ہندوستان اور طاقت کی زبان

پاکستان کے حکمران بزدلی کی فصل کاشت کرکے امن کے خوشوں کی تمنا کررہے ہیں

طاقت کی زبان ایک عالمگیر زبان ہے، اور طمانچے سے ایٹم بم کی طاقت تک اسے ہر جگہ بروئے کار اور مؤثر دیکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ ایک عالمگیر زبان ہے اس لیے افراد سے قوموں تک اس کا ’’ابلاغ‘‘ ہوتا ہے۔ افراد ناخواندہ ہوں یا نیم خواندہ، تعلیم یافتہ ہوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ… طاقت کی زبان سب کی سمجھ میں آتی ہے اور اس کے ابلاغ کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی، کیوں کہ طاقت بجائے خود ایک دلیل ہے۔ اس اصول کا اطلاق قوموں پر بھی ہوتا ہے۔

اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ یہ بات سب سے پہلے کس نے کہی تھی کہ ہندوستان صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، لیکن اتنا ہمیں معلوم ہے کہ یہ فقرہ جس نے بھی کہا ہوگا، اُسے ہندوئوں اور مسلمانوں کے مشترکہ اور دو طرفہ تاریخی تجربے، ہندوئوں کی نفسیات اور اُن کی تاریخ کا کچھ نہ کچھ شعور ضرور ہوگا۔ یوں تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ طاقت کی زبان ہر کوئی سمجھتا ہے، لیکن مخصوص وجوہات کی بنا پر ہندو اس زبان کو کئی دوسری قوموں سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب یہ زبان مسلمانوں کی جانب سے بولی جارہی ہو۔

معاف کیجیے گا ہمیں ان حقائق کے اظہار کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے ہمارا حکمران طبقہ ہندوستان کے خوف میں مبتلا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی حکمران کو بھارت کے حجم سے خوف آتا ہے، کسی کو اس کے وسائل کی فراوانی خوف زدہ کرتی رہی ہے، کوئی اس کی بین الاقوامی اہمیت اور ساکھ سے خوف زدہ رہا ہے۔ اس خوف سے صرف قائداعظم بے نیاز تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 1948ء کی بے سروسامانی کے باوجود پاکستان کی فوج کو کشمیر میں داخل ہوجانے کا حکم دیا تھا۔ حالانکہ قائداعظم مبینہ طور پر بنیاد پرست تھے نہ اُن پر یہ الزام عائد کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی جنگی جنون میں مبتلا تھے، اور نہ ہی اُن پر یہ تہمت لگائی جاسکتی ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر حقائق سے صرفِ نظر کر گئے ہوں۔ ہندوستان سے بے خوفی کی تھوڑی بہت صلاحیت نواب زادہ لیاقت علی خان میں بھی تھی، مگر جیسا کہ ظاہر ہے وہ قائداعظم کا سایہ بھی نہ تھے۔ لیکن ان کے بعد جو بھی آیا ہے وہ ہندوستان کے خوف سے کانپتا رہا۔ اس میں مذہبی اور غیر مذہبی حکمران کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ اس گھاٹ پر شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں اور برصغیر کے مسلمانوں دونوں کی تاریخ کے تناظر میں یہ ایک ایسا منظر ہے جس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ ہنسی اس لیے کہ ہمارے حکمران ہندوئوں کے بارے میں ایک بنیادی بات بھی نہیں جانتے! اور رونا اس لیے کہ انہیں خود مسلمانوں کی تاریخ کا علم نہیں! یہ اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ نوائے وقت کے اداریہ نویس واجپائی کو ’’بڈھا کھوسٹ‘‘ کہہ کر خوش ہوتے تھے اور پاکستانیت کے مجاور اور ہندو دشمنی کے علَم بردار بھارت کے حکمرانوں کی ’’تحقیر‘‘ کرکے سمجھتے تھے کہ وہ بھارت کی مخالفت کا حق ادا کررہے ہیں، اور ہمارے یہاں گاندھی کا ذکر ہوتا ہے تو اکثر لوگ اس بات کے ذکر میں بڑی لذت محسوس کرتے ہیں کہ وہ نوجوان لڑکیوں کو ’’نفس‘‘ کی آزمائش کے لیے اپنے ساتھ رکھتا تھا اور عمر کے آخری حصے میں اس نے اپنی بیوی کو ’’ماں‘‘ قرار دے دیا تھا۔

شنید ہے کہ قائداعظم پر جو فلم بنائی گئی اُس میں نہرو اور لیڈی مائونٹ بیٹن کے معاشقے کو اہمیت کے ساتھ Establish کیا گیا ہے۔ افسوس کہ ہمارا قومی شعور اتنا پست ہوچکا ہے کہ وہ دشمنی کے رنگ ڈھنگ اور سلیقے سے بھی محروم ہوچلا ہے۔ جو لوگ اپنے دشمن سے اندر سے بہت خوف زدہ ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دشمن کو شکست نہیں دے سکتے وہ ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنے دشمن کی کبھی اس طرح تحقیر نہیں کی۔ یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ قائداعظم کو لیڈی مائونٹ بیٹن اور نہرو کے معاشقے سے متعلق دستاویزات پیش کی گئی تھیں اور ان سے کہا گیا تھا کہ انہیں پریس کو جاری کرکے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ لیکن قائداعظم نے یہ مشورہ دینے والے کو جھڑک دیا تھا اور جھڑکی کھانے والے کوئی اور نہیں شہیدِ ملت لیاقت علی خان تھے۔ قائداعظم کا ردعمل یقینا ایک سیاست دان کا ردعمل نہیں تھا۔ یہ ایک مسلمان اور ایک مدبر کا ردعمل تھا جو دوستی کے ساتھ ساتھ دشمنی کے اسلوب سے بھی آگاہ تھا۔ قائداعظم صرف سیاست دان ہوتے تو وہ مذکورہ دستاویزات سے ضرور استفادہ کرتے اور یقینا انہیں اس کا فائدہ بھی ہوتا۔ قائداعظم نے گاندھی اور نہرو پر طنز کیا ہے مگر اس کی سطح بہت بلند ہے اور اس کی پشت پر اعلیٰ اقدار پر یقین اور خود اپنے اوپر اور اپنی قوم پر اعتماد کا سرمایہ موجود تھا۔ لیکن یہ یقین اور سرمایہ کیا ہے؟

اس اعتماد اور اس سرمائے کو سیدھی سادی زبان میں ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہندو کسی بھی سطح پر کبھی بھی مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے‘‘۔ یہ محض کوئی دعویٰ نہیں بلکہ برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ اس امر پر دال ہے۔ ہندو تہذیب، جیسا کہ بعض لوگ ’’جوشِ ایمانی‘‘ اور ’’حب الوطنی‘‘ کے تحت بیان کرتے ہیں، کوئی معمولی تہذیب نہیں تھی۔ اس میں ایک غیر معمولی طور پر ترقی یافتہ مابعد الطبعیات تھی، اس میں فلسفے کی شاندار روایت موجود تھی، اس میں آرٹ کے متنوع اسالیب تھے، اس کے دامن میں ایک رنگا رنگ کلچر تھا، پانچ ہزار سال پرانی تاریخ تھی۔ اس کے پاس علم کے لیے زندگی وقف کردینے کی قابلِ رشک اور مستحکم روایت تھی۔ اس کے دامن میں وید تھے، اپنشد تھے، مہا بھارت تھی، گیتا تھی۔ شخصیات میں اس کے پاس رام تھے، ارجن تھے، گوتم بدھ تھے، بھرت اور اشوک جیسے بادشاہ تھے۔ غرضیکہ کیا نہیں تھا؟ ان باتوں کی اہمیت یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں آئے تھے تو وہ کسی صحرا میں نہیں آئے تھے۔ ایک بڑی اور بھرپور تہذیب ان کے سامنے تھی۔ مگر اسلام اور مسلمانوں کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اس تہذیب کے درمیان سے راستے تلاش کیے اور وہ اپنے قدم جماتے چلے گئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر ہندو کلچر کا اثر ہے۔ یہ بات غلط نہیں، مگر مسلمانوں نے ہندوئوں سے چار باتیں سیکھی ہیں تو انہیں ہزار باتیں سکھائی ہیں۔ وہ ایسا نہ کرتے تو آج برصغیر میں 75 کروڑ کے آس پاس مسلمان موجود نہ ہوتے۔ مسلمان اگر مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے کسی بنجر دنیا میں آئے ہوتے اور پھر انہوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہوتا تو اس کی بہت زیادہ اہمیت نہ ہوتی، لیکن برصغیر میں مسلمانوں کا کارنامہ ہی یہ ہے کہ انہوں نے ایک بھرپور تہذیب کے دائرے میں رہ کر زندگی بسر کی اور اسے بے پناہ متاثر کیا۔ وہ شان سے جیے اور جہاں وہ دو دو، چار چار کرکے آئے تھے وہاں انہوں نے ایک ہزار سال تک حکمرانی کی۔ یہ تجربہ ایسا ہے کہ اس کے حوالے سے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے مذہب، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود پر جتنا اعتماد ہو، کم ہے۔ مسلمانوں کو یہ اعتماد نہ ہوتا تو حالات خواہ کیسے ہوتے، پاکستان کی بات چل نہیں سکتی تھی اور نہ پاکستان بن سکتا تھا۔ مگر پاکستان کی بات بھی چلی اور پاکستان بھی بن کر رہا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو ہمارے حکمرانوں نے اپنی تاریخ کی ہر بات کو بھلانا اپنا فرض سمجھ لیا، اور آج ان کا حال یہ ہے کہ وہ بزدلی کی فصل کاشت کررہے ہیں اور انہیں اس فصل سے امن کے خوشے ملنے کی تمنا ہے۔

جہاں تک عسکری طاقت یا عمومی طاقت کے استعمال کی بات ہے تو اس میدان میں ہندو مسلمانوں کو کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ ہماری مراد حتمی اور فیصلہ کن شکست سے ہے۔ یہ بات بھی محض دعویٰ نہیں، اس کی پشت پر بھی کچھ تصورات موجود ہیں۔

ایک تصور تو شہادت ہی کا ہے۔ اب کہنے کو تو ہندو بھی اپنے تئیں شہید ہوتے ہیں، لیکن ہندو ازم میں شہادت کا کوئی تصور ہی موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ جس مذہب میں انسان سیکڑوں جنم لے سکتا ہو اُس میں شہادت کا تصور کہاں سے آئے گا! چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شہادت کا تصور مسلمانوں کی دین ہے اور مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندوئوں کے یہاں یہ تصور موجود نہیں تھا۔ اس سلسلے میں ہندوئوں کی مجبوری کا یہ عالم ہے کہ اُن کے پاس شہید کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ شہید کے لفظ کو کبھی کا ترک کرکے اپنا لفظ مروج کرچکے ہوتے، مگر ان کے پاس کوئی لفظ ہی نہیں چنانچہ وہ شہید کا لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اب یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ کوئی ہندو اپنے وطن کے لیے بہادری سے نہیں لڑ سکتا اور وہ کسی غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ زمین کی محبت انسان میں وہ اوصاف پیدا نہیں کرسکتی جو شہادت کا تصور پیدا کرسکتا ہے۔ اب مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے لڑتے ہیں تو جہاد کرتے ہیں، اور اس جہاد میں جان جاتی ہے تو شہادت کا رتبہ حاصل ہوتا ہے، اور مسلمانوں کے نزدیک یہ رتبہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے ایک بار کیا بار بار جان دینے کی آرزو کی جاسکتی ہے۔ یہ ہندوئوں کی ایک کمزوری ہے، اور ہندوئوں کی قیادت اس سے ہمیشہ واقف رہی ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہندوئوں نے ہر دور میں علیحدہ سے ایک لڑنے والا طبقہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، ایسا طبقہ جو لڑنے، جان دینے اور خون بہانے سے نہ ڈرتا ہو، اور جس کا مقصدِ وجود ہی صرف لڑنا ہو۔ یہ کام ایک عرصے تک کھشتریوں سے لیا جاتا رہا جو روایتی ہندو ازم میں ’’روحانی ٹائپ‘‘ کی درجہ بندی میں برہمنوں کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ پھر یہ کام راجپوتوں سے لیا گیا جن کی بہادری اور دلیری ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں ہندوئوں نے اتنی کاوش کی ہے کہ راجپوتوں کو ایک MYTH میں تبدیل کردیا۔ یہ برہمن ازم اور ہندوازم کی ایک تاریخی، سیاسی اور سماجی ضرورت تھی۔ راجپوتوں کے بعد یہ کام کئی اور لوگوں سے لیا گیا، ان میں مراٹھے بھی شامل ہیں۔ حالیہ تاریخ میں ہندوئوں نے یہ کام سکھوں سے لیا ہے۔ کیا یہ امر حیرت انگیز نہیں کہ ہندوستان میں سکھوں کی آبادی جب دو تین کروڑ یا شاید اس سے کچھ زیادہ تھی تو اُس وقت بھارت کی فوج میں سکھوں کی تعداد 15 فیصد سے زیادہ تھی، قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کے قتلِ عام کے سلسلے میں بھی ہندو سکھوں ہی کو بروئے کار لائے، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کام ہندوئوں کے بس کا نہیں۔

ایک وقت تھا کہ خون ہندوئوں کی نفسیات کا ایک بڑا خوف تھا۔ گاندھی اس بات کو سمجھتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ اگر کبھی وقت آیا تو انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد ہندو کے بس کا روگ نہیں ہوگا۔ ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس امر پر حیرت ہوتی ہے کہ جب برصغیر کے مسلمان ترکی میں خلافت کے خاتمے پر سراپا احتجاج تھے اور خلافت تحریک برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی تو گاندھی نے خلافت تحریک میں شمولیت کا اعلان کیا۔ خلافت گاندھی اور ہندوئوں کا مسئلہ نہ تھی، اور نہ خلافت تحریک میں شمولیت کوئی مشترکہ کاز تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ گاندھی چاہتے تھے کہ ہندو اس تحریک سے متنوع قسم کی تربیت حاصل کریں اور ان کے عمل پر لگا ہوا زنگ اتر جائے، اور اگر ممکن ہو تو عسکریت ان کے مزاج سے کسی نہ کسی حد تک ہم آہنگ ہوجائے۔ یہی وجہ تھی کہ گاندھی جس طرح اچانک خلافت تحریک میں شامل ہوئے تھے اسی انداز میں تحریک سے الگ بھی ہوگئے۔ گاندھی کا عدم تشدد کا فلسفہ جو بھی کچھ تھا بہرحال اس کی پشت پر ہندوئوں کی مجموعی ابتر حالت کا شعور بھی کارفرما تھا۔ اس کی بغیر اس فلسفے کو سمجھنا محال ہے۔

ہندوئوں کا عدم تحرّک، عسکریت سے گریز، موت کا خوف، خون بہانے سے بچنے کی کوشش کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، بلکہ اس کا سبب ہندوازم کی محدودات اور اس کی تہذیب کا زاویۂ نگاہ تھا۔ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک تھا اور اگرچہ اس کے پاس ایک بھرپور تہذیب تھی لیکن ہندو ازم ایک مقامی حقیقت تھی۔ چنانچہ ہندو تہذیب ایک خود مکتفی لیکن ایک دروں بیس (introvert) تہذیب تھی جس میں سمندر پار جانا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ تہذیب رفتہ رفتہ اپنی بہت سی صلاحیتیں کھوتی گئی اور اس کے متاثرین کی ’’معذوریاں‘‘ بڑھتی چلی گئیں، ایسا نہ ہوتا تو ہندوستان بار بار مفتوحہ علاقہ نہیں بن سکتا تھا۔ ہندوستان میں کون نہیں آیا؟ یہاں آریہ آئے، سکندراعظم آیا، مسلمان آئے اور مسلمانوں میں مغل آئے اور ترک آئے، اور بالآخر انگریز آئے، اور ہندوستان ہر ایک کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا چلا گیا۔ یہ ہندوئوں کی نفسیات کے بارے میں ایک بنیادی بات ہے، اس کا تعلق جیسا کہ ہم نے عرض کیا طاقت کے خوف اور اپنی تاریخ و تہذیب کی محدودات اور معذوریوں سے ہے۔

ہر چند کہ اب دنیا بدل چکی ہے اور ہندو سیکولرازم کے زیراثر بہت کچھ بدل چکے ہیں، لیکن اجتماعی نفسیات کے مسائل سے سو، پچاس سال میں نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہندوئوں کا سب سے بڑا تاریخی تجربہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، اور وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس تجربے کا خوف ہندوئوں کے دلوں سے نکلا نہیں ہے۔ لوگ ہندوستان میں ہونے والے مسلم کُش فسادات پر حیران ہوتے ہیں، بعض لوگ بی جے پی کی عسکریت کو ہندوازم سے حاصل ہونے والا جنون سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ہندوئوں کا تاریخی خوف ہے۔ ہندو قیادت کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کے تئیں ہندوئوں کو جہاں تک ممکن ہو متحرک اور پُرتشدد بنایا جائے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں سے نمٹنے اور ہندوئوں کی بقا کا یہی ایک طریقہ ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس حقیقت کی نشاندہی کی ضرورت نہیں کہ ہندوستان کے اعصاب پر طاقت کی ہر شکل کا خوف مسلط کرنا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ بے شک ہمارے پاس ایک چھوٹی فوج ہے لیکن بھارت کی بڑی فوج کے مقابلے پر یہ ہر اعتبار سے ایک بہترین فوج ہے جس میں جوان کی سطح سے نچلی سطح کے عہدیداروں تک شہادت اور دلیری کے تصورات کام کرتے ہیں۔ البتہ جنرلوں کی سطح پر ہماری فوج ہمیشہ مسائل کا شکار رہی ہے اور اس سطح پر فوج کی کارکردگی افسوس ناک اور مایوس کن رہی ہے۔ پاکستان کے مایوس کن منظر نامے میں اگر اس وقت کوئی بات حوصلہ افزا ہے تو وہ صرف یہ کہ یہاں جہاد کا کلچر فروغ پارہا ہے اور جوانوں میں شہادت کی آرزو پھیلتی چلی جارہی ہے۔ ہم ہندوستان کی فوجی طاقت، اُس کے وسائل، اُس کی عالمی حیثیت کے منکر نہیں، لیکن ہمیں اپنی تاریخ اور اپنی قوم کی صلاحیت پر اعتماد ہے، اور اس کی بنیاد پر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے داخلی بحرانوں پر قابو پا لیں اور ملک کو بہترین نہیں کسی حد تک بہتر قیادت میسر آجائے تو ہم ہندوستان سے نمٹنے اور علاقے میں تاریخ کا دھارا بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔