’را‘ کی کارستانیاں… گارڈین اخبار کی گواہی

پاکستان میں قتل کی ان وارداتوں پر مکمل طور پر پراسرار خاموشی رہی

تین برس سے ملک میں جاری ایک مخصوص انداز اور طریقہ کار کے تحت ہدف بناکر ہونے والی قتل کی کارروائیوں کی ڈور کا سرا تو پوری طرح مل ہی گیا ہے، اب اس مقدمے کو تقویت دینے والے شواہد اور گواہیاں بھی سامنے آتی جارہی ہیں۔ انہی میں ایک مضبوط گواہی برطانیہ کے مشہور اخبار گارڈین کی تحقیقاتی رپورٹ ہے، جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی طرف سے پاکستان کے اندر کسی دور میں کشمیر کے اندر سرگرم رہنے والے سابق عسکری کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے پورے نیٹ ورک اور طریقہ کار کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی اہم بات دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت ہے جس میںایک فریق ان کارروائیوں سے پہلو بچانے کے بجائے اسے قبول کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ گارڈین کے تجزیہ نگاروں نے اس رپورٹ کا عنوان ہی پاکستان کے حساس اداروں کے نمائندوںکے مؤقف سے کشید کیا ہے جو یوں ہے: ’’بھارتی حکومت نے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کے احکامات جاری کیے، پاکستانی انٹیلی جنس کا دعویٰ ‘‘۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں را نے کراچی سے راولاکوٹ تک پاکستان کے مختلف حصوں میں 20 افراد کو قتل کیا، اور یہ بھارت کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا شاخسانہ ہے جس کے تحت وہ مختلف اوقات میں اپنے مطلوب افراد کو کسی بھی ملک میں گھس کر مارنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ رپورٹ میں اس طریقہ کار کو اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد اور سوویت یونین کی کے جی بی کی پیروی قرار دیا گیا ہے جو دوسرے ملکوں میں اپنے مخالفین کے ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ رپورٹ کی اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے ان وارداتوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے تیسرے ملک یعنی متحدہ عرب امارات کی سرزمین استعمال کی جاتی رہی۔ متحدہ عرب امارات میں قائم سلیپر سیل کے ذریعے پاکستان کے اندر اجرتی قاتلوں کے نیٹ ورک کو رقوم کی ترسیل اور ہدایات دی جاتی رہیں۔ رپورٹ میں انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے ترکی کی سرزمین پر قتل کو بھی ان کارروائیوں کے لیے ایک مثال بنایا گیا کہ اگر سعودی عرب ترکی کی سرزمین پر اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے تو بھارت ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ اسی سوچ کے تحت بھارتی خفیہ ادارے نے کشمیر اورخالصتان کے حوالے سے سرگرم افراد کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔

گارڈین کی اس رپورٹ کا وزن اور اہمیت اس بات سے مزید بڑھ گئی ہے کہ اس میں ڈینیل مارکی جیسی امریکی مصنف اور تجزیہ نگار کی ماہرانہ رائے بھی شامل ہے۔ ڈینیل مارکی ان دنوں بھی اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ کے حوالے سے زیر بحث ہیں۔ اس کھیل میں بھارت سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ اپنے اہداف کا دائرہ پاکستان سے وسیع کرتے ہوئے مغربی ملکوں میں جا پہنچا جہاں کینیڈا میں خالصتان نواز ایک راہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کیا گیا، اور جب اس قتل کی تحقیقات شروع ہوئی تو وارداتی کا نقشِ قدم بھارت تک پہنچ گیا۔ اس طرح یہ سارا معاملہ پوری طرح عیاں ہوگیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں پوری کہانی کھلتی چلی گئی۔ قتل کی تمام وارداتوں میں ایک ذہن اور ایک ہی ہاتھ کا خاکہ بنتا چلا گیا۔ ان وارداتوں میں بھارت کے ہاتھوں کے دستانے بھی اُترتے ہوئے نظر آئے۔ اس سے پہلے بھارتی خفیہ ادارہ پاکستان میں ظہور مستری، پیر بشیر المعروف امتیاز عالم اور خالد رضا سمیت کئی افراد کو قتل کرچکا تھا مگر ان کا قتل پردۂ اخفا میں ہی تھا۔ راولپنڈی میں قتل ہونے والے امتیاز عالم کی نمازِجنازہ میں نعروں اور جذبات کی صورت میں رنگ، رخ اور ماحول بتارہا تھا کہ یہ کوئی مقامی معاملہ یا زر، زمین کے جھگڑے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے دور تک ملتے ہیں۔ اس کے بعد البدر کے سابق کمانڈر خالد رضا کی کراچی میں قتل کی واردات نے اس کہانی کو اُس وقت بڑی حد تک کھول کر رکھ دیا جب جنازے کے دوران تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کمانڈر بخت زمین نے قتل کی اس واردات کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ بدلہ لینے کے اس اعلان سے واضح ہوگیا تھا کہ قتل کی وارداتوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے اور وہ ہاتھ لامحالہ بھارت کا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں قتل کی ان وارداتوں پر مکمل طور پر پراسرار خاموشی رہی۔ سرکاری سطح پر ان وارداتوں پر تبصرے سے بھی گریز کیا جا تا رہا۔ ممکن ہے اس کی وجہ قتل کی وارداتوں کی تحقیقات کو راز میں رکھنے کی حکمت عملی رہی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات کو مزید نہ بگاڑنے کی سوچ بھی پسِ پردہ ہو۔ مگر پاکستان کی خاموشی کے نتیجے میں بھارت اپنے ایک کے بعد دوسرے ہدف کو شکار کرتا چلا گیا، یہاں تک کہ یہ سلسلہ 20 افراد تک پہنچ گیا۔ وہ تو کینیڈا میں خالصتانی راہنما کے قتل نے بھانڈا پھوڑ دیا اور کینیڈین حکومت کے مضبوط ردعمل نے بھارت کو عالمی کٹہرے میں لاکھڑا کیا تو پاکستان نے بھی اپنے مقدمے کی فائل عالمی رائے عامہ کی عدالت کے آگے کھول دی۔ بصورتِ دیگر یہ قتل بھی پاکستان میں لاتعداد اندھے قتل کی تاریخ کا حصہ بن جاتے۔

گارڈین کی متذکرہ رپورٹ پر بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا تبصرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اب قتل کی ان وارداتوں یا مستقبل میں ایسی کارروائیوں کو اونرشپ دینے سے گریز نہیں کررہا۔ راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص باہر سے آکر بھارت کو نشانہ بنائے گا بھارت کو یہ حق ہے کہ وہ اُسے متعلقہ ملک کے اندر گھس کر مارے، یہ بھارت کی پالیسی ہے۔ راجناتھ سنگھ کے اس اندازِ بیاں کو گارڈین اخبار نے اپنی ایک اور رپورٹ کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ’’راجناتھ سنگھ کے اس بیان سے لگ رہا ہے کہ بھارت ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے‘‘، اور لکھا کہ ’’بھارت پہلی بار غیر ملکی سرزمین پر ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کو تسلیم کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے‘‘۔ اس پر وزیر خارجہ خواجہ آصف کا نرم و ملائم سا تبصرہ بھی سامنے آیا جس میں راجناتھ سنگھ کے اس بیان کو پاکستان کے مؤقف کی تصدیق قراردیا گیا اور کہا گیا کہ اگر بھارت نے دوبارہ بالاکوٹ کی طرح کی کارروائی کی تو ردعمل بھی ویسا ہی ہوگا۔ انہوں نے یہ نہیں کہاکہ اگر دوبارہ پاکستان کی سرزمین پر کسی شہری کو نشانہ وار قتل کیا گیا تو اس صورت میں ردعمل کیا ہوگا؟