کچھ بھی کرلو، لکھنے والے اِن شاء اللہ کو ’انشاء اللہ‘ لکھنے سے باز نہیں آئیں گے۔ السّلامُ علیکم کو بھی ’اِسلام وَعلیکم‘ لکھنا عام ہوتا جارہا ہے۔ ثقہ ثقہ لوگ لکھ رہے ہیں۔ کیا عجب آگے چل کر یہی املا درست مانا جانے لگے اورجو درست ہے اُس کو نادرست گردانا جانے لگے۔
بارہا کہا کہ ’اِن شاء اللہ‘ قرآنی کلمہ ہے۔ اِسے اُسی طرح لکھنا چاہیے جس طرح قرآنِ پاک میں آیا ہے۔ ’غلط العام‘ ہوجانے کی رعایت دے کر قرآنی املا میں تبدیلی گوارا کرلینے سے کئی نِت نئے فتنوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ تفصیلی گفتگو کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ یہ کلمہ اُن کلمات میں سے ایک ہے جو دنیا کی کوئی بھی زبان بولنے والا مسلمان بار بار بولتا ہے۔ قدیم دور کے سچے مسلمان یہ کلمہ ایسے موقعے پر بولا کرتے تھے جب اُنھیں اپنے ارادے کی پختگی ظاہر کرنی ہوتی تھی۔ یعنی میرا عزم بالجزم ہے۔ یہ کام ہر صورت میں ہوگا بشرطے کہ اللہ کو منظور ہوا۔ اگر اللہ ہی نہ چاہے اور اس کام کی راہ میں کوئی غیبی رُکاوٹ حائل ہوجائے تو بندہ مجبور ہے۔ مگر جدید دور کے ہم جیسے مسلمانوں نے جس طرح اس کلمے کا املاجدید کردیا ہے اسی طرح اس کا مفہوم بھی اُلٹ کر بالکل ’جدیدیا‘ دیا ہے۔ یعنی اگر جدید مسلمان نے ان شاء اللہ کہہ دیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں تو یہ کام نہیں کرنا چاہتا، اللہ ہی کروالے تو کروالے۔
ہمارے محلے کے ایک بزرگ بلکہ تمام سبک دوش بزرگوں میں سب سے سبک دوش بزرگ محترم محمد بشیر مغل صاحب اپنا قصہ سناتے ہیں کہ ایک دن اُن سے اُن کے انگریز باس نے کسی کام کے متعلق کہا کہ یہ کام آپ کو لازماً کرنا ہے۔ مغل صاحب نے اسے یقین دلایا:
“In Sha Allah I will do it.”
باس بھی بڑا بُوجھ بجھکڑ تھا۔ کہنے لگا:
ـ”No In Sha Allah, no In sha Allah, you must do it.”
صاحبو! اِن شاء اللہ میں’اِنْ‘ کا مطلب ہے ’اگر‘ اور ’شَائَ اللہ‘ کا مطلب ہے ’چاہا اللہ نے‘۔ اس طرح پورے کلمے کا لفظی مطلب ہوا ’اگر چاہا اللہ نے‘۔ عام بول چال میں یہی بات ہم یوں کہتے ہیں ’اگر اللہ نے چاہا‘۔ مگر لوگوں نے چاہا کہ ’اِنْ‘ اور ’شاء‘ کو الگ الگ لکھنے کی زحمت اُٹھانے کے بجائے ملا کر ’انشاء‘ لکھ دیا جائے، سو لکھ مارا۔ لوگوںکا بس چلتا تو یہ پورا کلمہ ہی ملا کر لکھ مارتے۔ مگر شاید بس چلا نہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ نہایت عالم فاضل لوگ بھی ’انشاء اللہ‘ لکھ رہے ہیں۔ کیا وہ یہ بات جانتے نہ ہوں گے کہ اس طرح لکھنے سے اس کلمے کے معنی بدل جاتے ہیں؟ اگر اُن سے پوچھ لیا جائے تو بھلا کیا جواب دیں گے؟ ہم جیسا عامی عوامی آدمی تو کہہ سکتا ہے کہ ’’ارے بھئی! معنی بدلتے ہیں تو بدلا کریں۔ ہم کون سا معنی مطلب دیکھ کر بولتے یا لکھتے ہیں۔ ہمیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ یہ لفظ، یہ جملہ یا یہ ترکیب عموماً کس موقعے پر استعمال کی جاتی ہے، سو کرلیتے ہیں۔ لفظ، جملے اور ترکیب میں کیا فرق ہوتا ہے؟ جانے میری بلا، یا جانے میری جوتی‘‘۔
لغت کہتی ہے کہ ’نَشَأَ‘ کے معنی ہیں نئی چیز پیدا کرنا۔ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۃ الملک کی آیت نمبر 23 کا آغاز یوں ہوتا ہے: ’’قُلْ ھُوَ الَّذِیْ ٓاَنْشَاَکُمْ‘‘ آپ فرما دیجیے کہ وہی ہے جس نے تمھیں تخلیق کیا۔ ’اَنشائَ اللہ‘ کا مطلب ہوگا ’اللہ نے پیدا کیا‘۔ مگر آپ کہیں گے کہ یہاں تو الف مفتوح ہے، یعنی الف پر زبر ہے، ہم تو الف پر زیر کے ساتھ اِنشاء لکھتے ہیں۔ بجا فرمایا۔
اِنشاء کا ایک لغوی مطلب پرورش و پرداخت کرنا اور وضع کرنا یا ابتدا کرنا ہے۔ ’نشأت‘ یا ’نشأۃ‘ پرورش کو کہتے ہیں یعنی پروان چڑھانے کو۔ نشأۃ کے معنی کسی بات، کسی روایت یا کسی نظریے کو ازسرِنو زندہ کرنا بھی ہیں۔ اسلام کی ’نشاۃِ ثانیہ‘ کے لیے آج دنیا بھر میں کئی پُرجوش تحریکیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ سولہویں صدی میں یورپ کے اندر بھی ایک تحریک اُٹھی تھی۔ اس تحریک نے یورپ کو قرونِ وسطیٰ کی پستیوںاور اندھیروں سے نکالا اورسقوطِ ہسپانیہ کے نتیجے میں قرطبہ کے کتب خانوں سے حاصل ہونے والی چار لاکھ کتب کی مدد سے جدید نظریات، جدید طرزِ فکر اورجدید علوم کا ڈول ڈالا۔ اس تحریک اور اس دور کو بھی ’نشاۃِ ثانیہ‘ (Renaissance)کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
دل کش بات یا خوش کُن کلام وضع کرنے، عمدہ شعر کہنے اور بہترین خطابت سکھانے والا علم عربی زبان میں ’علم الانشاء‘ کہلاتا ہے۔ اردو زبان میں بھی نگارش، لکھائی، تحریر، عبارت آرائی، مضمون نویسی اور خطوط نگاری وغیرہ کا شمار ’اِنشاء‘ میں ہوتا ہے، مگر عربی کی طرح اُردو میں اس لفظ کے آخر میں ہمزہ نہیں لگایا جاتا۔ ہمزہ کے بغیر ہی ’اِنشا‘ لکھا جاتا ہے۔ ہاں ’اِنشائے لطیف‘ لکھنا ہو تو مجبوراً ہمزہ لگا دیتے ہیں۔ ’انشائے لطیف‘ سے مراد وہ ادبی تحریر ہے جس سے طبیعت میں لطف پیدا ہو۔ اِن پُرلطف تحریروں کے لیے الگ سے ایک صنف مقرر کردی گئی ہے، جسے ’انشائیہ‘ کہتے ہیں۔ لفظ ’اِنشا‘ کا استعمال اشعار میں بھی کثرت سے ملتا ہے۔ مثلاً تسلیمؔ کہتے ہیں:
عالمِ وحشت میں جب لکھا کوئی خطِ فراق
ربط بگڑا میری اِنشا کا، غلط املا ہوا
جب کہ سرمدؔ کا عمر بھر کا دیوان ہی غلط اِنشا سے رائیگاں چلا گیا:
نسخۂ آشفتۂ دیوانِ عمرِ ما مپرس
خط غلط، معنی غلط، اِنشا غلط، املا غلط
اِنشا ہی سے’مُنشی‘ نکلا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر دفتری محرر (Office Clerk) کو منشی کہہ دیا جاتا ہے، مُنشی جی، جن کی ناک کی نوک سے پھسلتی ہوئی عینک کے اوپر سے جھانکتی آنکھوں کا ہونا لازم ہے۔ حالاں کہ منشی کا مطلب ہے انشا پرداز، صاحبِ قلم یعنی لکھنے والا (Writer)۔ اکبر بادشاہ کے نورتنوں میں سے ایک رتن ابوالفضل جیسے فاضل شخص کو اہلِ ایران ’مُنشیِ ہند‘ پکارا کرتے تھے۔ مسلم ہندوستان میں باقاعدہ ’منشی‘ کی سند دی جاتی تھی۔ چناں چہ وہاں منشی ذکاء اللہ اور منشی پریم چند جیسے بہت سے انشا پرداز اور تخلیق کار پائے جاتے تھے۔
یہاں ایک دلچسپ بات اور بتاتے چلیں کہ آج کل بکثرت استعمال ہونے والا لفظ ’مولوی‘ بھی ایک تعلیمی سند تھی۔ یوں تو کہا جاتا ہے کہ مولوی کا تعلق ’مولا‘ سے ہے، لہٰذا ہر اللہ والے کو’مَولَوی‘ کہا جاتا تھا، جیسے مولانا جلال الدین رومیؒ کو اب تک ’مولویِ معنوی‘ کہہ کر پُکارتے ہیں۔ بلکہ کسی نامعلوم شاعر نے اپنے شعر مں بھی پُکارا ہے:
علمِ مولیٰ ہو جسے، ہے مَولَوی
جیسے حضرت مَولَویِ معنوی
مگر مسلم ہند میں ’مولوی‘ کا بھی باقاعدہ امتحان ہوتا تھا۔ مولوی ہوجانے کی سند دی جاتی تھی۔ مولوی عبدالحق معروف معنوں میں مولوی نہیں تھے، برعکس تھے۔ ایک ہندو ادیب بھی تھے جو مولوی تھے۔ اس وقت نام ذہن سے نکل گیا ہے۔ یاد کرنے پر بھی یاد نہیں آرہا ہے اور کھوجنے پر بھی نہیں مل رہا ہے۔ ’نسیان مجھے لوٹ رہا ہے یارو‘۔ شاید کسی قاری کو یاد آجائے، قارئین کا حافظہ، سناہے، اچھا ہوتا ہے۔
ملا واحدی ’’میرے زمانے کی دلی‘‘ میں، منشی ذکاء اللہ کا ذکر کرتے ہوئے، لکھتے ہیں:
’’مولوی وہی کہلاتا تھا جو پورا مولوی ہوتا تھا۔ ذرا سی کسر رہ جاتی تو اُسے منشی کہتے تھے… منشی ذکاء اللہ نے اتنی تصنیفات اپنی یادگار چھوڑی ہیں کہ اتنی کتابیں آج کل کے لوگ اطمینانِ قلب کے ساتھ پڑھ بھی نہیں سکتے‘‘۔
مگر امید کی جاتی ہے کہ اس کالم کو اطمینانِ قلب کے ساتھ پڑھ لینے والے اِن شاء اللہ اب ’انشاء اللہ‘ لکھنے کی غلطی نہیں کریں گے۔