’’حاذق الخیری صاحب کی تحریر قدیم اور جدید اردو کا حسین امتزاج ہے،ان کے ڈراموں کا ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے
پچھلے برس 2023ء کے یکم اپریل کو نہ جانے کتنی ہی ایسی ہستیاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام پیدا کرکے اس جہاں سے عازمِ جہانِِ دیگر ہوئیں۔ پَر ان ہستیوں میں ایسی ہستیوں کے نام بہت کم لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے اپنے آباو اجداد کے علمی و ادبی اور تہذیبی و سماجی ورثے کا امین بن کر ایسی زندگی بسر کی ہو جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہو۔ ایسی ہی نابغۂ روزگار شخصیات میں جسٹس (ر) حاذق الخیری مرحوم بھی شامل ہیں۔
جسٹس (ر) حاذق الخیری نے زندگی کے آخری چند دن اسپتال میں گزارے جہاں طبیعت سنبھلنے کے بجائے بگڑی جارہی تھی۔ وصال کے روز معالجوں نے اہلِ خانہ کو دعائوں کے لیے کہہ دیا، اہلِ خانہ زندگی کے یہ آخری لمحات سبھی گھر والوں کے درمیان گھر پر گزارنے کے لیے انہیں گھر لے آئے۔ مالک ارض و سما نے پہلے ہی سے زندگی کے سفر کو الوداع کہنے اور سفرِآخرت پر روانہ ہونے کے لیے آپ کے لیے آپ کا گھر ہی منتخب کررکھا تھا۔ وہ ماہِ اپریل کا پہلا دن اور ماہِ رمضان کے پہلے عشرے کا آخری دن تھا، اور افطار کا وقت، جوں ہی مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں، روزہ داروں نے روزہ کھولا، روحِ مقید نے زندگی سے جڑی سانسوں کی ڈوریں کھول دیں اور آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس جہاں سے رخصت ہوکر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ اس وقت سبھی کے لبوں پر دعائیں تھیں اور دل کی دھڑکنیں ان دعائوں پر آمین کہہ رہی تھیں۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
یہ ایک سچ ہے کہ خیری صاحب آج ہم میں نہیں رہے، اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ وہ رہتی دنیا تک اُن تمام لوگوں میں دکھائی دیں گے، جو اپنے منصب کو رب کی عطا اور اس کی طاقت کو اُسی کی امانت سمجھتے ہیں۔ جسے وہ خالقِ کائنات کی منشا کے مطابق لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام میںلاتے ہیں۔ آپ ہر اُس شخص میں نظر آئیں گے جو پیشے کی حرمت کا پاسبان ہے۔ آپ اُن انسانوں میں بھی دکھائی دیں گے جو اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور ماتحتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور رواداری کا رویہ روا رکھتے ہیں۔ غرض کہ آپ ہر اُس ہستی کی ذات و صفات میں جلوہ نما ہوں گے جو خلقِ خدا کی خدمت کو حقِ بندگی سمجھتی ہے۔
حاذق الخیری صاحب کا تعلق جس خانوادے سے ہے ان کے جدِّ امجد قبیلہ قریش کی اولاد بنی عکرمہ سے تھے، جو عہدِ شاہ جہانی میں عرب سے دلّی میں وارد ہوکر قلعے میں شہزادوں اور شہزادیوں کے اتالیق مقرر ہوئے، جہاں وہ انھیں تعلیم دیا کرتے تھے۔ ان میں سے جن بزرگوں کے نام تاریخ محفوظ کرسکی، ان میں حافظ ننھے میاں، حافظ خیر اللہ، حافظ عبدالخالق، حافظ عبدالقادر، مولوی عبدالرب، ڈپٹی عبدالحامد، عبدالجبار خیری، عبدالستار خیری وغیرہ کے نام شامل ہیں، اور جو ہستیاں اس خانوادے سے وابستہ ہوئیں وہ بھی علم و ادب کی تاریخ میں ایک مقام رکھتی ہیں، جیسے ڈپٹی نذیر احمد، نذیر حسین محدث دہلوی اور مولوی احسن وغیرہ۔ برصغیر پاک و ہند میں اس خانوادے کے سوا شاید کوئی ایسا خانوادہ ہو جس کی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہو۔
حاذق الخیری صاحب کی پیدائش اسی گھرانے میں اصلاحِ نسواں اور حقوقِ نسواں کے علَم بردار اور کثیر التصانیف مصورِ غم علامہ راشد الخیری کے فرزندِ اکبر صاحبِ علم و قلم اور اپنی خاندانی روایات کے امین مولانا رازق الخیری کے ہاں 5 نومبر 1931ء کو دلّی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دہلی اینگلو عربک اسکول سے حاصل کی۔ 1948ء میں جیکب لائن اسکول سے میٹرک اور 1954ء میں ایس۔ ایم۔ آرٹس۔ اینڈ کامرس کالج سے بی۔ اے پاس کیا۔ بعد میں کراچی یونیورسٹی سے 1956ء میں ایل۔ایل۔بی اور پولیٹکل سائنس میں ایم۔اے کی سندیں حاصل کیں۔ 23 جنوری 1957ء کو قانون کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1966ء تا 1969ء پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعزازی سیکریٹری رہے، اس دوران قلم کاروں کی تخلیقات کو قانونی تحفظ دلانے کے لیے پاکستان میں پہلی بار رائٹرز گلڈ کے تحت ’’کاپی رائٹ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کرایا۔ 1970ء میں تہران میں دی ہیگ (ہالینڈ) کی اکیڈمی آف انٹرنیشنل لا کے ایکسٹرنل سیشن بہ عنوان ’’پبلک انٹرنیشنل لا‘‘ میں شریک ہوئے، جس کے بعد 1971ء میں پرائیویٹ انٹرنیشنل لا کے موضوع پر سیمینار بہ مقام دی ہیگ (ہالینڈ) میں شرکت فرمائی۔ یکم مئی 1981ء کو انھیں سندھ مسلم لا کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا، جہاں آپ 9 ستمبر 1988ء تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ باقاعدہ ’’پارٹنرشپ ایکٹ‘‘ کی کلاسیں بھی لیتے رہے، اور اس دوران میں اپنی پریکٹس بھی جاری رکھی۔ 1972ء تا 1973ء کے لیے آپ کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اعزازی سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ آپ 1979ء تا 1983ء سندھ بار کونسل کے رکن رہے۔ 1983ء میں آپ نے سندھ مسلم گورنمنٹ لا کالج میں ایل۔ ایل۔ ایم کی کلاسوں کا آغاز کیا اور محتسب کے فرائض پر کانفرنس کا انعقاد بھی کیا۔ آپ نے 1984ء میں جامعہ کراچی کی نصابی کمیٹی برائے ایل۔ ایل۔ بی اور ایل۔ایل۔ایم کے کنوینر کے فرائض بھی انجام دیے۔ 5 جولائی 1985ء کو سالزبرگ (آسٹریا) میں امریکن لا اینڈ لیگل انسٹی ٹیوشن کے موضوع پر منعقد کانفرنس میں شریک ہوئے۔
ممتاز اور ماہر قانون دان کی حیثیت میں قانون کی صحرانوردی کے طویل دورانیے ہی میں آپ نے 10ستمبر 1988ء کو سندھ ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جہاں آپ 1993ء تک فائز رہے۔ سبک دوشی کے آخری سال 1993ء میں ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے کولمبو (سری لنکا) میں منعقد سارک لاکانفرنس میں شرکت کی۔ 25ستمبر 1999ء سے 2003ء تک محتسب اعلیٰ سندھ کے منصب پر رہے، اس دوران میں 2001ء اور 2002ء میں منیلا، ٹوکیو اور بیجنگ میں منعقد ایشین محتسبوں کی کانفرنس میں ملک کی نمائندگی بھی کی، پھر جون 2004ء میں حکومتِ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے اور اس کی قانونی کمیٹی کے چیئرمین بھی۔ بعدازاں آپ ہمدرد شوریٰ کراچی کے اسپیکر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں تادم مرگ نبھاتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ سارک ہیلتھ پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ، اینگلو عربک اسکول اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر اور جامعہ کراچی کے ’’انسٹی ٹیوٹ آف سینٹرل اینڈویسٹ ایشن اسٹڈیز‘‘ کے صدر اور پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن اور پاکستان انڈیا سٹیزن فرینڈ شپ فورم کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی کونسل برائے خارجی تعلقات اور معاشی امور کے بنیادی رکن بھی تھے۔ پاکستان لاکمیشن، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی مجلسِ عاملہ میںبھی شامل رہے اور آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے اصلاحی کمیشن کے صدر کی حیثیت سے بہت سے قانونی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کیا۔
قانون کے پیشے سے منسلک ہونے کے باوجود حاذق الخیری صاحب اپنی خاندانی ادبی روایات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’احمق‘‘ دسمبر 1950ء میں اپنے وقت کے معروف اور اہم ماہنامے ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوا۔ اور جنوری 1961ء تک اسی ماہنامے میں آپ کے 14 افسانے شائع ہوئے جو 1961ء میں ’’گزرتی شب‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں منظرعام پر آئے، جس پر رسالہ ’’ساقی‘‘ کے ریویو میں ایک جگہ لکھا تھاکہ ’’علامہ راشد الخیری کے پوتے اور مولانا رازق الخیری کے بیٹے ہونے کی نسبت سے انھیں وارث الادب کہنا چاہیے۔ ان کی افسانہ نگاری کی عمر چار پانچ سال سے زیادہ نہیں ہے۔ تاہم ان کے اندازِ نگارش سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے یگانہ روزگار باپ دادا کی طرح اپنے ادبی کارناموں کے باعث شہرتِ دوام حاصل کریں گے‘‘(اپریل 1961ء، ص 62)۔ اور ڈاکٹر احسن فاروقی صاحب نے ان افسانوں کو پڑھ کر آپ کی ادبیت کے متعلق کہا کہ:
’’حاذق الخیری چاروں طرف سے ادیب ہیں۔ ان کی مادری زبان اردو ہی نہیں بلکہ ادبی اردو ہے۔ لہٰذا ان کی ادبیت مسلّم ہی نہیں بلکہ قدرتی چیز ہے‘‘
(ماہنامہ ’’سات رنگ‘‘ جون 1961ء، ص 64)
حاذق الخیری صاحب نے 2012ء میں ’’جاگتے لمحے‘‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سال اس کی دو اشاعتیں منظرعام پر آئیں جس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اس کی تقریب رونمائی میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر آفتاب احمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ بات کہی تھی کہ:’’ان کی خودنوشت ان کی بھرپور زندگی کی عکاسی کرتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ’’جاگتے لمحے‘‘ اردو کی بہترین خودنوشتوں میں شامل ہوگی‘‘۔ (مئی 2012ء)
اس کے بعد 2013ء میں آپ کے تین ڈراموں پر مشتمل کتاب ’’وہ آدمی‘‘ شائع ہوئی۔ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حسینہ معین نے لکھا تھا کہ:
’’حاذق الخیری صاحب کی تحریر قدیم اور جدید اردو کا حسین امتزاج ہے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ ان کے ڈراموں کا ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ یہ تین ڈرامے تین ہزار ڈراموں پر بھاری ہیں۔‘‘ اور کمال احمد رضوی نے لکھا کہ: ’’یہ تین ڈرامے خوب صورت اور انوکھا اندازِ بیاں لیے بالکل الگ حیثیت کے حامل ہیں اور سائنس فکشن میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہیں۔‘‘
کتاب میں شامل ڈراما ’’وہ آدمی‘‘ 17مارچ 1968ء میںپاکستان ٹیلی ویژن اسٹیشن کراچی سے دکھایا بھی گیا، جسے لوگوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اس کتاب کے دو انگریزی ایڈیشن بھی شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ خیری صاحب نے اپنی والدہ آمنہ نازلی کے افسانوں اور ڈراموں کا انتخاب ترتیب دے کر شائع کیا اور ان کے ڈراموں کے مجموعہ ’’دوشالہ‘‘ کا نیا ایڈیشن بھی شائع کرایا۔ مولانا رازق الخیری کی تحریر کردہ علامہ راشد الخیری کی سوانح عمری جو کہ 760 صفحات پر مشتمل تھی، اس کی بڑی مہارت سے تلخیص کی اور شائع کرایا۔
آپ کی ہمشیرہ صفوراخیری نے کبھی یہ لکھا تھا کہ ’’تم میرے خاندان کے عظیم سرمایہ ہو، تم حقیقی معنوں میں ایک معتبر خاندان کے وارث ہو، تم ہی ہو جس نے اپنے آباو اجداد کا نام روشن کیا ہے… میرے سب سے قابل بھائی تمہارے ہاتھ میں دو قلم ہیں۔ ایک قلم وہ جو انصاف کے فیصلے رقم کرتا ہے، دوسرا وہ جو خوب صورت کہانیاں لکھتا ہے۔ ایک جانب ساحلِ سمندر، بادل، خوشبو، وادیوں اور مرغزاروں کی دنیا ہے، تو دوسری طرف وہ دنیا جہاں ہزاروں مظلوم حق و انصاف کے لیے تمہاری جانب دیکھ رہے ہیں کہ انصاف کے جزیرے میں تم صداقت کی کشتی کے ناخدا ہو۔ مظلوموں کے لیے تمہارے دل کے الفاظ ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے پھول اور تمہارے تراشیدہ حروف خوشبو بن جائیں گے۔ میں سوچتی ہوں کہ تم ایک خوب صورت قلم کار ہو یا منصف؟ میرے لیے تمہاری زندگی ایک مثال ہے… عزم وہمت کا ایک پیکر جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے‘‘۔ (ماہنامہ، ’’کائنات‘‘، کراچی، جولائی تا دسمبر 2023ء، ص 46، 47)
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں