھی، نہ رکاوٹ۔ یہاں سے لڑکے بالے بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی جی بھر کے بیر کھاتے تھے۔

اس کے برعکس جوڑا کے قبرستان میں اس آزادی پر سخت پابندی تھی۔ یہاں کے رکھوالے گائوں کے ایک بابا جی تھے جن کا نام غلام رسول تھا، مگر ان کے اس نام سے نئی نسل کے کم ہی لوگ واقف تھے۔ ان کے ہاتھ میں ہمیشہ لمبے دستے والی ایک کلہاڑی ہوا کرتی تھی۔ ان کو لوگ بابا کلہاڑی والا کے نام سے جانتے تھے۔ کئی لوگ تو ان کو کلہاڑی والا کے بجائے ’’بابا کلہاڑی‘‘ کہہ دیتے تھے۔ یہ کسی کو بیری کے درختوں سے پھل اتارنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک دن ہم کچھ ساتھی تفریح کے دوران اسکول سے نکلے تو بعض نے تجویز دی کہ آج بابے کلہاڑی والے سے بچ بچا کر بیر کھائے جائیں۔ ان کے بقول اس قبرستان کی بعض بیریوں کے بیر بہت میٹھے اور لذیذ تھے۔ چناں چہ ہم تین چار ساتھی ایک جگہ سے باڑکو کراس کرکے اندر چلے گئے۔

بیر کھانے سے پہلے ہی ہم پر بابا کلہاڑی والا کی نظر پڑ گئی۔ وہ کہیں قریب ہی جھاڑیوں کے پیچھے اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے تھے۔ اپنی افتادِ طبع کے مطابق انھوں نے للکارا ’’اوئے لونڈو! تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ اب میں تمھاری حرکت کا تمھیں مزا چکھاتا ہوں۔‘‘ سنا تھا کہ جوڑا کے کئی لڑکے بیر کھانے کے دوران بابا کی آمد پر بھاگتے تو بابا کو چڑانے اور اس کا مذاق اڑانے کے لیے پیچھے مڑ کر تالیاں بھی پیٹتے تھے جس سے بابا کی سخت مزاجی کو آگ لگ جاتی تھی۔ آج بھی چند ساتھیوں نے اسی طرح بابا کو اشتعال دلایا اور پھر مجھ سمیت سب دوست دوڑ کر باڑ کو عبور کر گئے۔

بابا تعاقب کرتا ہوا قبرستان سے باہر آیا۔ کوئی ’’وارداتیا‘‘ تو اس کے ہاتھ نہ آیا، البتہ ایک لڑکا جو اس واردات میں شامل نہیں تھا، راستے میں اسکول اور قبرستان کے درمیان بے فکر کھڑا تھا، بابے کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ قریبی گائوں کسانہ سے پڑھنے کے لیے آتا تھا۔ اسکول کی وردی سبھی طلبہ کی ایک جیسی ہوتی تھی اور قد کاٹھ میں بھی تقریباً ایک جیسے ہوتے تھے۔ بابا کلہاڑی نے اسے آن پکڑا اور مارنے لگا۔ وہ بے چارہ کہتا رہا کہ میں قبرستان کی طرف گیا ہی نہیں ہوں، مگر بابا کب مانتا تھا۔ خیر ہمارے استاد چودھری سلطان احمد صاحب نے دیکھا تو بابے کو جھڑکی دی اور طالب علم کی جان چھڑائی۔ میں سوچتا ہوں کہ اس بے چارے طالب علم کو ہماری حرکت کی وجہ سے مار پڑی، تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کے بعض اور بھی چھوٹے موٹے واقعات اس دور میں ہوجاتے جن پر بعد میں ندامت ہوتی تھی۔ اللہ معاف فرمائے۔

ہمارا مڈل اسکول (جو ہماری فراغت کے کئی سال بعد ہائی گریڈ تک چلا گیا اور گورنمنٹ ہائی اسکول جوڑا کہلایا) اس زمانے میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت مڈل اسکول جوڑا کہلاتا تھا۔ پرائمری کے بعد مڈل حصے میں، جس کی نئی عمارت جوڑا گائوں سے باہر ہمارے گائوں کی حدود اور ہمارے کچھ عزیزوں کی اراضی میں ریلوے اسٹیشن کے قریب بن چکی تھی، ہم چلے گئے۔ اس سے پہلے مڈل اور پرائمری کے کیمپس جوڑا گائوںکے اندر ہی تھے۔ یہاں نئے اسکول میں تین سال، ششم تا ہشتم کلاس بڑے مزے کے گزرے۔ نہ آس پاس کوئی آبادی قریب تھی، نہ شور ہنگامہ اور نہ لڑائی جھگڑا، البتہ ریلوے اسٹیشن اور ریلوے لائن اسکول کی بیرونی حدود کے بالکل ساتھ تھے۔ یہ ریلوے لائن لالہ موسیٰ سے ملکوال اور سرگودھا کی طرف اور پھر اس سے آگے چلی جاتی ہے۔ مال گاڑیاں اور مسافر ٹرینیں اُس زمانے میں بہت چلا کرتی تھیں اور چھک چھک کا شور مچاتی، دھواں چھوڑتی ہوئی گزرتی تھیں۔

تعلیمی اداروں کا اصل حسن تو اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔ یہاں ڈپٹی ہیڈ ماسٹر سید مبارک علی شاہ جماعت اسلامی کے رکن تھے اور ان کا تعلق کنجاہ کے قصبے سے تھا۔ سید اصغر علی شاہ صاحب ان کے بیٹے تھے، وہ بھی ازحد نفیس اور شریف الطبع نوجوان استاد تھے جو پرائمری کلاسوں کو پڑھاتے تھے۔ مبارک علی شاہ صاحب انتہائی عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ ان کو دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ یہ ایک صاحبِ علم اور صاحبِ عمل بزرگ ہیں۔ میں ان سے پہلے سے ہی بہت مانوس تھا۔ شاہ صاحب کئی سالوں سے، یعنی جوڑا اسکول میں آنے کے ساتھ ہی، ہماری جامع مسجد میں باقاعدہ جمعہ کی نماز کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ نماز کے بعد ہمارے بزرگوں کے ساتھ مجلس میں شریک ہوتے اور مجھے ان کی خدمت کرنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔

سید مبارک علی شاہ صاحب کے علاوہ ماسٹر رانا غلام علی، ماسٹر چودھری جلال دین، ماسٹر فضل حسین، ماسٹر محمد اشرف، ماسٹر بشیر احمد، ماسٹر محمد ریاض گوندل اور ماسٹر سید موج دین المعروف موجی شاہ مرحوم بھی قابلِ اساتذہ میں شامل تھے۔ کئی اور اساتذہ بھی تھے، سب کی شکلیں آنکھوں کے سامنے گھومتی ہیں، مگر ان کے نام ذہن میں نہیں آرہے۔ موجی شاہ صاحب انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے، اردو کے شاعر تھے۔ کبھی کبھار اپنا کلام بھی سنایا کرتے تھے جس میں میواتی لہجہ ہوتا تھا۔ اسکول کی نئی عمارت زیر تعمیر تھی کہ اس دوران کئی بار اسکول میں طلبہ کے والدین اور دیگر دیہاتی بزرگوں کو دعوت دی جاتی کہ تعمیر کے کام سے ان کو آگاہی دی جائے اور مخیر حضرات کو مالی تعاون کی بھی ترغیب دی جائے۔ ایسے مواقع پر سید موجی شاہ اپنا کوئی نہ کوئی ترانہ سنایا کرتے تھے۔ مجھے اس دور میں تو ان ترانوں کے کئی اشعار اور مصرعے یاد تھے مگر اب بھول گیا ہوں۔

مجھے شعر و شاعری پڑھنے کا شوق تو ہے مگر اشعار کے رموز و اسرار سے گہری شناسائی نہیں۔ اگر اصل کلام اور میرے تصور میں موجود چند مصرعوں میں فرق ہو تو استادِ محترم سید موجی شاہ مرحوم کی روح سے معذرت عرض ہے۔ الٹے سیدھے چند مصرعے یوں ذہن میں آتے ہیں:

آئو مل کے بنائیں اسکول گائوں میں
برسیں رحمت کے پھر پھول گائوں میں

موجی شاہ کہے موج بن جائے، جب کمرے ہو جاویں تیار
جھولے جائیں جھول، برسیں رحمت کے پھر پھول گائوں میں

اس عرصے میں چودھری جلال دین آف چکوڑی اور رانا غلام علی آف منڈیر یکے بعد دیگرے ہیڈماسٹر کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، پھر رانا صاحب کا تبادلہ کسی اور اسکول میں ہوا تو ایک نئے ہیڈ ماسٹر جن کا نام بھی ہمارے پرائمری کے استاد محترم سید اصغر علی شاہ کی طرح اصغر علی شاہ ہی تھا، اسکول میں آئے۔ یہ عجیب و غریب قسم کی شخصیت تھی، سخت مزاج، ضدی، بدزبان اور متکبّر۔ اس سے قبل ایسا کوئی استاد ہم نے نہیں دیکھا تھا۔ خوبیاں خامیاں تو ہر انسان میں ہوتی ہیں، لیکن یہ بالکل مختلف نوعیت کی شخصیت تھی۔ کچھ عرصے کے بعد یہ شخص اسکول کے کچھ فنڈز لے کر یوں غائب ہوا کہ پھر اس کا پتا ہی نہ چلا کہ کہاں گیا ہے۔

اس پریشان کن صورتِ حال میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے حکم سے ماسٹر جلال دین صاحب نے قائم مقام ہیڈماسٹر کی ذمہ داری سنبھالی اور اس واردات کی ایف آئی آر درج کرائی۔ اس عرصے میں مڈل کے امتحان کے لیے ہمارے داخلہ فارم اور فیس وغیرہ بورڈ میں جا چکے تھے۔ جوں جوں امتحان کی تاریخیں قریب آرہی تھیں ہم سمجھ رہے تھے کہ ابھی ہمیں کسی دن رول نمبر موصول ہوں گے اور اطلاع ملے گی کہ ہمارا امتحانی سینٹر کہاں بنا ہے۔ انتظار کی یہ گھڑیاں طویل ہوتی گئیں۔ والدین اور طلبہ و اساتذہ سبھی کے لیے یہ تاخیر سوہانِ روح بن گئی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ دیگر اسکولوں کے رول نمبر آگئے ہیں، مگر ہم ابھی تک انتظار میں تھے۔ ہمارے رول نمبر نہ آنے کی وجہ سے پورے ماحول میں پریشانی اور مایوسی پھیل گئی۔

ہماری کلاس کے تقریباً تیس بتیس طلبہ کا داخلہ بھیجا گیا تھا۔ تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ہمارے داخلے تو بورڈ میں جمع ہی نہیں ہوئے۔ اسکول کی امانتیں لے کر غائب ہوجانے والے ہیڈماسٹر داخلہ فیسیں بھی ساتھ ہی لے گئے تھے اور تاثر یہی دیتے رہے کہ داخلے چلے گئے ہیں۔ غالباً اسکول میں کوئی بہت منظم آڈٹ اور اکائونٹنگ کا نظام نہیں تھا۔ بہرحال جو بھی حقیقت تھی، اس نئی صورتِ حال نے بہت پریشان کیا۔ میرے ذہن میں تصور اور اللہ کی رحمت سے امید تھی کہ میں امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کروں گا۔ اب یوں محسوس ہوا کہ میں تو اِس سال امتحان دے ہی نہیں سکوں گا۔
(جاری ہے)