ہر سال کی طرح امسال بھی ایامِ عید کے موقع پر اگر ایک طرف ٹرانسپورٹ مافیا نے، تو دوسری جانب گداگر مافیا نے عوام کی زندگی اپنی چیرہ دستیوں کی بہ دولت یکسر اجیرن بناکر رکھ دی ہے۔
21 رمضان المبارک کو کراچی میں مقیم میرے تایا جان کا اچانک انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے مجھے ہنگامی طور پر کراچی جانا پڑا۔ جیکب آباد سے روانگی کے وقت مجھے کوچ کا ٹکٹ 1,800 روپے میں ملا جس پر میں نے کراچی تک کا سفر کیا۔ 23 رمضان المبارک کو جب میں نے کراچی سے جیکب آباد جانے کا قصد کیا تو وہی ٹکٹ جو 1,800 روپے میں ملا تھا، مجھے 2,500 روپے میں دستیاب ہوا۔ اس موقع پر بکنگ کلرک نے واضح طور پر میرے احتجاج کے جواب میں کہا کہ ہم نے اپنے مالکان کے حکم پر کوچز کے کرایوں میں اضافہ تیل کی حالیہ قیمت میں اضافے اور ایام عید کی وجہ سے کیا ہے اور ہمارا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ بات اُس نے بالکل سچ کہی تھی، کیوں کہ جن کوچز کے کرائے میں اضافہ کیا گیا تھا وہ جیکب آباد کے منتخب عوامی نمائندوں کے حد درجہ قریبی رشتے دار کی ملکیت ہیں۔ اس موقع پر یہ بھی معلوم ہوا کہ ابھی ان کرایوں میں مزید اضافہ ہوگا اور جوں جوں ایامِ عید قریب آتے جائیں گے ٹکٹ کی قیمت میں بھی اسی رفتار سے من مانا اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ عید گزرنے کے بعد بھی جب گھروں کو جانے والے مسافر دوبارہ دوسرے شہروں کو بہ غرضِ روزگار واپس جانا چاہیں گے تب بھی انہیں بعینہٖ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بے حد افسوس ناک بلکہ قابلِ مذمت امر یہ ہے کہ ہر سال دونوں عید کے ایام میں یہ سارا ظالمانہ سلسلہ بڑے دھڑلے کے ساتھ حکومت کی ناک تلے جاری و ساری رہتا ہے اور محکمہ ٹرانسپورٹ بھی سارا منظر بڑی بے حسی کے ساتھ دیکھا کرتا ہے۔ اس کے بعد بدعنوان، نااہل اور بے حمیت ذمہ داران کو مالِ حرام کی اتنی چاٹ اور لت لگ چکی ہے کہ وہ کرایوں میں من مانہ بے حساب اضافہ کرنے والے ٹرانسپورٹ مالکان سے کوئی بھی تعرض محض اس لیے نہیں کرتے کہ ایام عید کے موقع پر اپنے گھروں کی طرف یا بعدازاں عید گزار کر وہاں سے واپس آنے والے مسافروں سے من مانے کرائے وصول کرکے جو لوٹ مار کی جاتی ہے اس میں سے ’’حصہ بہ قدرِ جثہ‘‘ انہیں بھی مل جاتا ہے۔ یہ دردناک کہانی اور المیہ ملک بھر کے مختلف علاقوں کی جانب ایام عید کے موقع پر سفر کرنے والوں کے ساتھ ہر سال وقوع پذیر ہوا کرتا ہے۔ بے چارے فیکٹریوں میں کام کرنے والے افراد یا کم تنخواہ دار مسافروں کے لیے ایامِ عید کے موقع پر اپنے گھروں پر جاکر اپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ عید منانا بجائے خود ایک بڑا مسئلہ اور ذہنی اذیت کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک عام فرد کا عید کے ایام میں اپنے گھر کو جانا اور پھر عید مناکر مع خاندان اپنے روزگار کے لیے دوبارہ واپس آنا کسی بہت بڑی آزمائش سے کم ہرگز نہیں ہوتا۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے پسِ پردہ بھی ہماری صوبائی حکومت اور وفاق میں براجمان حکمران ہی ہیں۔ نام نہاد عوام دوست اور جمہوریت کے علَم بردار کہلانے والوں نے ہر روپ اور ہر رنگ میں وطنِ عزیز کے ایک عام، پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے ستائے فرد کی زندگی ایک طرح سے جیتے جی عذاب کی صورت کرڈالی ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا کو کوئی بھی لگام دینے والا نہیں ہے۔
عید کے ایام میں عید کا تہوار اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کے خواہش مند افراد کو ٹرانسپورٹ مافیا عید منانے سے پیشتر ہی کرایوں میں من مانا بے تحاشا اضافہ کرکے راستے ہی میں لوٹ لیتی ہے اور حکومت سمیت محکمہ ٹرانسپورٹ کے ذمہ داران خاموش تماشائی بنے بڑی بے حمیتی کے ساتھ مسافروں کے ساتھ ہر سال روا رکھے گئے اس ظلم پر قطعی کسی قسم کی کارروائی صرف اس لیے نہیں کرتے کہ ساری لوٹ مار میں سے جو مسافروں سے کی گئی ہوتی ہے‘ اس کا حصہ بڑی ’’ایمان داری‘‘ کے ساتھ ٹرانسپورٹ مافیا انہیں ان کے ٹھکانوں پر پہنچا دیتی ہے۔ درمیان میں بے چارے عام افراد رگڑے جاتے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ انسان سارا سال اپنے گھر سے باہر رہے مگر عید کے ایام وہ اپنوں کے ساتھ گزارے تو سال بھر گھر سے دور رہنے کا کرب اور احساس ختم ہوجاتا ہے۔ گھر میں والدہ کے ہاتھوں کے پکے کھانے، بہنوں کا لاڈ پیار، بچوں کی قلقاریاں اور اپنی شریکِ حیات کے ساتھ وقت گزارنے کی مسرت بلاشبہ اللہ کی عظیم ترین عنایات میں سے ایک بہت بڑی عنایت ہے۔ لیکن وطنِ عزیز میں تہوار اور خوشیوں بھرے مواقع پر بھی اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر میں غلطاں ٹرانسپورٹ مافیا کے لوگ ایسے افراد کی ساری مسرت کرایوں میں من مانا اضافہ کرکے غارت کردیتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ایام عید کے پُرمسرت مواقع پر مع فیملی سفر کرنا ایک عام فرد کے لیے بجائے خوشی کے کرب اور اذیت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک جانب حد درجہ مہنگائی، محدود سی آمدنی، اس پر درزیوں کے ناز نخرے مستزاد ہیں۔ حصولِ علم کے لیے یا پھر اپنے گھروں سے باہر بہ غرضِ روزگار مقیم افراد کے لیے عید کے ایام میں گھر آنا اور پھر عید گزارنے کے بعد واپس جانا ایک آزمائش سے کم ہرگز نہیں ہے۔ بس اللہ ہی ہماری حالتِ زار پر رحم فرمائے، آمین۔