غزہ کی مزاحمت: اسرائیل کا پاگل پن(سولہویں قسط)

اگر اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ غیر معمولی طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے اور کوئی اُس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت اپنے اندر پیدا نہ کرے تو اُس کی نام نہاد فتح یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی، کیونکہ حماس کسی بھی اعتبار سے کوئی فوجی قوت تو تھی نہیں۔ کارڈزمین نے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ یہ واضح نہیں کہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ افسران حماس کو اپنے لیے یا اسرائیل کے وجود کے لیے سب سے بڑا حقیقی خطرہ گردانتے تھے یا نہیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ اسرائیلی فوج کے لیے کوئی بہت بڑی آزمائش ثابت ہوسکتی تھی یا نہیں۔ اسرائیل اگر پورے خطے کے ممالک کو اپنے بارے میں ڈرانا چاہتا تھا تو اِس کا ایک ہی طریقہ تھا … زیادہ سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اور یہی کیا گیا۔ کارڈزمین کے مطابق اسرائیلی فوج کے بعض اعلیٰ افسران کے نزدیک بہتر یہ تھا کہ پورے خطے کو بتادیا جائے کہ اگر جان پر بن آئے تو اسرائیل پاگل پن میں کچھ بھی کرسکتا ہے، اور یہ بھی کہ اس معاملے میں اُسے عالمی برادری کی کچھ بھی پروا نہیں۔ یہ ساری باتیں عجیب تھیں کیونکہ ایک طرف تو اسرائیل نے اپنے سرکاری بیانات میں بارہا کہا کہ حماس کو شکست دینے کے لیے اُس کے حجم اور طاقت کے تناسب سے طاقت استعمال کی گئی، اور دوسری طرف مختلف رپورٹس یہ بتارہی تھیں کہ طاقت کا استعمال غیر متناسب تھا یعنی کوشش یہ کی گئی کہ اسرائیل کے حوالے سے پورے خطے کو ڈرا دیا جائے کہ دیکھو، اگر کسی نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو اُس کا وہی انجام ہوگا جو غزہ کا ہوا۔ یہ سارا بیان ثابت کرتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے انتہائی پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا اور اس بات کی چنداں پروا نہیں کی کہ اِس کے نتیجے میں غزہ اور اُس سے ملحق علاقوں کا نقصان کس حد تک ہوسکتا ہے۔ جب آپریشن کاسٹ لیڈ ختم ہونے کے قریب آیا تب اسرائیلی حکومت کے لب و لہجے میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ لِونی نے کہا کہ اسرائیل کو علاقائی سطح پر ردِّ جارحیت قائم کرنا تھا، سو کرلیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب حماس کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب تم اسرائیل کے کسی شہری کو نشانہ بناؤگے تو اُس کا جواب دینے کے معاملے میں اسرائیلی فوج ہوش کھو بیٹھے گی اور یہی بہترین طریقہ ہے۔ جب جنگ بندی نافذ ہوگئی تب لِونی نے بڑھک مارتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے ذریعے وہی غنڈہ گردی دکھائی جس کی ضرورت تھی اور جس پر میں نے زور دیا تھا! بعد میں لِونی نے مزید کہا کہ میں جو کچھ چاہتا تھا وہی ہوا، اور اگر کبھی پھر ضرورت پڑی تو ایسی ہی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے گا کیونکہ ہمارا بنیادی مقصد اسرائیل کے لیے ردِّ جارحیت قائم کرنا تھا اور یہ مقصد ہم نے حاصل کرلیا۔

اسرائیلی فوج کے ایک سابق افسر نے کرائسز گروپ کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ردِّ جارحیت قائم کرنے کے لیے پاگل کتے کا کردار ادا کیا۔ ایک اور اسرائیلی فوجی افسر نے خاصے فخریہ انداز سے کرائسز گروپ کو بتایا کہ ہم نے حماس، ایران اور اُس کے کسی بھی ہم خیال ملک کو اچھی طرح بتادیا کہ طاقت کے استعمال میں جتنے پاگل وہ ہوسکتے ہیں اُتنا ہی پاگل کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ جس میں کہا گیا تھا کہ جب اسرائیل پر حملہ کیا جاتا ہے تو وہ پاگل ہوجاتا ہے، اسرائیل کے لیے کسی حد تک نقصان دہ بھی ثابت ہوئی۔ قومی سلامتی سے متعلق امور کے ایک اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ ہمارے لیے ایک لحاظ سے بہت اچھی بھی رہی کیونکہ سب کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ جب بھی اسرائیل پر حملہ کیا جاتا ہے تو جواب دینے کے معاملے میں وہ ہوش کھو بیٹھتا ہے، پاگل ہوجاتا ہے۔ اِس تاثر سے تمام دشمنوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جانا فطری امر ہے۔ اور یوں سب نے سبق سیکھ لیا ہوگا کہ پاگلوں سے ٹکرانا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی کا تقاضا نہیں۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے بعد وضاحتوں اور صفائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسرائیل نے حماس کو کچلنے کے نام پر غزہ کے لوگوں پر جو قیامت ڈھائی اُسے درست ثابت کرنے کے لیے کئی نام نہاد دانشور میدان میں آگئے۔ ایک نام نہاد انتہا پسند دانشور نے کہا کہ اسرائیل کے لیے لازم ہے کہ اپنے فوجیوں کی زندگی کو کسی دہشت گرد پڑوسی کی زندگی پر ترجیح دے۔ دو فلسفیوں اور دانشوروں کا استدلال تھا کہ اسرائیل نے کسی بھی مرحلے پر عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی دانستہ کوشش نہیں کی کیونکہ جنگی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے حتی الامکان گریز کرنا اسرائیلی فوج کے لیے ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے پیش کی جانے والی آرا میں یہ حقیقت نظرانداز کردی گئی کہ ایک طرف تو اسرائیلی فوجیوں کی زندگی کو ہر حال میں مقدم قرار دیا گیا اور دوسری طرف دشمن علاقے کے عام، غیر متحارب شہریوں کو نشانہ بنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوئی تب طاقت کے بے محابا استعمال کے ذریعے سبھی کچھ تباہ کرنے پر تُل گئی اور تباہ کرکے دم لیا۔ سیمینارز میں جو دعوے کیے گئے اور اسرائیلی فوج سے ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کاروں نے جو کچھ بھی کہا اُس سے قطعِ نظر گولڈ اسٹون رپورٹ میں یہ نکتہ کھل کر بیان کیا گیا کہ اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت نے آپریشن کاسٹ لیڈ سے قبل اور اِس کے دوران جو کچھ بھی کہا اُس سے صرف یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس آپریشن کا واحد مقصد یہ تھا کہ طاقت غیر متناسب انداز سے استعمال کی جائے تاکہ دشمنوں کے دل میں یہ ہیبت بیٹھ جائے کہ اگر اسرائیل کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا گیا تو کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں درج ہے کہ غیر متناسب طاقت کا استعمال صرف حماس کے جنگجوؤں کے خلاف نہ تھا بلکہ عام فلسطینیوں کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا یعنی اُنہیں بھی بلا امتیاز نشانہ بنایا گیا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ سے قبل اسرائیلی حکومت نے خواہ کچھ کہا ہو اور متحارب و غیر متحارب کے درمیان فرق کرنے کے حوالے سے خواہ کچھ بھی توضیح کی گئی ہو، حقیقت یہ ہے کہ جب یہ آپریشن شروع کیا گیا تب اسرائیلی فوجیوں کو جو ہدایات جاری کی گئیں، جو منصوبہ سازی کی گئی اور جو طریقے اختیار کیے گئے اُن سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی برادری نے غیر متحارب افراد سے معاملت کے لیے جو قوانین اور اصول اپنا رکھے ہیں اور انسانی جان کے احترام سے متعلق جو معیارات متعین کر رکھے ہیں اُنہیں یکسر نظرانداز کیا گیا اور فلسطین کے غیر متحارب شہریوں سے وہی سلوک روا رکھا گیا جو حماس کے جنگجوؤں سے روا رکھا گیا۔ طرح طرح کے فلسفے بگھارنے والے چاہے کتنے ہی دعوے کریں کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاس داری پر رضامند کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ بھی اسرائیلی فوج نے کیا وہ تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی معیارات کے یکسر منافی تھا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ اسرائیلی فوج کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، پھر چاہے وہ متحارب فرد کی ہو یا عام، نہتے اور غیر متعلق شہریوں کی۔

اِس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حماس کی سرگرمیوں کو کچلنے کے نام پر اسرائیل نے جو کچھ بھی کیا اُس کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور تسلیم شدہ اخلاقی معیارات کا رتی بھر خیال نہیں رکھا گیا۔ غزہ کے عام باشندوں کا حماس کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ادارے بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ غزہ کے عام باشندے غیر متحارب ہیں اور کسی بھی اعتبار سے اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں۔ روزانہ ہزاروں فلسطینی اسرائیلی علاقوں میں جاکر کام دھندا بھی کرتے ہیں۔ اسرائیلی انٹیلی جنس سے زیادہ یہ بات کسے معلوم ہوسکتی تھی کہ عام فلسطینی باشندوں کے لیے اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کی مشقت ہی جان نہیں چھوڑتی تو ایسے میں اسرائیل یا کسی اور کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہونے کے بارے میں کس طور سوچا جاسکتا تھا!

آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی فوج نے جس طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کیا وہ کسی بھی اعتبار سے کسی پروفیشنل فوج کی نہیں بلکہ ایک مسلح جنونی گروپ کی طرزِ فکر و عمل تھی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا یہ کہنا ہی کافی ہے کہ حماس کے خلاف جس غنڈہ گردی کی ضرورت تھی وہی غنڈہ گردی اسرائیلی فوج نے دکھائی اور کامیاب رہی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا یہ بیان ہی اسرائیلی فوج کو جنگی جرائم کے قوانین کی روشنی میں قابلِ احتساب بنادیتا ہے۔

غزہ میں جس سطح پر تباہی اور بربادی کا بازار گرم کیا گیا اُس کا کسی بھی حوالے سے، کسی بھی لحاظ سے کوئی جواز نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج نے مجموعی طور پر فوج کے بجائے جنونی نوجوانوں کے ایسے گروپ کے طور پر سب کچھ کیا جسے بظاہر کسی بھی چیز کی کوئی پروا نہ ہو اور کسی کی بھی جان کی اُس کی نظر میں کچھ اہمیت نہ ہو۔ اسرائیلی فوج اور سیاسی قیادت دونوں کو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ جتنے بڑے پیمانے پر آپریشن کاسٹ لیڈ میں طاقت استعمال کی جانی ہے اُس کے نتیجے میں عام شہریوں کا کیا بنے گا۔ مگر پھر بھی انتہائی بے رحمی، بے شرمی، بے ضمیری اور ڈھٹائی سے یہ سب کچھ جنگی کارروائیوں کے نام پر کیا گیا اور غزہ کے باشندوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔

عالمی برادری نے اس بار بھی وہی کیا جو وہ عام طور پر کرتی رہی ہے۔ یعنی صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا گیا۔ امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو کُھلی چھوٹ دی کہ جو بھی کرنا ہے کرو، کوئی روکنے والا نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قوانین اور معیارات کا رتی بھر خیال نہیں رکھا گیا۔ کوشش کی گئی کہ اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبادی جائے۔ عرب دنیا بھی آپریشن کاسٹ لیڈ رُکوانے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔ کسی بھی بین الاقوامی ادارے نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس سے اسرائیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی ہوسکتی ہو۔ سلامتی کونسل نے اِس بار بھی محض تماشائی کا کردار ادا کیا جس میں بحث ہوتی رہی، عواقب اور مضمرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا تاہم عملی سطح پر کچھ بھی نہ ہوسکا۔ غزہ کی پوری آبادی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی مگر نہ تو مسلم دنیا سے کچھ ہو پایا، نہ عالمی برادری ہی کچھ ایسا کر پائی جو اسرائیلی فوج کو اُسے زخم پر زخم دینے سے روک سکتی۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کے ختم ہونے پر بھی عالمی برادری نے کوئی ایسا کردار ادا نہیں کیا جس سے یہ اندازہ ہو کہ آئندہ کہیں کسی پر ایسی قیامت نہیں ٹوٹے گی۔ سلامتی کونسل نے برائے نام بھی مذمت نہیں کی اور دیگر عالمی ادارے بھی آنکھوں پر پٹیاں باندھے بیٹھے رہے۔ جو ہوا سو ہوا مگر اُس کے بعد بھی نہ تو احتساب کی بات ہوئی نہ جنگی جرائم کے ارتکاب پر کارروائی کا سوال اٹھا۔ یہ سب کچھ عالمی برداری کے دامن پر ایک اور بڑے دھبے سے کم نہ تھا۔ غزہ کے نہتے، غیر متحارب اور غیر متعلق باشندوں پر جو قیامت ڈھائی گئی اُس پر عالمی برادری کی بے حسی اور بے عملی بھی جنگی جرم سے کم نہیں۔ اور اِس کا حساب بھی کون لے گا؟

اسرائیلی فوج نے مجموعی طور پر ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی اعتبار سے پروفیشنل فوج نہیں بلکہ جُرم پسند ذہنیت کے حامل جنونی افراد کا محض ایک ٹولہ ہے، گینگ ہے۔ اُس کی سفاکی اور درندگی کا حساب لینے کے بارے میں کسی نے سوچا ہی نہیں۔ (جاری ہے)