پانچواں باب :ما بعد تصور :وجودی ”تصور“

کیئرکیگارڈ اورنٹشے

(چوتھا اور آخری حصہ)

نٹشے:یہ 19ویں صدی کی وجودیت کا ایک اور بہت بااثر نام ہے۔ نٹشے کا نکتہ نظر یہ تھا کہ آدمی کے ’’تصور‘‘ کا اُس کے وجود کی ’’بے معنویت‘‘ سے جب سامنا ہوتا ہے تو وہ ڈھے جاتا ہے۔ وہ اس بے معنویت کی شرح میں کیئر کیگارڈ سے مختلف ہے۔ نٹشے تسلیم کرتا ہے کہ جدید آدمی کی روح زخمی ہے، اور ایمان کی ساری حالتیں زوال پذیر ہیں۔ تخلیقی تصور درحقیقت بے بنیاد ہے، عدمیت میں ٹھیرتا خیال محض ایک لاحاصل خواہش اور ارادہ ہے۔ مگر اس حالت میں بھی ایک خفی خوبی پائی جاتی ہے، جدید آدمی کے لیے جینے کا ایسا امکان جو ماورا اقدار سے بے نیاز بے۔ نٹشے کی نظر میں ’’تصور‘‘ زندگی کے لیے ’آ بیل مجھے مار‘ ہے۔

دوستووسکی لکھتا ہے کہ اگر خدا حالتِ مرگ میں ہے تو پھر آدمی کو ہر چیز کی کھلی چھوٹ ہے اور نٹشے نے اس ’’اگر‘‘ کو مٹادیا اور اس کے نتائج کو گلے لگالیا۔ نٹشے نے جب اپنی کتاب The Gay science میں، جو 1882ء میں شایع ہوئی، ’خدا کی موت‘ کا اعلان کیا، تو اسے آدمی کی کامل آزادی کا اعلان باور کیا گیا، اور ہاتھوں ہاتھ یہ خیال عام ہوگیا۔

اس کے بعد آدمی فوق بشر کے پروجیکٹ کے لیے آزاد ہوگیا: ایک ایسا عظیم فرد، جو اپنے من مانے وجود کو آرٹ میں ڈھالنے کی جرات کرسکے۔ اس طرح ’تخلیقی تصور‘ کی بے معنی دنیا میں یہ اپنے ارادے کی قوت کا اظہار کرسکتا ہے۔ یہ فوقِ بشر سچ اور اخلاق کے روایتی نظریات کو متوازی اقدار سے ڈھا دینا چاہتا ہے۔

نٹشے کا نظام اقدار اس کی کتاب Genealogy of moralsمیں سامنے آتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ خیر و شر کے سارے روایتی نظریات آدمی کی ثقافتی ایجادات کے سوا کچھ نہیں۔ اب روایت کی ماورائی اقدار بے نقاب ہوتی ہیں کہ جنہوں نے ارادے کی قوت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ یہ روایتی اقدار تاریخی ادوار کی پیداوار تھیں۔ عیسائیت اور افلاطونیت دونوں میں مغربی آدمی نے ماورائے حس عالم کو بالادستی دے کر وجود کی نفی کی تھی۔ ’کامل قدر‘ کا نظریہ ایک سوچے سمجھے افسانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ یہ ایسے لوگوں کی ایجاد تھی جن کی ذہنیت ریوڑ جیسی تھی کہ جو تخلیقی ذہنوں کی عظمت سے حسد کرتے تھے۔ کامل قدر زندگی کی ’حقیقت‘ سے گریز کا فقط ایک بہانہ تھا۔

ہائیڈگر نے نٹشے کو آخری ماہر مابعدالطبیعات لکھا ہے: ایک ایسا فلسفی جس نے وجودیاتی الٰہیات کے خاتمے کا اعلان کیا۔ نٹشے دلیل دیتا ہے کہ خدا کے بارے میں روایتی تصورات جیسے علت ِاولیٰ، قادرِ مطلق، اورخیر دراصل انسانی ارادے کی پروجیکشن تھی۔ روایتی مابعدالطبیعات نے آدمی سے یہ بات پوشیدہ رکھی کہ ’قدروں‘ کا اصل خالق وہ خود ہے۔ نٹشے نے مغربی تہذیب کے قلب میں موجود بے معنویت اورعدمیت کو نمایاں کردیا تھا۔ اس نے مغرب کو للکارا تھا کہ وہ اب عدم سے نئی دنیا تخلیق کرے۔

نٹشے کی ’نئی قدروں‘ کا پروجیکٹ نہ صرف ’خیر‘ کے اخلاقی سوال پر اثرانداز ہوا بلکہ ’سچ‘ کے نظریہ علم پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔ کامل سچ کی زمانوں سے تلاش اب طاقت کے خفی ارادے میں نمایاں ہوگئی۔ نٹشے نے دعویٰ کیا کہ علم کی نام نہاد جستجو کے پیچھے جیت کی ہوس چھپی مل سکتی ہے۔ سچ کی مابعدالطبیعاتی تلاش کا حتمی محرک ’وجود‘ پر اقتدار اور قبضے کی خواہش تھی۔ یہ حقیقت آدمی نے خود اپنے آپ سے چھپائی، یہاں تک کہ وجودیت کا دورِ جدید آگیا کہ جب ہرچیز پرسوال اٹھادیے گئے۔ کچھ بھی اندھا دھند قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ نٹشے نے وضاحت کی کہ اب تک سچ کو مسئلہ بننے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ اب تک یہ ’راہبانہ اصول پرستی‘ فلسفے پرحاوی تھی، وجود کا سچ طے شدہ تھا۔ یقیناً کانٹ اس اعتراف کے قریب پہنچ چکا تھا کہ مابعدالطبیعاتی سچ کے مخمصے کی فطرت بہت پیچیدہ ہے۔ مگر جیسا کہ ہائیڈگر نے نوٹ کیا، کانٹ ’اتھاہ گہرائی دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا تھا‘۔ اور بعد کی جرمن مثالیت پسند اور رومانیت پسند تحریک نے بھی اس ’وجودی‘ پاتال سے خود کو دور ہی رکھا۔ انہوں نے آدمی کے ’’تصور‘‘ کو ایک نئی ’آفاقی‘ ماورائیت پر پہنچادیا تھا اور آدمی کے ’وجود‘ سے آنکھیں پھیرلی تھیں۔

کیئرکیگارڈ نے اپنی حد تک آدمی کے ’وجود‘ کے اس خالی پن کو نمایاں کیا، مگر ’عقیدے‘ کی جانب لپکنے کی گنجائش باقی رہنے دی۔ نٹشے نے یہ گنجائش بھی ختم کردی۔ وہ غیبی خدا کی جانب لپکنے کے بجائے پاتال میں جاگرا۔ وجود کی بے معنویت بالآخر اپنی تمام ہولناکی اور شان کے ساتھ اپنی برہنگیت کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ مستند ذات نے اتھاہ اندھیروں میں آنکھیں گاڑ دیں۔

نٹشے کے مطابق ’سچ کا ارادہ‘ پہلے سے ہی انحطاط کی علامت ہے، اور وہ جو سچ بولتا ہے بالآخر اس حقیقت کو جان لیتا ہے کہ ہمیشہ جھوٹ بولتا رہا تھا۔ اس طرح نٹشے کیئر کیگارڈ کے تین مراحل کا نمونہ الٹا دیتا ہے۔ اس کے ہاں جمالیات کا مرحلہ ’وجود‘ کے اعلیٰ اظہار کے طور پر سامنے آتا ہے، اخلاقیات اور مذہب دونوں سے ماورا۔ یہ طرزِ فکر نٹشے کے فلسفہ تصور کا اختصاص ہے۔ جب تک خیال کی قوت سچ کو خواب و خیال کی نذر کرتی ہے، تخلیقی تصور کی کارگزاری ناقابلِ بھروسا رہتی ہے۔ اور جہاں تک یہ اپنی خیالی دنیا کو خیالی دنیا کے طور پر ہی قبول کرتی ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیت کا آزادانہ استعمال کرتی ہے، یہ قابلِ اعتبار رہتی ہے۔ نٹشے کہتا ہے کہ ’سچ کا دعویٰ‘ غلطی سے زیادہ مہلک ہے کہ من مانا تصور اسے ’حقیقت‘ قرار دے کر برباد کردیتا ہے، اس سے تو بہت بہتر ہے کہ آدمی مایوسی سے ہی سہی، اندھیروں میں سچ کی تلاش کرے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں اس اندھیرے کو اپنی اٹل تقدیر سمجھ کر سینے سے لگا لینا چاہیے تاکہ کسی سند کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔ نٹشے کا مؤقف تھا کہ تصور کے تخلیقی سچ تغیر پذیر ہیں، جتنے سچ اتنی تشریحات۔ اس طرح خدا کی ذات میں محدود لامحدودیت کی جگہ آدمی کی لامحدود تشریحات لے لیتی ہیں۔ اس سیاق میں ہم نٹشے کی یہ الجھی ہوئی تشکیل کہ ’سچ عورت بن جاتا ہے‘ پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں۔ وہ مثال دیتا ہے کہ خودساختہ مابعدالطبیعاتی ’سچ‘ ایک پدری سلسلہ ہے جسے وجودیت نے ایک ’دھوکے‘ کے طور پر منکشف کردیا ہے، اور اب یہ پردوں کے پیچھے جاری ایک ایسا رقص بن چکا ہے کہ جس میں ایک عورت خود کو صاف چھپاتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں۔ یہاں دریدا کی ’سچ کا انہدام‘ کی ترکیب برمحل ہوگی۔ WILL TO POWER کی پندرہویں کتاب میں نٹشے روایتی اور درحقیقت ماورائی مثالیت پسندی کے اس مؤقف کے نتائج کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ مطلق اور مربوط سچ کی جستجو کہ جس میں افلاطونی تسویہ کی علامت SunFatherGood اب بھی محفوظ ہے مگر بدلی ہوئی صورت میں، کہ جسے کانٹ، فشٹے اورشیلنگ نے مرتب کیا تھا۔ جنہوں نے ’سچ‘ ترک نہیں کیا تھا بلکہ اسے ’انتہائی پراسرار‘ بنادیا تھا۔ نٹشے کا مشاہدہ ہے کہ ’یہ بنیادی طور پر پرانا سورج ہی تھا مگر شک کی نظر سے دیکھا جارہا تھا، خیال کو ارفع بنایا جارہا تھا۔ جہاں جہاں مثالیت پسندوں نے سچ اور آرٹ یا دلیل اور تصور کی وحدت کی بات کی ہے، نٹشے نے اسے ’غضب ناک بے آہنگی‘ قرار دیا ہے۔ نٹشے مابعدالطبیعات کے تابوت پر آخری کیلیں ٹھونکتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ نہ کم نہ زیادہ ’سچ‘ سوائے ’استعارات کی فوج‘ کچھ نہیں، چرمی کاغذ کے افسانوں کے سوا کچھ نہیں کہ جو انسانی تصور ایجاد کرتا ہے تاکہ نہ ختم ہونے والے انواع و اقسام معنوں کا تجربہ کرسکے۔ موضوعی نکتہ ہائے نظر میں وجودی تکثیریت کو نٹشے perspectivismپکارتا ہے، جہاں اب فرد تجربات کے آزادانہ کھیل میں خوش ہوا جاتا ہے۔ مابعدالطبیعات کو اسطور قرار دے کرتحقیر کرتا ہے کہ جو اپنی اصل بھول چکی ہے۔ روایتی مابعدالطبیعات کو الٹے پاؤں پھیردیے جانے کے مضمرات will to power میں نمایاں ہیں۔

نٹشے کہتا ہے کہ ’سچ‘ کوئی ایسی شے نہیں جو موجود ہو یا جسے دریافت کیا جائے، بلکہ اسے تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ یہ محض طاقت کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ ہے۔

نٹشے نے کیئرکیگارڈ کی طرح کبھی بھی فلسفہ ’’تصور‘‘ منظم انداز میں پیش نہیں کیا۔ یہ اُس کی تحریروں میں ’قیاس‘ کی مخالفت کے سیاق میں جا بہ جا بکھرا ہوا ہے۔ تاہم آرٹ کے بارے میں اپنے تصورات کے بیان میں وہ اس موضوع پر اپنی فکر پیش کرتا ہے۔ نٹشے نے رومانویت کا یہ دعویٰ قبول کیا ہے کہ فلسفہ میں آرٹ کا قابلِ فخرمقام ہونا چاہیے۔ یہ اُس کے ہاں سچ اور افسانے کے درمیان انتخاب کا نہیں بلکہ افسانے کی دو قسموں کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آرٹ علم سے زیادہ طاقت ور ہے، کیونکہ آرٹ جینے کی امنگ دیتا ہے، جب کہ علم برباد کرکے رہتا ہے۔ لیکن اگر فنکارانہ تصور کی زندگی میں کوئی عظمت ہے تو بس وہ یہی ہے کہ بے معنویت جاری رہے، اور یہ عدمیت نہیں ہے۔ نٹشے کی نظرمیں عدمیت دراصل عیسائیت، اخلاقیات، اور قیاسی فلسفے کی آڑ میں بے معنویت پر پردہ ڈالنا ہے۔ بےمعنویت کا خفی اظہار ایک ایسا ارادہ ہے جو ماورائی سچ کے ذریعے ہماری وجودی دنیا سے حالتِ انکار میں ہے۔

مختصراً عدمیت دراصل اس دنیا کا انکار ہے کسی اور دنیا کی خاطر۔ نٹشے کا خیال ہے کہ یونانی المیہ اور ویگنر کی موسیقی سمیت جدید آرٹ کی چند مخصوص صورتیں ’طاقت کی یاسیت ہے‘۔ وہ جرمن مثالیت پسندوں کی ماورائی وحدت کی تحقیرکرتا ہے کہ جوحقیقت کے تضادات نظرانداز کرکے ان میں ہم آہنگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نٹشے اُن فنکارانہ تصورات کی توصیف کرتا ہے جو’حقیقت‘ کے کثیرپہلوؤں کے الجھاؤ کو جرات سے ظاہرکرتے ہیں۔ جرمن مثالیت پسندوں کی انسان پرست رجائیت نٹشے کی وجودی یاسیت سے موافقت میں نہیں ہے۔ جہاں ماورائی تصور وحدت اور مطلقیت دیکھتا ہے وہاں وجودی تصور تنازع اور تقسیم دیکھتا ہے۔ مزید یہ کہ زندگی کی بے معنویت پر وجودیت کا اصرار نمایاں ہے، جو ماورائیت پسندوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔

نٹشے کے دہرے اثبات میں موجود بنیادی تضاد، یعنی تصور کی لامحدود آرزوئیں اور ہمارے ٹھوس وجود کی ناقابلِ عبور حدیں، اُس کے فلسفہ وجودیت کا مغز ہیں۔ پیٹرپُز نے اسے ’وجودی آزاد تصور‘ اور ’تقدیر‘ میں تنازع کے طور پر شناخت کیا: ایک طرف آدمی لامحدود جمالیاتی تصور کا اہل ہے اور دوسری جانب بے مقصد بے کار وجود کا تسلسل ہے۔ ہم کیسے نٹشے کے اُس ’نئے آدمی‘ کا سُراغ پاسکتے ہیں کہ جس کی آمد کا وہ اعلان کرتا ہے؟ نٹشے اس معمے کا کوئی حل پیش نہیں کرتا۔ جس وجودی ’تصور‘ کا وہ مدعی ہے وہ مشکلوں میں الجھا ہوا ہے۔ یہ خود سے اور دنیا دونوں سے تضاد میں ہے۔ یہ اپنے ہی افسانوں میں مگن ہے۔ یہ بیک وقت اپنی بے معنویت اور خالی پن میں ظاہر ہورہا ہے۔ نٹشے کے لیے ’وجودی تصور‘ ’نا‘ کو ’ہاں‘ کہہ رہا ہے۔ یہ اپنی ہی قبر پر رقصاں ہے۔Will to power کے تیرہویں باب How the ‘True World’ finally became a Fable: The History of an Error میں نٹشے کہتا ہے کہ مغربی فلسفہ ایک کہانی ہے سچ کے ماورائی حس کی، جسے سب سے پہلے افلاطون نے ’ابدی وجود‘ کے طور پر پیش کیا۔ نہ صرف یہ کہ یہ ’وجود مطلق‘ بتدریج سکڑتا گیا بلکہ آخرکار افسانہ بن کر رہ گیا۔ وہ اس تاریخ کے آخری مرحلے کا اعلان کرتا ہے، ایک جدید (بلکہ شاید مابعد جدید بھی) مرحلہ کہ جہاں فلسفہ مکمل طور پر منہدم ہوگیا۔ نٹشے لکھتا ہے کہ وہ ’دنیا جسے ہم نے منسوخ کردیا، کہ جسے چھوڑ دیا گیا، کئی سوال پیچھے چھوڑ گئی‘۔ کیا نٹشے تخلیقی تصور کے رومانوی دعوے تہس نہس کرنے میں واقعی کامیاب ہوسکا؟ یا وہ محض رومانوی مثالیت پسندی کی رجائیت کو رومانویت کے اپنے خاص برانڈ ’یاسیت‘ سے بدل سکا تھا، کہ جو ویگنیرین وجودیت کی قسم تھی؟ ایک سمجھوتا نہ کرنے والا انکار، ایک باغیانہ بے معنویت کہ جو ’تقدیر پر قانع‘ رہنے کا الجھا ہوا بیانیہ بھی ہے۔ ایک ایسا عمل کہ جس میں آدمی کا تخلیقی ارادہ دنیا کی من مانی نفسانفسی میں ضبط وتحمل سے کام لے رہا ہے؟ یہ ہیں وہ سوال جن سے بیسویں صدی کے وجودیوں کا سامنا رہا۔