سیاسی حکومت کی ساکھ سوالیہ نشان

نئی قیادت کے ساتھ جماعت اسلامی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟

پاکستان عملی طور پر ایک بڑے سیاسی، جمہوری، آئینی، قانونی، انتظامی، معاشی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا ریاستی نظام اپنی اہمیت کھورہا ہے۔ داخلی، علاقائی اور عالمی محاذ پر ہماری مشکلات بڑھ رہی ہیں اور کئی معاملات پر ہم بندگلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ جو سیاسی اورجمہوری نظام ہے وہ ہائبرڈ یعنی ایک کنٹرولڈ نظام ہے جس میں سیاسی نظام نمائشی طور پر موجود ہے جبکہ طاقت کا اصل سرچشمہ سیاسی قیادت نہیں بلکہ پسِ پردہ طاقتیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس اب ریاستی، سیاسی اور عوامی مفادات پر مبنی سیاست کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ عام آدمی کا مقدمہ بہت حد تک کمزور ہوگیا ہے اور اس کی روزمرہ کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی اورمعاشی نظام میں ہمارے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے آج جو بھی سیاست ہورہی ہے اُس کا کوئی براہِ راست تعلق عوامی مفادات یا عوام کی بہتری سے نہیں ہے۔ اسی لیے ریاست، عوام اور حکومت کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ ملک کی تینوں بڑی اور مقبول سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کے پاس کوئی ایسا روڈمیپ نہیں جو عوام کو مشکلات سے باہر نکال سکے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اقتدار کی سیاست میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں، جبکہ پی ٹی آئی بھی کوئی بڑی جدت اپنی حکمرانی کے نظام میں قائم نہیں کرسکی۔

موجودہ سیاسی نظام یا اس سیاسی حکومت کی ساکھ پر ہی کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں۔ اس حکومت کو کیسے بنایا گیا ہے، کون ان حکمرانوں کی سیاسی سرپرستی کررہا ہے اور کس کو طاقت کے زور پر اقتدار کی سیاست سے باہر نکالا گیا ہے، یہ سب عوام کے سامنے نمایاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اہم رکن جاوید لطیف کے بقول ہمارا حکومتی مینڈیٹ جعلی ہے اور ہمیں جتواکر کسی کو ہرایا گیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہماری اِس حکومت کو سیاسی ساکھ کے بحران کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ہماری حکومت بنا تو دی گئی ہے مگر یہ حکومت ہماری نہیں بلکہ پسِ پردہ قوتوں کی ہے۔ پچھلے دنوں سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رکن رانا ثنا اللہ کے بقول شکرکریں کہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے خود کو وزیر داخلہ تک محدود کیا ہوا ہے، وہ اگر وزیراعظم بننا چاہتے تو ان کو بھلا کون روک سکتا تھا! اس لیے رانا ثنا اللہ کے بقول ہمیں یا ہماری حکومت کو محسن نقوی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے خود کو وزیراعظم بنانے کے بجائے وزیر داخلہ تک محدود کرلیا ہے۔ اسلام آباد کے حکومتی حلقوں میں یہ بحث موجود ہے کہ اصل وزیراعظم شہبازشریف نہیں بلکہ وزیر داخلہ محسن نقوی ہیں، اُن ہی کے پاس مکمل اختیارات ہیں، اور اُن کے سامنے وزیراعظم خود کو بے بس سمجھتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ محسن نقوی کی اصل طاقت کون ہے اور کون اُن کے پیچھے کھڑا ہے۔ اس سیاست کا سب سے بڑا تماشا محسن نقوی، انوارالحق کاکڑ اور فیصل واوڈا کا سینیٹر بننا ہے۔ یہ تمام کیسے سینیٹر بنے ہیں، کس کی حمایت سے بنے ہیں، اور کس نے سیاسی حکومت پر ان کی حمایت کے لیے دبائو ڈالا؟ یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس لیے یہ سارا سیاسی و جمہوری نظام محض ایک تماشے کی بنیاد پر کھڑا ہے اور اس حکومت کو خود اپنے اندر سے ہی ساکھ کے تناظر میں ایک بڑے بحران کا سامنا ہے۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس کیا آپشن ہیں؟ اور کیا واقعی ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے اس سیاسی اور جمہوری نظام سے باہر نکل کر حقیقی جمہوریت کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں؟ کیونکہ اگر سیاسی جماعتوں کو اس جنگ میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرنا اور سیاست کو پرانے روایتی طور طریقوں کی بنیاد پر چلانا ہے تو پھر جمہوریت کا معاملہ مزید سرد خانے میں چلا جائے گا۔ ایک طرف حکومت ہے تو دوسری طرف حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، بلوچستان سے محمود خان اچکزئی اور سردار عطا مینگل نمایاں ہیں۔ حکومت کی تو کوشش ہوگی کہ وہ ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلائے جانے والے اس حکومتی نظام کو سیاسی آکسیجن فراہم کرے۔ جبکہ اصل جنگ اگر ہونی ہے تو اس کا دائرۂ کار حزبِ اختلاف کی سیاست سے جڑا ہوا ہے، لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی کئی محاذوں پر تقسیم نظر آتی ہیں۔ پی ٹی آئی پر ایک بڑی سیاسی جکڑ بندی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اس کو فی الحال سیاسی راستہ دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ لیکن سیاست کا کمال یہی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مشکل حالات میں بھی اپنے لیے سیاسی راستہ تلاش کرلیتی ہیں۔ اِس وقت قومی سیاست کو حزبِ اختلاف کی مشترکہ سیاست درکار ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر ملک میں جو سیاست اور جمہوریت قید ہے اُس کو باہر نکالنے کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اوّل: ہمیں ملک کو سیاسی، جمہوری، آئینی و قانونی ٹریک پر لانا ہے۔

دوئم: ملک میں جو معاشی بحران ہے اس سے نکلنے کے لیے عوامی مفادات پر مبنی سیاست کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

سوئم: اسٹیبلشمنٹ کے قومی سیاست میں بڑھتے ہوئے کردار کا خاتمہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام کرداروں کو پہلے سے موجود سیاسی، جمہوری اور آئینی و قانونی فریم ورک تک محدود کرنا اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

چہارم: ملک میں سیکورٹی سمیت اداروں کی مضبوطی کی جنگ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔

حال ہی میں جماعت اسلامی کے نئے امیر کا انتخاب مکمل ہوا ہے۔ ارکانِ جماعت نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کو اگلے پانچ برس کے لیے نیا امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا ہے۔ مجلس شوریٰ نے جن تین ناموں کی سفارش کی تھی اُن میں پہلے سے موجود امیر سراج الحق، لیاقت بلوچ اورحافظ نعیم الرحمٰن شامل تھے۔ پہلے تو جماعت اسلامی کو داد دینی ہوگی کہ ان حالات میں جب سیاست اور جمہوریت کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے اور خاندانی سیاست طاقت پکڑچکی ہے، وہاں امیر جماعت اسلامی کے انتخاب کا طریقہ کار ایک نئے پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کچھ برسوں میں خود کو جماعت اسلامی کے اندر ایک مضبوط سیاسی شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ شہریوں کے مسائل، مقامی حکومت، اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلتوں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی سندھ میں سیاسی اجارہ داری، وڈیرہ سیاست، پُرتشدد سیاست اور محض اقتدار کے کھیل تک محدود سیاست کو جس انداز اور جس جرأت سے انہوں نے چیلنج کیا ہے وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ نئے امیر جماعت اسلامی کے طور پر حافظ نعیم الرحمٰن کا ہی انتخاب ہوگا، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو اُن سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔ اس وقت ملک میں ان کے امیر جماعت بننے کے عمل کو دو حصوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اوّل: کیا نئے امیر جماعت، جماعت اسلامی کی موجودہ سیاست اور سیاسی سوچ، فکر اور حکمت عملی میں بنیادی نوعیت کی کچھ تبدیلیوں کو ممکن بناکر جماعت اسلامی میں موجود مسائل کو کم کرسکیں گے یا ان کی سیاسی اہمیت بڑھ سکے گی؟ یا جماعت اگلی انتخابی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرسکے گی؟ دوئم: کیا جماعت اسلامی موجودہ سیاسی بحران کے حل میں کوئی اہم کردار ادا کرسکے گی؟ اور جماعت اسلامی کی سیاسی اہمیت دیگر سیاسی جماعتوں سمیت اہم فریقین میں بڑھ سکے گی؟ یا جماعت اسلامی کی نئی قیادت قومی مسائل کے حل میں خود کو ایک طاقت ور فریق کے طور پر پیش کرسکے گی؟ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی خود کو ایک اسلام پسند جماعت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ہماری انتخابی سیاست میں بڑی تیزی سے مذہبی جماعتوں کی اہمیت یا ووٹ بینک کم ہوا ہے۔ خود مولانا فضل الرحمٰن کی اپنی مذہبی سیاست خیبر پختون خوا میں بھی اپنی اہمیت کھوچکی ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک مذہبی جماعت سے زیادہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر خود کو پیش کرنا ہے اور مسائل کا حل بھی سیاسی فریم ورک میں رہ کر ہی تلاش کرنا ہے۔ جماعت اسلامی فی الحال اتحادی انتخابی سیاست سے دور ہے اور وہ تن تنہا ہی انتخابی سیاست میں بطور جماعت پیش ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ طے کرنا ہے کہ اس کو پہلے سے جاری اس پالیسی کو ہی بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہے یا اس میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کو بھی بنیاد بنانا ہے؟ یہ حکمت عملی درست نہیں کہ جماعت مختلف صوبوں میں مختلف جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرے۔ اسے اتحادی سیاست میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں سے اگر کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو اس میں کوئی الجھن نہیں ہونی چاہیے، اور یہ اتحاد مستقل اور لمبے عرصے کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ بھی جماعت اسلامی کو طے کرنا چاہیے کہ اس میں جو لوگ فلاحی شعبہ جات سے منسلک ہیں ان کو عملی سیاست سے دور رکھا جائے اور سیاست و خدمت کے شعبہ جات میں واضح فرق ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس حد تک آگے بڑھنا ہے اور اس میں یہ تاثر کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کے ساتھ کھڑے ہیں، ختم ہونا چاہیے۔ اس وقت جمہوری سیاست کے جو بڑے بڑے مسائل ہیں ان کے حل میں جماعت اسلامی کو خود کو ایک طاقت ور فریق کے طور پر پیش کرنا ہے تاکہ جمہوری سیاست کی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کو ایک بڑی تحریک میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی نئی قیادت تمام جماعتوں اور سول سوسائٹی سمیت وکلا پر مشتمل ایک بڑی قومی کانفرنس کا انعقادکرے اور کم سے کم نکات کو بنیاد بناکر ایک بڑے سیاسی اور جمہوری ایجنڈے یا آئین و قانون کی پاس داری کو بنیاد بناکر ایک سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے۔ اسی طرح اس وقت جو ایک بڑی سیاسی جنگ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے اس میں بھی سیاسی دشمنیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور سب فریقوں کو اس نکتہ پر لانا چاہیے کہ سبھی اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنا اپنا کام کریں اور ایک دوسرے کے معاملات میں بلاوجہ کی مداخلت سے ہر فریق گریز کرے۔ نئے امیر جماعت اسلامی کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ نئی نسل کو کیسے اپنی جماعت کی طرف راغب کرتے ہیں، کیونکہ اس وقت نئی نسل پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ نئی نسل کے لوگ ابھی کسی اور جماعت کو نجات دہندہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں، اور سمجھتے ہیں کہ عمران خان ان کا حقیقی قائد ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اس صورت حال میں کیسے نئی نسل کو اپنی طرف لاتی ہے اور خاص طور پر جو بڑے بڑے چیلنجز داخلی سیاست اور معیشت کے حوالے سے درپیش ہیں ان پر کس حد تک نوجوانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ نئے امیر جماعت کا اپنا تعلق کراچی سے ہے اور وہاں انہوں نے جماعت کی مثالی قیادت بھی کی ہے، لیکن اب ذمہ داری محض پورے ملک کی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے سنگین قومی مسائل کی بھی ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہیں۔ یہ بڑے مسائل محض داخلی سیاست تک محدود نہیں بلکہ علاقائی اور خارجی سیاست سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ انتخابات کے نظام کی شفافیت کو یقینی بنانا اور جمہوری طرزعمل کی بنیاد پر ریاستی نظام کوچلانا اور اس پر جماعت اسلامی کی اپنی دبائو کی سیاست ہی مستقبل میں ان کی اپنی سیاست کے رخ کو بھی متعین کرے گی کہ نئی قیادت کے ساتھ جماعت اسلامی کا سیاسی یا انتخابی مستقبل کیا ہوگا۔