آج بھی فٹ بال کا کھیل ڈپارٹمنٹ سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔ریلوے، پی آئی اے، اور واپڈا جیسے سرکاری اداروں کے ذریعے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے
پاکستان فٹ بال ٹیم نے اپنی 76برس کی تاریخ میں پہلی بار فیفا ورلڈ کپ 2026ء کوالیفائر کے دوسرے مرحلے کے لیے کوالیفائی کیا تھا جس کے میچز جاری ہیں۔ مارچ میں پاکستان فٹ بال ٹیم نے اردن کی فٹ بال ٹیم کے ساتھ دومیچ کھیلے جو فیفا ورلڈ کپ 2026ء کا حصہ تھے۔ اردن کی ٹیم نے ابھی حال ہی میں اے ایف سی فٹ بال کپ کا فائنل کھیلا تھا اور کوریا جیسی ٹیم جو فیفا ورلڈ کپ کھیلتی ہے، کو بڑی شکست دی تھی، جو کہ پاکستان کے مقابلے میں ایک مضبوط ٹیم تھی۔ اردن کی فٹ بال ٹیم کی عالمی درجہ بندی 50، جبکہ پاکستان فٹ بال ٹیم کی فیفا رینکنگ 195ہے۔
21 مارچ کو پاکستان اور اردن کا فٹ بال میچ اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم میں منعقد ہوا، اور بظاہر لگ رہا تھا یہ میچ ہوکر ختم ہوجائے گا اورکسی کو معلوم ہی نہیں ہوگا۔ لیکن رمضان کے مہینے میں دوپہر دو بجے دس ہزار لوگ یہ میچ دیکھنے آئے جس کی کسی بھی سطح پر توقع نہیں کی جارہی تھی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں فٹ بال کا کھیل دیکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر پاکستان میں اچھی فٹ بال ہوگی، میچوں میں تسلسل ہوگا اور عالمی میچز ہوں گے تو لوگوں میں یقینی طور پر دلچسپی بھی ہوگی اور وہ تمام تر مسائل کے باوجود میچ دیکھنے بھی آئیں گے۔
اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان کو اردن کے ہاتھوں 3-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کہ اردن جیسی ٹیم کے مقابلے میں اچھی کارکردگی تھی۔ اگرہم پاکستان اور اردن کی فٹ بال ٹیموں کا موازنہ کریں تو پاکستان کے لیے یہ کوئی برا نتیجہ نہیں تھا، کیونکہ پاکستان میں نہ تو کوئی فٹ بال لیگ ہے اورنہ ہی مالی وسائل۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن نے کھلاڑیوں کو پچھلے نوماہ سے کوئی تنخواہ بھی نہیں دی۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جس پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی بنیاد قائداعظم نے رکھی تھی، وہ آج پاکستان میں عملاً سیاست کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں اردن جیسی ٹیم سے مقابلہ کرنا اور محض3-0سے شکست کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
پاکستان کی ٹیم نے ہوم گرائونڈ کے بعد اردن کے ساتھ اُن کے ہوم گرائونڈ میں میچ کھیلا۔ یہ میچ 26مارچ کو کھیلا گیا۔ اس میچ سے پہلے پاکستان فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی عبداللہ اقبال کو پیلا کارڈ مل چکا تھا اور وہ اس میچ سے پہلے ٹیم سے باہر ہوگئے تھے جو کہ پاکستان کے لیے کوئی اچھا فیصلہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس میچ سے قبل پاکستان کو مختلف کھلاڑیوں کی انجریوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ میچ پاکستان کے وقت کے مطابق رات 12بجے کھیلا گیا۔ میچ کے پہلے ہاف میں پاکستان ٹیم نے بہت بہتر کھیل کھیلا اور اردن کی ٹیم کو 2-0تک محدود رکھا، لیکن دوسرے ہاف میں اردن کی ٹیم نے مزید 5 گول کا اضافہ کیا اور یوں اس میچ میں پاکستان کو 7-0سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کہ بڑی شکست تھی۔
پاکستان میں آج بھی فٹ بال کا کھیل ڈپارٹمنٹ سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریلوے، پی آئی اے، اور واپڈا جیسے سرکاری اداروں کے ذریعے یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ یہ وہ سسٹم ہے جو دیگر ممالک میں 1960ء سے ختم ہوگیا تھا۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ کھلاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق نہ تو سہولتیں حاصل ہیں اور نہ ہی ان کو معیاری تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کھلاڑیوں کو اتنے میچز بھی نہیں ملتے جس سے ان کو زیادہ سے زیادہ عالمی معیار کے مطابق سیکھنے کا موقع مل سکے۔ فٹ بال لیگ نہ ہونے کی صورت میں یہ تمام کھلاڑی اپنا گھربار چلانے جیسی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔اسی بنیاد پر یہ کھلاڑی اپنے روزگار کے تحفظ کے لیے بڑے بڑے محکموں تک خود کو محدودکرلیتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔محکمہ جاتی نظام کو ختم کرکے ہمیں کلب سسٹم کا آغاز کرنا ہوگاتاکہ جلد سے جلد ملک میں فٹ بال لیگ کا آغاز ہو اور کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتیں پیش کرنے کا بھرپور موقع مل سکے، اوراسی بنیاد پر فٹ بال میں ہماری عالمی درجہ بندی بہتر ہوسکتی ہے۔پاکستان فٹ بال ٹیم کے کوچ اسٹیفن کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں فٹ بال لیگ نہیں ہوگی اُس وقت تک ملک میں فٹ بال کے کھیل میں نیا ٹیلنٹ بھی سامنے نہیں آسکے گا۔
پاکستان کو دو اور اہم میچ کھیلنے ہیں۔ 6 جون کو سعودی عرب کی ٹیم کو پاکستان آنا ہے، جس کے بعد ہماری ٹیم کو جون ہی میں تاجکستان جانا ہے جہاں اُن کے ہوم گرائونڈ میں میچ کھیلنا ہے۔ پاکستان فیفا ورلڈ کپ سے باہر ہوچکا ہے لیکن ابھی اس کے دو میچز باقی ہیں۔ پاکستان اور اردن کے میچ کے دوران پاکستان فٹ بال ٹیم کے اہم کھلاڑی فرید اللہ زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد ان کو لاہور میں ایک بڑی سرجری کا سامنا کرنا پڑا۔ اب وہ بہت حد تک بہتر ہوگئے ہیں اور میچز کے لیے دستیاب ہوں گے۔ پاکستان کو جون میں سعودی عرب کی ٹیم کی میزبانی کرنی ہے لیکن ابھی تک اسلام آباد کے جناح گرائونڈ میں لائٹس نہیں لگی ہیں۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ نے تاجکستان کے میچ سے قبل لائٹس لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ جون کے مہینے میں پاکستان میں بہت گرمی ہوگی اور میچ کا دوپہر میں منعقد ہونا بہت مشکل ہوگا، اور اس کے لیے روشنی کا ہونا بہت ضروری ہوگا تاکہ یہ میچ رات کو منعقد ہوسکے۔ اس کے علاوہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی نارملائزیشن کمیٹی کو دسمبر تک وقت مل گیا ہے تاکہ وہ انتخابات کروا سکے۔ یہ انتخابات پہلے ہونے تھے لیکن ابھی تک انتخابات کا عمل منعقد نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے ہمارا نقصان یہ ہوا ہے کہ فیفا کے فنڈز رک گئے ہیں اور ابھی تک کھلاڑیوں کو تنخواہیں نہیں مل سکی ہیں۔ یہ وہ ناملائزیشن کمیٹی ہے جس کا انتخاب فیفا نے کیا تھا، کیونکہ جو پیسے وہ فٹ بال فیڈریشن کو کھلاڑیوں کی مد میں بھیجتا ہے وہ یا تو کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں یا ہمارے سیاست دان ان کا استعمال ذاتی مفاد میں کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے فیفا نے پاکستان کی فٹ بال پر کئی مرتبہ پابندی بھی لگائی۔ امید ہے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے انتخابات جلد سے جلد ہوسکیں گے تاکہ کھلاڑیوں کی تنخواہیں مل سکیں اور جلد ملک میں فٹ بال لیگ کا آغاز ہوسکے، تاکہ فٹ بال کی ترقی کا عمل آگے بڑھ سکے۔