اس ملک کو چلانے کے لیے آزاد، غیر جانب دار، حرص و ہوس سے پاک عدلیہ ناگزیر ہے
’’معاشرے میں بہت مایوسی اورگھٹن ہے‘‘، یہ جملہ اب کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور حالات کی خرابی نے حکومتی رٹ کے تن سے لباس اتارکر پھینک دیا ہے۔ لوگ راہ چلتے ہوئے مارے جارہے ہیں، بے شمار خاندانوں کے افراد سڑکوں اور چوراہوں میں جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں جان کی بازی ہار چکے ہیں، اور ہماری اشرافیہ، عدلیہ اور حکومت ’’خط بازی‘‘ کے کھیل میں گھری ہوئی ہیں۔ حال ہی میں یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ انسانی ترقی کے حوالے سے معاشروں میں پاکستان 193ممالک میں 164ویں نمبر پر ہے، اور یوں ہم درمیانے ترقی پذیر ممالک کی صف سے خارج ہوکر کم آمدنی والے غریب مسکین ملکوں کی کھائی میں گر چکے ہیں جہاں تعلیم ہے نہ روزگار، اور نہ گزربسر کی گنجائش… اور حکومت ہر تین چار ماہ کے بعد آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہے۔ ہماری پارلیمنٹ، سینیٹ اور قومی سیاسی قیادت نے آج تک ملک کے اس قدر کھائی میں جانے کی حقیقی وجوہات قوم کے سامنے نہیں رکھیں، اور نہ یو این ڈی پی کی اس رپورٹ پر نومنتخب اسمبلی میں کوئی بحث ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ’’مار کر رہیں گے ایک دوسرے کو‘‘ کے نعروں کی چھائوں میں اسمبلی میں آتی اور شور شرابہ کرکے اجلاس سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ حکومت کا کام اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ اس بات پر لڈی ڈالتی رہے کہ دوست ممالک نے قرض کی قسط دے دی ہے اور اب آئی ایم ایف سے بھی قسط مل جائے گی۔ پاکستان164 ویں نمبر پر اس لیے پہنچا کہ ہماری ہر حکومت پہلے سے سخت ترین شرائط پر قرض لیے جارہی ہے اور اس وقت ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ تین برس میں 72 ارب ڈالر کے نئے قرضے چاہئیں، نہ ملے تو عالمی ممالک میں ہمارا نمبر مزید نیچے جاسکتا ہے۔ اس وقت ملک پر کُل قرض 131 ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے جو اگلے تین سال میں اتارنے کے لیے نیا قرض لینے کی صورت میں مزید بڑھ کر 203 ارب ڈالر سے بھی بڑھ جائے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت اقتصادی لحاظ سے ملک بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ معاشی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے ہی پاکستان کو آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے، جو پاکستان کی سنگین ہوتی اقتصادی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے مزید اپنی کڑی شرائط میں جکڑنے کے لیے شکنجہ تیار کیے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ادوار سے اب تک جو قرضے لیے گئے، معیشت کی بحالی تو درکنار، ان کا عشر عشیر بھی عوام کی حالت بدلنے پر خرچ نہیں کیا گیا۔ وہ قرضے کہاں خرچ کیے گئے؟ اس کا چیک اینڈ بیلنس کہیں نظر نہیں آتا۔
رواں ماہ کے آخری ہفتے میں آئی ایم ایف بورڈ کے ساتھ میٹنگ متوقع ہے، وزیراعظم شہبازشریف قوم کو پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کی شرائط آسان نہیں ہوں گی۔ حکومتوں کا حال یہ ہے کہ آٹے کے تھیلوں پر نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی تصاویر لگائے بغیر سستا مگر غیر معیاری آٹا بھی کسی مستحق کی دہلیز پر نہیں پہنچنے دے رہی ہیں۔ عالمی اداروں کے تعاون سے چلنے والے حکومت کے خیراتی پروگراموں کا بجٹ اس وقت580 ارب سے بھی زیادہ ہے مگر ہماری حکومتیں یہ رقم بھی لوگوں کو قطاروں میں لگاکر دے رہی ہیں، جب کہ ملک کا کوئی ایک ضلع منتخب کرکے وہاں مستحق افراد کو روزگار کی فراہمی کے لیے بلا سود قرض کے طور پر یہ رقم دے کر معاشرے میں بہتری لائی جاسکتی ہے، مگر حکومت اس جانب توجہ نہیں دینا چاہتی۔ حکومت کی ترجیح یہ بن گئی ہے کہ مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرنی ہے اور نہ سرکاری قیمتی اراضی پر غیر قانونی انسانی بستیوں کو بسانے سے باز آنا ہے۔
سرکاری اراضی پر غیر قانونی بستیاں بسانے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو آڑ بناکر یہ اراضی اپنے قبضے میں کرلی جائے۔ اسلام آباد میں اس حوالے سے بہت برا حال ہے، یہاں ہر کچی بستی کے پیچھے ایک بااثر سیاست دان کھڑا ہے۔ ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ملک کی صورتِ حال پر مختصر تبصرہ یہی ہے کہ یہاں عدل، ترقی، جی ڈی پی اور تعلیم، صحت اور امن صرف کاغذوں اور فائلوں میں پڑے منصوبوں کی حد تک ہیں، زمین پر کچھ نہیں ہے۔ زمین پر راہ چلتے بے گناہ لوگوں کی گرتی ہوئی لاشیں اور ناحق مارے جانے والے شہریوں کے مسلسل آباد ہوتے ہوئے قبرستان ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ملک میں یہ سرکس چلتا رہے گا؟
عدل کا حال یہ ہے کہ تھوک کے حساب سے مقدمات بنائے جاتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد تھوک کے حساب سے ہی ان مقدمات میں ضمانتیں لی جاتی ہیں اور’’باعزت‘‘ بری کردیا جاتا ہے۔ خیال یہی تھا کہ ملک میں نئے انتخابات کے بعد شاید استحکام آجائے گا، مگر صورت ِحال مزید خراب ہورہی ہے۔ رمضان المبارک ختم ہورہا ہے، اور عید کے دن یہ شمارہ قاری کے ہاتھ میں ہوگا۔ پچیس کروڑ کی آبادی میںکتنے پاکستانی ہیں جنہیں پُرامن انداز میں خوشی کے لمحات گزارنے کو ملیں گے؟ عید کے دن بھی پوری قوم آئی ایم ایف کی تلوار کی زد میں ہوگی۔
عدالتی محاذ پر اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) کے 6ججوں کا خط اور اس کے بعد سپریم کورٹ کی طرف سے سوموٹو اہم ہے، کیونکہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ عدالتی اسٹیبلشمنٹ کئی دہائیوں سے سیاست دانوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس پر تنبیہ کی تھی لیکن انہیں سزا دی گئی۔ جیسے تیسے بھی ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے IHC کے خط کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ یہاں امید کی جارہی ہے کہ عید کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوگی تو یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔ لیکن حالات جس طرح نظر آرہے ہیں یہ معاملہ حل ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ ملکی سیاست ایک جانب، 6 جج صاحبان کا خط دوسری جانب، حکومت کا عدم استحکام تیسری جانب جو عید کے بعد اپوزیشن کی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی میں گھری ہوئی ہے۔ اس سیاسی پس منظر میں ملک میں کیا عدلیہ، سیاسی طبقہ اور ہمارے معاشی جادوگر اس قوم کو پُرامن زندگی گزارنے کا موقع دے سکتے ہیں؟ بلاشبہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 جج صاحبان نے خط لکھ کر جہاں ملکی سیاست اور نظام عدل کو ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، وہیں خود کو بھی ایک ایسے گرداب میں پھنسا دیا ہے جہاں سے نکلنا اب ممکن نہیں رہا۔ خط کا کھیل محض ایک خط تک محدود نہیں بلکہ یہ طاقت ور گروہوں کے مابین اعصابی جنگ ہے، اس جنگ میں وہی جیتے گا جو طاقت ور ہوگا۔ ہمارے ملک کا نظامِ عدل آج سے نہیں بلکہ مولوی تمیزالدین کیس سے ہی مسلسل امتحان اور آزمائش سے گزرتا رہا، اور جیت ہمیشہ طاقت ور کی ہوئی۔ عدالتی نظام میں اگر ماتحت عدلیہ سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک احتساب کی مضبوط روایت کی بنیاد رکھی گئی ہوتی تو جیت بھی عدلیہ کی ہوتی اور اعصابی جنگ بھی نہ ہوتی۔ عدالتی نظام کی کمزوری کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نظام عدل پر عام آدمی کا اعتماد اٹھ چکا ہے، ملک کے پورے نظام میں بدعنوان اور کرپٹ عناصر کا کلہ مضبوط ہے۔ اس لیے یہ معاملہ حل ہوتے ہوتے اگرچہ کچھ وقت لے گا تاہم کسی منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوجائے گا لیکن جاتے جاتے عدلیہ کے نظام کو مزید کمزور کر جائے گا۔
6 جج صاحبان کے خط کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے اگرچہ جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا تھا، لیکن یہ کمیشن جسٹس جیلانی کی معذرت کے بعد ٹوٹ چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک نئے کمیشن کے قیام کا فیصلہ ہوجائے جس کے کام کرنے کے طریقہ کار بھی طے کرلیے جائیں، تاہم اس کے باوجود یہ معاملہ سلجھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا، کیونکہ اصل سوال یہ ہوگا کہ کمیشن کے ٹی او آرز کیا ہوں گے؟ ایسے ٹی او آرز بنائے جا سکتے ہیں جن سے فائدہ شکایت کنندہ کے بجائے ’’نظام‘‘ کو پہنچے، کیونکہ جو معاملہ خط سے شروع ہوا اب وہ دھمکیوں کے ساتھ انتھراکس بھرے خطوط تک جا پہنچا ہے جس کا مقصد سراسیمگی پھیلانا بھی ہوسکتاہے، جبکہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ مواصلاتی نظام کی موجودگی میں ایسے خطوط کی ترسیل ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔ عدلیہ کے جج صاحبان کو مشکوک اور دھمکی آمیز خطوط موصول ہورہے ہیں، اب تک چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے11، اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 اور لاہور ہائی کورٹ کے 6 ججوں کو خط مل چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس عائشہ ملک کے نام مشکوک خط آئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس امین الدین اور جسٹس محمد علی مظہر کے نام بھی خط آئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں میں چیف جسٹس ملک شہزاداحمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس عابد عزیز شیخ شامل ہیں۔ معاملے کا کھوج نہ لگنا حالات کی بے بسی کی ایک تصویر ہی قرار دی جاسکتی ہے جو صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنارہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ کے اجلاس میں اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ ان کے بقول، اس معاملے پر سیاست کے بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ وزیراعظم کے یہ الفاظ ان مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں جو عموماً ایسے معاملات میں سیاسی بحث و مباحثے اور الزام تراشیوں کو جنم دیتے ہیں جس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہو یا افراتفری پھیلے۔ خطوط ملنے کے بعد وزارتِ داخلہ، اسلام آباد پولیس اور سی ٹی ڈی تحقیقات میں ان کے پسِ پردہ اور ظاہری عوامل کا جائزہ لے رہے ہیں جن میں خط لکھنے والے نے خود کو خاتون ظاہر کیا ہے۔ دستیاب شواہد کی رو سے متعلقہ ڈاک خانے کی سی سی ٹی وی کا جائزہ لیاگیا، ایک اہل کارکو گرفتاری اور پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا گیا، بعد ازاں تمام خطوط سی ٹی ڈی کے سپرد کردیے گئے ہیں۔ پولیس کو درج کرائے گئے مقدمات میں اس معاملے کو خطوط کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ شواہد کے مطابق خطوط ہاتھوں سے تحریر نہیں کیے گئے، انھیں کمپوز کیا گیا ہے۔ خط کے متن میں لفظ انتھراکس نمایاں کیا گیا تھا۔ ان خطوط کی روشنی میں ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں اورسوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں جن کا فی الفور خاتمہ ضروری ہے۔ خطوط کے حوالے سے معاملے کی تہہ تک پہنچتے ہوئے اس کے عوامل کا پتا لگایا جانا ضروری ہے۔وزیراعظم شہبازشریف تحقیقات کا اعلان کرچکے ہیں جس کا دائرہ اس قدر وسیع ہونا چاہیے کہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔حقائق پر سے پردہ اٹھایا جانا بہرحال ضروری ہے کیونکہ آزاد عدلیہ کا وجود ایک فلاحی مملکت کی بنیاد ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے یہ کسی جاسوسی فلم کا اسکرپٹ ہو۔ تمام خطوط کو جانچ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے اور حکومت نے بھی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لیکن اس ’پاؤڈر‘ نے ایسا طوفان کیوں برپا کررکھا ہے؟ یہ آخر ہو کیا سکتا ہے اور ’پاؤڈر والے خطوط‘ درحقیقت ہیں کیا؟ یہ تمام حقائق اور واقعات ایک طرف… اس ملک کو چلانے کے لیے آزاد، غیر جانب دار، حرص و ہوس سے پاک عدلیہ ناگزیر ہے، یہی اس ملک کے تمام مسائل کا حل ہے۔